PTI ke 3 Adwaar By Dr Hussain Ahmad Paracha

پی ٹی آئی کے تین ادوار ..... ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

فواد چودھری اپنی پارٹی کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ہیں یا دلِ دردمند رکھنے والے پارٹی رہنما؟ انہوں نے عالمی میڈیا پر چونکا دینے والا بیان دے کر ساکت و جامد سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ اب ہر کوئی اپنے مزاج اور اپنی افتادِ طبع کے مطابق اس پر تبصرہ کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ ہلچل دو روز پہلے کابینہ کے اجلاس کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ اجلاس میں فواد چودھری کے بیان پر سینئر رہنمائوں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے احتجاج کیا۔ فیصل واوڈا‘ جو گرم گفتاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘ نے دونوں سینئر رہنمائوں پر وزیراعظم کی موجودگی میں تندوتیز تنقید کی اور انہیں وزارتِ عظمیٰ کا خواہش مند قرار دے ڈالا۔ 30 اکتوبر 2011ء تحریک انصاف کی شہرت، عظمت اور مقبولیت کا نقطۂ عروج تھا۔ یہ جماعت کے نظریاتی تشخص کا درجۂ کمال تھا۔ اُن دنوں روزانہ عمران خان قوم کو کوئی نیا خواب دیتے جسے قوم آنکھوں میں بسا لیتی۔ تب ع
کیسے کیسے خواب ان پلکوں میں آویزاں رہے
عدالتی انصاف کا خواب، یکساں تعلیم کا خواب، تیسری قوت کا خواب، کرپشن کے خاتمے کا خواب، کروڑوں ناخواندہ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا خواب، پولیس اصلاحات کا خواب، قانون کی حکمرانی کا خواب، آئی ایم ایف سے نجات کا خواب، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا خواب اور سب سے بڑھ کر ایک بہت بڑا خواب یعنی تبدیلی کا خواب۔ اس زمانے میں سنجیدہ فکر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان مردم شناسی سے کام لے کر اپنی بہترین ٹیم منتخب کر رہے ہیں اور اُن کی تربیت کا زبردست اہتمام کر رہے ہیں تاکہ اقتدار کی سیٹی بجتے ہی یہ تربیت یافتہ مردانِ ہنرمنداں اپنے اپنے محاذ پر بے مثال کارکردگی دکھانے پہنچ جائیں۔ جس طرح سے اکتوبر 2011ء پی ٹی آئی کے نظریاتی دور کا نقطۂ عروج تھا اسی طرح 14 اگست 2014ء اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز تحریک انصاف کے نظریاتی دور کا پہلا نقطۂ زوال تھا۔ 126 دنوں پر مشتمل اس دھرنے کے دوران جس طرح سے اسلام آباد میں دھماچوکڑی مچائی گئی اُس سے خان صاحب سے وابستگی رکھنے والے بزرگ ہی نہیں بہت سے نوجوان بھی برگشتہ ہو گئے۔ اس مرحلے پر خان صاحب دو مغالطوں کا بری طرح شکار ہو گئے۔ پہلا مغالطہ یہ تھا کہ خان صاحب یہ سمجھنا شروع ہو گئے کہ اقتدار ''الہ دین کا چراغ‘‘ ہے۔ اس چراغ کے ہاتھوں میں آتے ہی وہ ''ہو جا‘‘ کہیں گے تو ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور بیرونِ ملک سے ڈالروں کی برسات ہو جائے گی۔ دوسرا مغالطہ یہ تھا کہ اقتدار ہر قیمت پر حاصل کر لینا چاہئے چاہے اس کیلئے پی ٹی آئی کے نظریات اور خان صاحب کو اپنے سابقہ بیانات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ عملاً ایسا ہی ہوا لہٰذا نظریاتی تحریک انصاف جائن کرنے والے مخدوم جاوید ہاشمی، جسٹس وجیہہ الدین، حامد خاں ایڈووکیٹ اور دیگر کئی ممتاز شخصیات تحریک انصاف سے کنارہ کش ہونے لگیں۔ یوں تحریک انصاف کا نظریاتی دور عملاً اختتام پذیر ہوا۔
۔2018ء کے انتخابات سے پہلے ہی تحریک انصاف کا سیاسی دور شروع ہو گیا تھا جس میں یہ خبریں عام تھیں کہ خان صاحب نے ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ خان صاحب نے نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کرکے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیئے۔ کچھ غیبی قوتیں بھی اُن کی مددگار تھیں۔ اس مرحلے پر جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کرنے کیلئے زبردست جدوجہد کا آغاز کیا۔ جناب جہانگیر ترین اپنے سینے کے داغوں کو چھپا کر اور اپنی چھاتی پر تمغۂ نااہلیت سجا کر جناب عمران خان کی تاجپوشی کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ بھاگ دوڑ میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے نہ صرف خزانے کے منہ کھول دیئے بلکہ اپنے پرائیویٹ جہاز میں اڑانیں بھر بھر کر اور اپنے دہائیوں پر پھیلے ہوئے سیاسی و سماجی اثرورسوخ کو کام میں لا کر اور بہت سے ممبرانِ اسمبلی کو بنی گالہ خان صاحب کے حضور حاضر کرکے تحریک انصاف کی اسمبلی اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا۔ اقتدار کے دو برسوں میں جہانگیر ترین نے اپنی ذات کیلئے نہ کوئی جلی یا خفی عہدہ طلب کیا، نہ کوئی صنعتی و زرعی یا کوئی مالی منفعت حاصل کی۔ ان برسوں میں خان صاحب اپنی افتادِ طبع کے مطابق اپنی سیاسی ٹیم کو نظرانداز کرکے نئے مشیروں سے کام لیتے رہے۔
پی ٹی آئی کے سیاسی دور کے دو برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران تحریک انصاف کی سیاسی، معاشی، سفارتی کارکردگی کا گراف نچلی ترین سطح پر آ چکا ہے۔ اس دوران خان صاحب کو اتنے سازگار حالات ملے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے برسراقتدار آنے والی کسی سیاسی جماعت کو نہ ملے تھے۔ خان صاحب خود فخریہ بتاتے ہیں کہ وہ اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں، اس کے باوجود اگر کارکردگی صفر ہو تو ذمہ دار کون ہے؟ کورونا سے پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق تحریک انصاف جب برسراقتدار آئی اس وقت شرح نمو 5.8 تھی جو اب 0.38 پر آ چکی ہے۔ خان صاحب کے دور میں قرضہ 43,000 ارب کی بلند ترین سطح کو چھورہا ہے جو ہماری قومی پیداوار کا 98 فیصد ہے۔ سادہ مثال یہ ہے کہ ایک شخص کی آمدنی اگر 100 روپے ہے تو اس کے ذمے 98 روپے قرض واجب الادا ہے۔خان صاحب برسراقتدار آئے تو فی کس سالانہ آمدنی 1652 ڈالر تھی جو اب 1153 ڈالر ہو چکی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ سفارتی محاذ پر ہمارا یہ حشر ہو چکا ہے کہ گزشتہ 11 ماہ سے بیچارے کشمیری بدترین لاک ڈائون کا شکار ہیں اور عمران خان او آئی سی کے ذریعے مودی پر کوئی دبائو نہیں ڈلوا سکے۔ یہ ہے دو سالہ سیاسی دور کی کارکردگی کی ایک جھلک۔ اب پی ٹی آئی کا تیسرا دور شروع ہو چکا ہے جسے میں افراتفری کا دور کہوں گا۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے ع
نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ملک میں پٹرول موجود ہے مگر پٹرول پمپوں سے غائب ہے، چینی موجود ہے مگر یوٹیلٹی سٹوروں اور دکانوں سے غائب ہے، ابھی ابھی گندم کی نئی فصل آئی ہے مگر آٹا نایاب ہے۔ اب سادہ روٹی دس روپے کی ہونے والی ہے۔ دوائیں میڈیکل سٹوروں سے غائب ہیں۔ کورونا کو ملک میں آئے تین چار ماہ ہو چکے ہیں مگر آئوٹ آف کنٹرول ہے بلکہ مزید پھیلتا جا رہا ہے اور خود خان صاحب جولائی اور اگست میں لاکھوں اموات کے اندیشے کی ہولناک خبریں سنا رہے ہیں۔ کورونا کے جاں بلب مریضوں کو بچانے کیلئے جو ادویات یا پلازمہ ہے وہ بلیک میں لاکھوں میں بک رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی اپنی ہی حکومت پر کھلم کھلا تنقید کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اپنے ہی حکمرانوں تک اُن کی کوئی رسائی نہیں۔ ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ جتنی بیوروکریسی آج طاقتور ہے اتنی گزشتہ ستر سالوں میں کبھی نہ تھی۔ وزیراعظم اپنی ٹیم کے وزرا پر اعتماد کرنے کے بجائے اُن کی وزارتوں کے سیکرٹریز پر بھروسا کرتے ہیں۔ دو سالہ کارکردگی احتساب یا انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی مافیا منہ زور ہے تو قصور گورننس کا ہے مافیا کا نہیں۔
اس تناظر میں فواد چودھری کا بیان ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جناب عمران خان کی لیڈرشپ کے خلاف چارج شیٹ جاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ خان صاحب کو بیل آئوٹ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اتنی ناقص کارکردگی کا سبب خان صاحب نہیں اُن کی ٹیم ہے۔ اگر ٹیم ناموزوں ہو اور ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اس کی ذمہ داری ٹیم پر نہیں کپتان پر ہوتی ہے۔
یہ ہے تحریک انصاف کے تین ادوار کی مختصر کہانی۔
 
Columnist
Dr. Hussain Ahmed Paracha
Column date
Jun 27, 2020

@intelligent086
عروج آیا نہیں زوال شروع
بہت عمدہ معلومات
پراچہ صاحب کی رائے معتبر ہے
ابھی تین سال باقی ہیں اللہ کرے پاکستان کے لیئے کچھ بہتر ہو جائے۔۔۔۔
پسند اور رائے کا شکریہ
 
Back
Top