Quran Hadith Quran e Hakeem Aur Hamari Zindagi By Mufti Muhammad Younas Palanpuri

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
قرآن حکیم اور ہماری زندگی ۔۔۔۔۔ مفتی محمد یونس پالنپوری

quran1.jpg

قرآن کریم انسان کو سیدھے راستے اور اعتدال
پر قائم رکھتا اور افراط وتفریط سے محفوظ رکھتا ہے

ہر فتنے اور مسئلے سے حفاظت کا ذریعہ قرآن کریم ہے

جب تک مسلمان قرآن پاک کی پاکیز ہ تعلیمات اور ارشادات نبوی ﷺ پر عمل کرتے رہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوغیر معمولی ترقی عطا فرمائی

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :۔ترجمہ : ’’ اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کریم ) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو اونچا اُٹھاتے ہیں، اور دوسری قوموں کو اس ( پر عمل نہ کرنے ) کی وجہ سے نیچے گراتے ہیں‘‘۔
اور دوسری قوموں کو اس ( پر عمل نہ کرنے ) کی وجہ سے نیچے گراتے ہیں‘‘۔
تاریخ گواہ ہے، جب تک مسلمان قرآن پاک کی پاکیز ہ تعلیمات اور ارشادات نبوی ﷺپر زندگی کے تمام شعبوں میں عمل کرتے رہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی مثالی ترقی اور ایسا عروج عطا فرمایا جس کی نظیر نہیں ملتی، اور جس سے تمام اقوام عالم واقف ہیں ، مسلمان آج کتاب و سنت کو چھوڑ کر خوار ہورہے ہیں ۔ حضرت علی ؓسے مروی ہے کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے، اے لوگو! آگاہ ہوجائو عنقریب ایک عظیم ترین فتنہ برپا ہونے والا ہے ‘‘۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ میں نے کہا:’’یارسول اللہ ﷺ! اس فتنہ سے چھٹکارے کی راہ اور مفر کیا ہے ؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ اس سے حفاظت کا ذریعہ قرآن کریم ہے ، اس کے اند ر تم سے پہلے لوگوں کے حالات کا ذکر ہے اور تمہارے بعد قیامت تک آنے والے اُمور اور حالات کی خبر ہے ، اور تمہارے باہمی معاملات کے فیصلہ کا حکم اس میں موجود ہے اورقرآن کریم حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب ہے ، اس میں کوئی بات مذاق کی نہیں ہے جو شخص غرور اور فخر کی وجہ سے قرآن کو ترک کردیتا ہے اللہ اس کو ہلاک اور برباد کرتاہے اور اس کی گردن توڑ کر رکھ دیتاہے اور جو شخص قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت ڈھونڈتا ہے اللہ اس کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مضبوط ترین رسی ہے اور وہ حق تعالیٰ کو یاد دلانے والی کتاب ہے ، حکمت ودانائی عطا کرنے والی ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے اتباع کے ساتھ خواہشات نفسانی حق سے ہٹا کر دوسری طرف مائل نہیں کرسکتیں۔ اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دوسری زبانیں مشابہ نہیں ہوسکتیں اور اس کے علوم سے علماء کی تشنگی نہیں بجھتی ، وہ کثرت استعمال اور بار بار تکرار سے پرانا نہیں ہوتا اور اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ۔ قرآن ایسا کلا م ہے کہ جب جناتوں نے اس کوسنا تو بلا توقف کہا کہ ہم نے ایک عجیب وغریب قرآن سنا ہے جو ہدایت کا راستہ دکھلاتاہے ، لہٰذا ہم اس پر ایمان لے آئے جو قرآن کے مطابق بات کرے اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور جو قرآن پر عمل کرے اس کو عظیم ترین ثواب دیاجاتاہے اور جس سے قرآن کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا ، اور جو قرآن کریم کی طرف لوگوں کو بلاتاہے اس کو سیدھے راستہ کی توفیق بخشی گئی ہے۔‘‘
فِیْہِ نَـبَاُ مَا قَبْلَـــــــکُمْ: قرآن کریم کے اندر پچھلی قوموں اور پچھلی اُمتوں کے اچھے برے واقعات اور احوال کا ذکر ہے ، چنانچہ اس میں حضرت آدم ؑاور ان کے بیٹے قابیل وہابیل کا واقعہ ، حضرت ادریس ؑکے احوال، حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے واقعات اور حضرت ابراہیم ؑاور نمرود کا واقعہ ، حضرت لوط ؑاور ان کی قوم کا واقعہ ، حضرت ہود ؑاور قوم عادؑ کے واقعات ،حضرت صالحؑ اور قوم ثمود کے واقعات ، حضرت یونس ؑکا واقعہ ، حضرت ایوب ؑکا واقعہ ، حضرت اسمٰعیل ؑکا واقعہ ، حضرت اسحقؑ کا واقعہ ، حضرت یعقوبؑ کا واقعہ ، حضر ت یوسف ؑاور ان کے بھائیوں کا واقعہ ، حضرت یوسف ؑاور عزیز مصر کا واقعہ ، حضرت موسیٰ ؑاور فرعون کا واقعہ ، حضرت دائود ؑ اورحضرت سلیمان ؑکے احوال، حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ ، اصحابِ کہف ،حضرت مریمؓاور حضرت عیسیٰؑ کے واقعات، قارون وہامان وشداد اور ظالم بادشاہوں کے واقعات ، غرضیکہ ہر قوم کے ہر قسم کے بے شمار واقعات قرآن مجید میں موجود ہیں ، جن کو پڑھ کر اورسن کر لوگ عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ کہیں مسلمانوں اور کفار کے واقعات اوراپنی قدرت کا ملہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
ترجمہ:’’ بے شک اس میں بصیرت والوں کے لیے بڑی عبرت کی بات ہے ۔‘‘
اور کہیں حضرت یوسف ؑاور ان کے بھائیوں کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ۔ترجمہ:’’ یقینا ان کے واقعات اور قصوں میں عقل مند لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔‘‘(سورئہ یوسف : ۱۱۱)
اور کہیں موسیٰ ؑاور فرعون کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔ترجمہ :’’ یقینا اس میں ڈرنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے ۔‘‘(سورۃ الناز عات: آیت ۲۶)
وَحُکْمَ مَابَیْنَـــــکُمْ:قرآن کریم کے اندر تمہارے بعد پیش آنے والے واقعات قیامت کی علامات اور قیامت کے احوال کا ذکر ہے ، حساب وکتاب ، جنت وجہنم کے احوال کا ذکر ہے۔ ان سے عبرت حاصل کرکے اپنے اعمال درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن کریم کے اند رتمہارے آپس کے معاملات کے طے کرنے اور فیصلہ کرنے کا حکم موجود ہے۔ پورے قرآن کریم میں ۶۶۶۶آیتیں ہیں ، ان میں ۵۰۰ آیتیں احکام اور فیصلوں سے متعلق ہیں۔ بعض علماء نے ان پانچ سو آیتوں کی الگ سے بھی تفسیر لکھی ہے۔قرآن کریم حق وباطل کے درمیان فیصلہ اور امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے ۔
اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے {اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ} (سورئہ الطارق: آیت ۱۳) میں ارشاد فرمایا کہ قرآن کریم حق وباطل اور صدق وکذب کے درمیان دو ٹوک فیصلہ ہے۔ جو شخص قرآن کو چھوڑ کر دوسری چیز سے ہدایت طلب کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں مبتلا کردیتاہے ،وہ ہدایت پر قائم نہیں رہ سکتا ۔امام بخاریؒ نے ’’بَابُ صِفَۃِ اِبْلِیْسَ وَ جُنُوْدِہٖ‘‘کے نام سے ایک باب قائم فرمایا ہے جس میں انسان ، شیطان اور اس کے چیلوں کا بھی ذکر ہے ۔ جو بخاری شریف ، کتاب ’’بَدْعٗ الْخَلْقِ‘‘ میں موجود ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط ترین رسی ہے اللہ اور بندوں کے درمیان ایک مضبوط ترین تعلق اور جوڑ پیدا کرنے کی چیز ہے اور قرآن کے ذریعے سے ہی انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی حاصل کرسکتاہے ، اسی کو اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں ان الفاظ سے ارشاد فرمایا ہے،
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَاتَفَرَّ قُوْا ص}(سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’ اللہ کی رسی کو تم سب مل کر ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ:وہی حق تعالیٰ کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے جو حکمت ودانائی کا اہل بناتاہے ، اس میں اچھی نصیحتیں ہیں اسی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے :۔ترجمہ: ’’آپ مومنین کو اچھی نصیحتوں سے اللہ کی یاددہانی کراتے رہا کریں ، اس سے مومنین کو دینی فائدہ پہنچتا رہے گا۔ ‘‘(سورۃ الذاریات: آیت ۵۵)
قرآن کریم انسان کو سیدھے راستہ اور اعتدال پر قائم رکھتاہے اور افراط وتفریط سے محفوظ رکھتا ہے، صراط ِ مستقیم کی حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک مثال پیش فرمائی کہ ایک لمبا خط کھینچا ، اس کے دائیں اور بائیں طرف سارے خطوط کھینچے اور فرمایا ،یہ سب کے سب گمراہی اور شیطان کے راستے ہیں جو ان میں پڑے گا گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا، اور جوان سے بچے گا وہ سیدھے راستہ پر قائم رہے گا اور جولمبا خط کھینچا ہے اس کے بارے میں فرمایا ،یہ صراط مستقیم ہے اسی پر تمہیں قائم رہنا ہے اور بعض روایات میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ صراط مستقیم وہی ہے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہے اسی پر حضرات صحابہ کرامؓ خلفائے راشدین ، اہلبیتؓ، ائمہ مجتہد ین ثابت قدمی سے چلے آرہے ہیں اور اسی کی بقاء اور اسی کی تبلیغ کے لیے مدارس اسلامیہ کا قیام ہوا ہے او را ن مدارس کے اندر قرآن وحدیث اور فقہ کی جو تعلیم دی جاتی ہے وہ صراطِ مستقیم کے مطابق ہے ۔ جو شخص قرآن کی تعلیمات پر قائم رہے گا تو چاہے کتنی ہی خواہشات اسے ستائیں اور کتنی ہی گمراہی کی باتیں اسے راستہ سے ہٹا کر ٹیڑھا کرنے کی کوشش کریں ، شیطان اور گمراہ لوگ اسے اپنے راستے پر لے جانے کی کوشش کریں تو قرآن اسے ادھر جانے اور ٹیڑھا ہونے نہیں دے گا۔ جب بھی وہ ٹیڑھا چلنا چاہے گا اور لائن سے ہٹنا چاہے گا، قرآن اسے سیدھا کردے گا اور لائن سے نیچے اترنے نہیں دے گا۔ ہر طرف سے دائیں بائیں کے سارے راستے جام کر دیتا ہے ، مجبوراً سیدھے راستہ پر قائم رہے گا۔
دنیا کی کوئی زبان قرآن کی زبان کے مشابہ نہیں ہے ۔ اہل عرب اگرچہ عربی بولتے ہیں مگر قرآن کے لہجے اور قرآن کے محاورے اور قرآن کی فصاحت وبلاغت اور قرآن کے طرز وسلامت میں سے ان کی زبان کسی بھی چیز کے مشابہ نہیں ہے ۔ وہ اپنی گفتگو میں قرآن کی ایک آیت کے مشابہ بھی کوئی جملہ نہیں نکال سکتے ۔ جب قرآن نازل ہورہاتھا تو وہ عرب کے بڑے بڑے شعراء اور خطباء اور ادبا ء کا دور تھا انہوں نے بڑی کوشش کی کہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی ایک آیت کے مشابہ کوئی جملہ بنا کر پیش کردیں ، مگر سب نے اس سے عاجز آکر گھٹنے ٹیک دیئے اور سمجھ لیا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اس لیے کوئی بھی زبان قرآن کے مشابہ نہیں ہوسکتی ۔
قرآن کریم میں جتنا غور کرتے جائو، اس کے اسرار ورموز بڑھتے جاتے ہیں ، تشنگی بھی بڑھتی جاتی ہے ، پندرہ سوسال سے علماء قرآن کریم کے اسرار ورموز پر اور اس کے مطالب کی گہرائی پر غور کرتے رہے اور کروڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر قرآن کے علوم اور اس کے اسرار ورموز کے ہزارویں حصہ تک بھی رسائی نہ کرسکے اور نہ ہی رسائی ہوسکتی ہے۔قرآن کریم بار بار دہرانے کی وجہ سے پرانا نہیں ہوتا، بلکہ تازگی بڑھتی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز کثرت ِ استعمال سے پرانی ہوجاتی ہے مگر قرآن کریم بجائے پرانا ہونے کے اس میں تازگی آتی رہتی ہے اور ہر مرتبہ اس میں نئی چیز نظر آتی ہے ۔ قرآن کریم کے عجائبات اور اس کے اسرار ورموز کسی طرح ختم نہیں ہوسکتے اور کوئی انسان قرآن کریم کے اسرار و حکم کی انتہاء تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،
{ وَلَوْ اَنَّ مَافِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَا مٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْم بَِعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۱ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}(سورئہ لقمان : آیت ۲۷)
ترجمہ: ’’ اور اگر روئے زمین میں جتنے درخت ہیں ان سب کو قلم بنادیا جائے اور سمندر کو روشنائی بنادیاجائے اس کے بعد مزید سات سمندر کو روشنائی بنادیاجائے تب بھی اللہ تعالیٰ کے کمالات مکمل اور تمام نہیں ہوسکتے بے شک اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے ۔‘‘
بخاری، مسلم اور ترمذی میں ایک طویل حدیث درج ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانہ اسلام سے پہلے شیاطین آسمانوں میں جاکر وہاں کی باتیں لا کر کاہنوں کو بتایا کرتے تھے، پھر کاہن لوگ اس میں کچھ بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے ۔اسی لئے کاہنوں کی ان پیشین گوئیوں میں سے بہت سی باتیں ہو جایا کرتی تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور قرآن کریم کے نزول کا سلسلہ شروع ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے آسمان میں جانے پر پابندی لگادی ۔ شیاطین اور جنات آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ دنیا میں کوئی نئی بات پیش آئی ہوگی جس کی وجہ سے پابندی شروع ہوگئی ہے ۔ چنانچہ جنات نے یہ فیصلہ کیا کہ روئے زمین کا گشت لگایا جائے تاکہ رکاوٹ کی وجہ معلوم ہو جائے ۔ جنات نے گشت لگانا شروع کردیا ۔ حجازِ مقدس میں مکۃ المکرمہ سے شمالی جانب مدینے کی طرف ایک مقام عکاظ کہلاتاہے ۔پرانے زمانہ میں وہاں کبھی کبھی بازار لگاکرتاتھا جہاں عرب قبائل خرید و فروخت کے لیے جمع ہوتے تھے ۔ حضور اکرم ﷺ چند صحابہ کو لے کر دعوت اسلام پیش کرنے عکاظ کے لیے روانہ ہوگئے،وہاں پہنچنے سے کچھ پہلے آپ ﷺ نے ایک نخلستان میں قیام فرمایا۔ صبح کو فجر کی نماز میں جہری قرأت فرمائی توجنات کا وہاں سے گزر ہواجو حضرت رسول اللہ ﷺ کی قرأت سن کر رک گئے۔ اور ر آپس میں کہنے لگے ، یہی وہ اللہ کا کلام ہے جس کی وجہ سے ہم پر پابندی لگی ہے۔ جنات کی اس ٹولی نے اسی وقت ایمان قبول کرلیا اور اپنی قوم کو جاکر کہا { اِنَّ سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِفَاٰ مَنَّا بِہٖ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا} کہ بے شک ہم نے ایک عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو ہدایت کا راستہ بتلاتا ہے ۔ لہٰذا ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ۔ اسی واقعے کو حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے ۔ (بخاری شریف:۱/ ۱۰۶، حدیث ۷۶۴،۲/ ۷۳۲، حدیث ۷۴۳۱، ترمذی شریف : ۲/۱۶۹، مسلم :۱/ ۱۸۴)
یاد رکھئے، جو شخص قرآن کے مطابق بات کرے گا اس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا بلکہ اس کی تصدیق کی جائے گی ۔ اور جو شخص قرآن پر عمل کرے گا اس کو عظیم ترین اجر وثواب سے مالا مال کیاجائے گا۔ جو شخص قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا وہ کبھی بے انصافی نہیں کرسکتا بلکہ حق کے مطابق عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اور جو شخص لوگوں کو قرآن پر ایمان اور اس کے احکام پر عمل کی دعوت دیتاہے تو خود اسے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق ہوتی ہے اور جن کو وہ دعوت دیتاہے وہ بھی صراطِ مستقیم پر چلنے لگتے ہیں۔

 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
اہم اور مفید دینی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top