Qaumon ki tameer kaise mumkan hai? Professor Usman Sarwar Ansari Article

قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

koshish.jpg

تحریر : پروفیسر عثمان سرور انصاری
انسان کی نسل درنسل مسلسل مجموعی زندگی کا تسلسل بھی ریل گاڑی کے آپس میں جڑے ہوئے ڈبوں کی طرح ہے ،وقت جس طرح زندگی کو سفر میں رکھتا ہے
ایسے ہی ریل گاڑی کا انجن اس کے تمام ڈبوں کو ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک لے جانے کا سبب ہے ۔ہاں، وہ پٹری جس پر ریل گاڑی رواں دواں نظر آتی ہے ایسے ہی ہے جیسے انسان کی زندگی میں مختلفرجحان، عادات، افکار، اور روایات وغیرہ کہ جن پر سفر کرتے ہوئے انسان آمد سے رخصت تک کا سفر مکمل کرتا ہے جیسے انجن خودکار ہونے کے ساتھ ساتھ محض کچھ تھوڑی سی مہلت آپریٹر کو دیتا ہے کہ وہ اسے کچھ ہدایات دے سکے ایسے ہی وقت پر کچھ معمولی سا مگر انتہائی موثر اختیار انسان کے پاس بھی موجود ہے ۔ریل گاڑی کی ساری کہانی میں آج کا مرکزی نقطہ ریلوے لائن ہے، جس پر چلتے ہوئے منزل تک رسائی ممکن ہو پاتی ہے۔ فرض کرلیتے ہیں ریل گاڑی لاہور اسٹیشن پر موجود ہے انجن بہت ہی اچھا اور معیاری حالت کا ہے ۔تمام کے تمام ڈبوں کا آپس میں تعلق بھی انتہائی مضبوط اور مربوط ہے، تمام کے تمام مسافر بھی پڑھے لکھے، مہذب، باکردار اور خلوص نیت کے مالک ہیں ۔ وہ اپنے عہد کے پکے اور باعزم ہیں ، عزم کے حصول میں ماہر بھی ہیں ۔لیکن جب تک ریلوے لائن کراچی والی نہیں ہو گی اس وقت تک کراچی کا سفر ممکن نہیں۔
انسان کی زندگی کا بھی سارا سفر آمد کے اسٹیشن سے جب آغاز کرتا ہے تو وہ وقت کی گاڑی کسی نہ کسی پٹری پر دوڑتی ہے ، وقت کی پٹری مختلف رجحان، عادات، افکار اور روایات ہیں تب ہی تو ہر ملک، ہر علاقے اور ہر معاشرے میں رہنے والے انسان کے تجربات، عادات اور تعلیم مختلف ہوتی ہے۔ یہ اختلاف اس لیے موجود ہے کہ ہر پٹری کسی نہ کسی سمت کو جاتی ہے ،ہر سمت میں آنے والے مناظر اور تجربے مخصوص اور جداجدا ہیں۔ یہی وجہ ہے خیبر پختونخوا میں جنم لینے والا بچہ پشتون زبان سیکھتا جائے گا ،بلوچستان کی فضا میں سانس لینے والا دھیرے دھیرے بلوچی ، سندھ کا باشندہ سندھی اورپنجاب کا باسی پنجابی کو بغیر کسی ارادتاً کوشش کے سیکھ جائے گا۔ زبان کے علاوہ زمین کی جغرافیائی کیفیت بھی شخصیت پر ان مٹ اثرات مرتب کرتی رہے گی۔
خیبر پختونخوا کے فلک بوس پہاڑوں کی ایک اپنی منفرد تاثیر ہے جو اپنے باسیوں کو ہر طرح سے متاثر کرتی رہتی ہے۔ یہی تاثرات پختونوں کو دوسری دنیا سے منفرد کرتے ہیں۔ افریقہ میں درجہ حرارت کا زیادہ ہونا وہاں کے باسیوں کو گورا رکھتا ہے ۔آب و ہوا بھی انسانی رویوں اور نقوش پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، یہ سب وجوہات تو قدرتی ہیں جن میں انسان کی پہچان کے لیے فرق رکھا گیا کچھ وجوہات ایسی بھی ہیں جو انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں وہ بھی اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہیں ۔اپنے ماحول میں بسنے والے افراد کو متاثر کرتی ہیں اوران کے تاثرات بھی افراد کی طرزِ حیات سے دوسرے افراد کے درمیان انفرادیت رکھتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کی ریل گاڑی جس پٹری پر دوڑتی ہے اس کی دو یک طرفہ لائنوں میں سے ایک قدرتی صلاحیت رکھتی ہے ۔ دوسری انسانوں کے مجموعی رجحان اور روایات کے باعث معرضِ وجود میں آئی ہے اب ان دونوں کے باہمی تعلق کو سمجھنا اور ان میں ایک مساوی ربط قائم کرنے کی کوشش انسان کے لیے اس کی زندگی کے سفر کو پرسکون اور خوشگوار بنا سکتی ہے۔ اس کاوش میں کامیاب ہونے والی قوموں نے ہی ترقی اور خوشگواری کو اپنا نصیب بنایا۔ جو قومیں اپنی قدرتی اور خودساختہ لائنوں کی پٹری کو سمجھ نہ پائیں وہ آج بھی ترقی کی منزل سے بہت دور مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔
یاد رکھیے،قوموں کی تعمیر بڑے بڑے کاموں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے بھی ممکن ہے۔ ایک بڑا کام بذاتِ خود اپنے اندر چھوٹے چھوٹے کاموں کو سموئے ہوئے ہوتا ہے اسی لیے تو ایک بڑا کام کہلوانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔ دنیا کی کامیاب اور ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ پر غور کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے ان اقوام نے انفرادی سطح پر تبدیلی کے سفر کا آغاز کیا جو آخر کار پوری قوم کے لیے تبدیلی کا پیش خیمہ بنا۔ انفرادی سطح پر تبدیلی کی کوشش کے بغیر دوسرا کوئی طریقہ ایسا موجود نہیں جس سے مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔اس کی مثال پاکستان میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ یہاں کچھ نہیں بدلا۔بدلے بھی کیسے ، ہر سطح پر مکمل انفرادی تبدیلی سے ہی ملک کے حالات بدل سکتے ہیں۔ جب افراد بدلیں گے تب ہی تبدیلی ممکن ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ برس مون سون کے آغاز میں شجرکاری مہم کا پودا لگا کر افتتاح کرتے ہوئے اپنی مدت کے دوران 10ارب درخت لگانے کا ہدف طے کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ہدف کی تکمیل کے سلسلے میں اب تک کتنے درخت لگائے جاچکے ہیں ۔ اگر اس بیان میں تھوڑی ترمیم کرکے یوں کہہ لیا جاتا کہ ’’پاکستانی قوم اگلے 5سال میں 10ارب درخت لگانے کا عزم رکھتی ہے ‘‘تو اسے عملی جامہ پہنانا آسا ن ہو جائے گا ۔اس کے نتائج یقینا مختلف ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے لیے 10 ارب درخت لگانا مشکل کام ہے مگر ہر فرد کے لیے 10 درخت لگانا انتہائی آسان ہے۔ آج تک حکومتی سطح پر تعمیراتی منصوبہ بناتے وقت عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیااسی وجہ سے تبدیلی لانا ممکن نہیں ہورہا۔
ہمارے بڑے شہر آج کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بنتے جارہے ہیں ،ہلکی سی ہوا چلنے سے سڑکوں کے کنارے سے کاغذ اور شاپر ہوا میں اڑتے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کونجو ں کی کوئی بڑی تعدادگروہ کی شکل میں آسمان پر محوِ پرواز ہو ۔ہوا میں اڑتا ہوا یہ کچرا حادثات کا باعث بھی بن سکتاہے ۔کوڑے کے ڈھیر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کررہے ہیں جس سے عوام بیماریوں کا شکار ہیں۔ مگر کسی حکومت نے آلودگی سے چھٹکارا پانے کے لئے کبھی کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔
کراچی کی بات کی جائے تو وہاں روزانہ 14ہزار ٹن سے زائد کوڑا سڑکوں پر پھینکا جاتا ہے۔ ’’کلین کراچی مہم‘‘ بھی کوڑے کو یوں بکھرنے سے روک نہیں پائی ۔ کوڑے کو ہٹانے کی بجائے قومی، صوبائی، بلدیاتی ادارے آپس میں الجھ رہے ہیں۔ ہر ادارہ تمام ذمہ داری دوسرے ادارے پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش میں ہے ۔ یہ کوشش بھی نئے مسائل کو جنم دے گی ۔
اس بڑے مسئلے کے حل کی تلاش کی خاطر جب ملک کے معماروں سے رجوع کیا گیا تو دل کو چین سا محسوس ہونے لگا ۔بچپن سے سن رکھا ہے ’’بچے من کے سچے‘‘ توکوڑے کے مسئلے کو لے کر جب بچوں سے رجوع کیا گیا تو کچھ حقائق سامنے آئے ،جنہیں عوام کے سامنے پیش کرنا یقینا تبدیلی کا باعث بنے گا۔ کراچی کی گنجان سڑک شاہراہ فیصل کے کنارے چلتے ہوئے 2معصوم بچوں کو دیکھا ۔وہ سکول سے واپسی پر چلتے چلتے کیلے کھارہے تھے۔ حیرت ہوئی جب دیکھا کہ بچوں نے چھلکے سڑک پرپھینکنے کی بجائے اپنے شاپر میں ڈال لئے تھے ۔میں نے آگے بڑھ کر ان کی تعریف کی اورپوچھا ،’’بیٹا،یہ اتنا اچھا کام آپ نے کہاں سے سیکھا ؟تو ولی اور مومن نے جواب دیا کہ اسی سڑک سے سیکھا ہے ۔
مزید استفسار پر انہوں نے بتایا،۔۔۔’’ ایک روز ہم سکول سے گھر جارہے تھے،میں نے ایک نوجوان کو ایسے کرتے دیکھا تو میں بہت متاثر ہوا۔ اس دن کے بعد سے میں بھی ویسا ہی کرتا ہوں۔ جب کوئی کوڑا دان نظرآجائے تو اس میں گندگی ڈال دیتے ہیں‘‘۔ ولی اور مومن نے بتایا کہ وہ شدت سے چاہتے ہیں کہ ان کا شہر کراچی صاف ستھرا ہو مگر مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان کو کوڑا دان ڈھونڈنے میں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے معصوم سا مطالبہ کیا کہ’’ انکل ،یہ ضرور لکھنا کہ شاہراہ فیصل پر حکومت کوڑادانوں کی تعداد بڑھا دے تاکہ ہمیں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس طرح ہم ایک بھائی کو دیکھ کر یہ عادت اپنا چکے ہیں شاید کل ہمیں دیکھ کر دوسرا پاکستانی بھی عادت اپنا لے‘‘۔
ولی اور مومن کی اسی بات نے مجھے رجحان پر لکھنے پر مجبور کیا۔ کراچی کے کوڑے کا حل مل گیا ہے ،یہ حل حکومت کے لئے مشکل بھی نہیں۔ عوام میں صفائی کا رجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کراچی میں بسنے والے ولی اور مومن جیسے لاکھوں بچوں کی آسانی کے لیے گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوڑا دان لگوائے،و قت پر انہیں خالی کردیاکرے ،عوام میں رجحان پیدا کرنے سے صفائی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ضرورت ہے بس عوام کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کی ۔اتنی سی بات ہے۔
صفائی کے متعلق بچوں کے شعور کو جانچنے کی غرض سے ایسا ہی ایک سروے راولپنڈی کے ایک سکول میں منعقد کیا گیا تو ایک بچے نے اپنے بیگ سے صابن نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ صابن سے دھوتا ہے ،سکول میں صابن نہیں ہے اس لیے وہ اپنا صابن اپنے بستے میں رکھتا ہے ۔پانچویں جماعت کے طالبعلم ریحان سے جب ایسا کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ریحان نے بتایا کہ۔۔۔’’میں اپنے ابو کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کہیں جارہا تھا، موسم بہت اچھا تھا ، ابو نے کھلونا خرید کر دیا تھا لہٰذا میں بہت خوش تھا۔ اسی خوشی کے عالم میں میرے قریب سے ایک سفید رنگ کا بڑا کنٹینر گزرا ۔اس پر سبز رنگ میں لکھا تھا کہ ہاتھ ہمیشہ صابن سے دھوئیں ۔کنٹینر پر لکھا ہوا یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔ میں نے سوچا سڑک پر چلتی گاڑی کے ڈرائیور کو بھی احساس ہے کہ اس نے لوگوں کو کوئی اچھا پیغام دینا ہے۔ میں تو ایک طالبعلم ہوں ، میری ذمہ داری کا درجہ کیا ہوگا۔ اس دن سے میں اس بات پر عمل بھی کرتاہوں اور اپنے دوستوں کو بھی ایسا کرنے پر قائل کرتا ہوں‘‘۔
ریحان نے بتایا کہ اب اس کے سب دوست ایسا کرتے ہیں ،ہم سب مل کر بچوں میں صابن سے ہاتھ دھونے کی آگاہی مہم کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی باقاعدہ راہنمائی موجود نہیں۔ ریحان نے بھی مطالبہ کیا کہ یہ ضرور لکھئے گا کہ حکومت تمام سکولوں میں صابن رکھوائے تاکہ ہر بچہ جراثیم سے محفوظ رہ سکے۔جو رجحان ایک کنٹینروالے نے پید اکیا ہے ،وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ،ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ہر سکول میں صابن کی موجودگی یقینی بنائے ۔بامقصد پیغامات کی ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرز کی حوصلہ افزائی یقینی بنائے تاکہ پاکستانی عوام کی زندگی کی ریل گاڑی صحت یابی کے رجحان کی پٹری پر رواں دواں ہو کر صحت مندی کے اسٹیشن پر پہنچ سکے۔
اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہا کہ ہم عوام میں انتہائی آسانی سے مثبت رجحانات پیدا کرسکتے ہیں۔ عدم برداشت ہمارے معاشرے کا آج ایک جان لیوا رجحان ہے۔ مندرجہ بالا سروے کے نتائج سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اگر سکولوں اور کالج کی سطح پر برداشت کرنے کے رجحان کو اجاگر کیا جائے۔ روزمرہ، بول چال اور کام کاج میں برداشت کرنے کی اہمیت کو واضع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ معاف کردینے سے انسان کا قد بڑھتا ہے۔ جو آج انسانوں کو معاف کرے گا اسے کل آخرت میں اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔۔۔ ایسے جملے یقینا عوام میں قوتِ برداشت کو بڑھانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے ۔محمد سرور انصاری نے بتایا کہ جب ہم تیسری جماعت میں پڑھتے تھے تو میرا جھگڑا (اب ڈاکٹر)اسد اﷲ خان سے ہوگیا ۔جب وہ ان کی شکایت لے کر اپنے استاد مرحوم غلام محمد بھٹی کے پاس گئے تو انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا بھائیوں کے آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کے متعلق کسی کو نہیں بتاتے ۔آپس میں مل بیٹھ کر صلح سلوک سے حل کرلیتے ہیں۔یہ سن کرانہوں نے ناصرف جھگڑا باہمی رضامندی سے حل کیا بلکہ ساری عمر دوبارہ کبھی بھی معمولی جھگڑوں کو ہوا نہیں دی۔اس سے وہ ساری عمر سکون سے رہے۔
یہ ہیں وہ مثبت رجحانات جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور یہ کب شروع ہوتے ہیں احساس تک نہیں ہو پاتا ۔ہم ایسے ہی بڑے بڑے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھاری وسائل کا اندازہ کرکرکے ڈرتے رہتے ہیں جبکہ تبدیلی ایسے ہی اچانک غیر محسوس طریقے سے آجاتی ہے جب تبدیلی کا احساس ہوتا ہے تب تک ہمیں تبدیل ہوئے ایک وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ہمارا ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے، معاشرہ پرامن اور مکمل خوشحال ہوسکتا ہے ۔تھوڑی سی توجہ اور ہمت کی ضرورت ہے ۔ سمت درست کرنے کی ہمت۔باقی سب کچھ تو قدرت کی طرف سے ہوہی رہا ہے ۔انسان اس دنیا میں اپنا اثاثہ چھوڑ کر مسلسل اگلے سفر پر گامزن ہورہا ہے، مختلف رجحان، عادات، افکار اور روایات وغیرہ کونکھارنے کی ضرورت ہے۔ رشتوں کوٹوٹنے سے بچاناہے ، سمت امن وخوشحالی کی جانب کرنی ہے ۔وقت خود ہی قوموں کو کامیابی کے اسٹیشن پر لے جاتا ہے۔ آج کا سبق بس اتنا ہے کہ جس طرح ہرشخص مرنے سے پہلے پہلے اپنی اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ بنانے کی فکر میں ہے وہاں اس بات کا بھی ادراک رکھے کہ وہ اپنے کردار سے انسان کی مجموعی زندگی میں جو اضافہ کرکے جائے گا وہ مثبت ہونا چاہیے نہ کہ منفی۔ مثبت کردار سے ہمیشہ مثبت اور منفی کردار سے ہمیشہ منفی کردار جنم لیتے ہیں ۔ہماری اتنی سی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم مثبت کردار کے حامل بن سکیں۔


 

Back
Top