’Rivers of Power By Naseem Ahmed Bajwa

’Rivers of Power By Naseem Ahmed Bajwa

اس عنوان سے کمال کی کتاب امریکی جغرافیہ دان لارنس سمتھ نے لکھی اور برطانیہ کے بڑے ناشرین میں سے ایک Allen Laneنے بڑے سلیقہ سے شائع کی۔ کتاب کا ثانوی عنوان ہے ''کس طرح ایک قدرتی طاقت نے سلطنتوں کو جنم دیااور تہذیبوں کو تباہ کر دیا‘‘۔ اُس وقت جب کورونا وائرس کی بلا دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح برطانیہ کو بھی لپیٹ میں لینے والی تھی‘ مجھے یہ کتاب لاک ڈائون میں دکانیں بند ہو جانے سے صرف ایک دن پہلے ملی۔
دنیا کے بے شمار شہروں کی طرح‘ جو دریائوں کے کنارے آباد ہیں‘لندن کی پہچان River Thamesہے۔ اس کے کنارے (جنوب مشرقی لندن میں) Royal Naval Collegeہے جس نے چار صدیاں برطانوی بحریہ کے افسروں کو اتنے اعلیٰ معیار کی تربیت دی کہ وہ سترہویں صدی (جب ایسٹ انڈیا کمپنی معرض وجود میں آئی) کے شروع سے سمندروں کو مسخر کرتے چلے آئے ہیں۔ عربوں کے بعد جن ممالک کے ملاحوں نے اس فن میں مہارت حاصل کی وہ ہیں: وینس‘ سپین‘ پرتگال‘ مالینڈا‘ فرانس اور برطانیہ۔
بحریہ کا مذکورہ بالا کالج لندن کے جس علاقے میں ہے اُس کا نام Greenwich ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں جب برطانوی سلطنت کے اقتدار کا سورج ساری دنیا پر چمکتا تھا تو Greenwichپارک میں زمین پر لگے ہوئے کلاک سے سارے دن کی گھڑیاں ملائی جاتی تھیں اور اس کلاک کے مطابق وقت کوGMT کہتے ہیں۔ کالم نگار کے اسی علاقہ میں دس سال سے رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے اُسے پارک اور اس کے کنارے بسنے والے دریا کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا سارا سال موقع مل جاتا ہے۔ پیرس جائوں تو وہاں شہر کے وسط میں بہنے والے دریاSeinf میں کشتی میں سواری کر کے روشنیوں کے شہر (جو ایک زمانے میں ہمارا کراچی بھی ہوتا تھا) کا دلفریب نظارہ دیکھتا ہوں۔ صرف برازیل نہیں بلکہ جنوبی امریکہ کے براعظم کی پہچان River Amazonہے۔ عراق کا مطلب ہے دجلہ اور فرات اور Danubeیورپ کے ماتھے کا جھومرہے۔ جس طرح Mekongجنوب مشرقی ایشیا کے تین ممالک کا‘ برہم پتر بنگلہ دیش کا اور دریائے سندھ ہمارا ۔
مناسب ہوگا کہ اب ہم اُس کتاب پر ایک نظر ڈالیں جو اآج کے کالم کا موضوع ہے‘ جس میں فاضل مصنف بتاتے ہیں کہ چار ارب سال پہلے اس سنگلاخ اور آگ کی تپش سے دہکتی ہوئی زمین پر پہلی بارش ہوئی تو پانی جھیلوں میں جمع ہوا‘ فاضل پانی دریائوں اور ندیوں کی صورت میں سمندروں کی طرف بہہ نکلا۔ پانی بخارات میں تبدیل ہوا تو بادل بنے اور یہ بادل برسے تو بارش کا مزید پانی دنیا پر رحمت بن کر اُترا۔ اس طرح ایمیزون‘ دریائے نیل‘ Tiber (اٹلی)‘ گنگا جمنا‘ برہم پتر اور دریائے سندھ معرض وجود میں آئے۔ یہ معجزہ چار ارب سال پہلے رونما ہوا۔ انسانی تہذیب نے دریائوں کے کنارے جنم لیا اور پروان چڑھی۔ جیسے قبل از مسیح دور میں سندھ کی بدولت ٹیکسلا‘ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے قدیم شہر‘ دریائے نیل کی وجہ سے قاہرہ‘ دجلہ اور فرات کی وجہ سے بغداد۔ دریائوں پر بند باندھ کر اُن سے نہریں نکالنے کی تاریخ بھی بڑی پرانی ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
انسانی تاریخ میں آبی تنازعات کی تاریخ بھی اتنی ہی پرُانی ہے جتنی کاشتکاری اور آب پاشی کی‘ مگر دو پڑوسی ممالک (بھارت اور پاکستان) میں سندھ طاس دریائوں کے پانی کے استعمال پر جتنی کشیدگی اور حریفانہ کشمکش کا مظاہرہ گزرے72 سالوں میں ہوا ہے‘ اس کی دنیا میں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ کالم نگار نے اس موضوع پر ایک ہزار صفحات کی ایک کتاب مرتب کی ہے جو اس سال کے شروع میں لندن کے ناشرین Grosvenor Hurst نے شائع کی۔ دو مارچ کو اسلام آباد کے ایک تحقیقاتی ادارے میں اس کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی جس میں ڈاکٹر عابد سلہری‘ پروفیسر ڈاکٹر شاہین اختر اور سابق سفیر شفقت کاکاخیل نے بڑی عالمانہ تقاریر کیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جب ایک خاتون رانجھا کے عشق میں گرفتار ہوئی تو وہ محبوب کی یاد میں (رانجھا رانجھا) کی گردان کرتے کرتے خود رانجھا بن گئی‘ اسی سے ملتا جلتا حال کالم نگار کا ہوا ‘اُس کی زندگی کے اتنے شب و روز دریائے سندھ اور اُس کے معاون پانچ دریائوں (ستلج‘ بیاس‘ راوی‘ چناب اور جہلم) کے تنازعات کے مطالعہ میں گزرے کہ اُس پر دریائے سندھ کا جادو چل گیا۔ اس کی کتاب تو چھپ کر دنیا بھر میں تقسیم ہو گئی مگر کالم نگار اب بھی خواب دیکھتا ہے تو وہ دریائے چناب سے شروع ہوتے ہیں اور دریائے جہلم سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کی موجوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دریائے سندھ کا ذکر ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برطانوی خاتونAlice Albiniaکو خراج عقیدت نہ پیش کیا جائے جسنے بارہ برس پہلے دریائے سندھ پر Empires of the Indusکے نام سے بڑی عمدہ کتاب لکھی۔ اُس نے دریائے سندھ کی پہاڑی گزر گاہوں پر سینکڑوں میل سفر کر کے کمال کا سفر نامہ لکھا ‘ جبکہ رضا علی عابدی نے'' شیر دریا‘‘ کے عنوان سے جوبہت اچھی کتاب لکھی وہ بھی تعارف کی محتاج نہیں ۔ اعتزاز حسن نے اپنی قابل تعریف کتاب Indus Sagaمیں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر آباد علاقوں کی فقید المثال خصوصیات کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر ان علاقوں میں آبادی کی اکثریت مسلمان بھی ہوتی تب بھی بھارت کا حصہ بن کر اپنے سے زیادہ خوشحال ہندوئوں کی بالادستی قبول نہ کرتی۔ قبل مسیح دور میں ہندوستان پر برہمنوں کا راج تھا تو ساری لکھائی پڑھائی سنسکرت میں ہوتی تھی اور سنسکرت کے عالم فاضل لوگوں نے دریائے سندھ کے گُن گاتے گاتے اسے ناقابلِ تسخیر ''سندھو‘‘ لکھا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ وادیٔ سندھ کے مہم جو افراد پانچ ہزار سال پہلے مشرقی وسطیٰ سے تجارت کرتے تھے۔ آپ اس سے وادیٔ سندھ کی بھولے بسرے زمانوں میں خوشحالی اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔سندھ میں دریائے سندھ کو Purali بھی کہا جاتا ہے‘ا س کا مطلب ہے اپنی مرضی کا مالک اور ایک قسم کا شتر بے مہار۔ پشتونوں کی زبان میں اس دریا کیلئے تین الفاظ ہیں‘ نیلاب (نیلا پانی)‘ شیر دریا اور اباسین (دریائوں کا باپ)۔
دریائے سندھ کی عظمت کے گیت قدیم ترین ہندو مذہبی صحیفوں سے لے کر یونانی سپاہیوں تک نے گائے جوقدیم سنسکرت صحیفوں میں اس دریا کا نام ''سندھو‘‘ لکھا گیا‘ ایرانی فاتحین نے اسے تبدیل کر کے ''ہندو‘‘ بنا دیا‘ یونانی حملہ آوروں نے اسے ''اندو‘‘ا ورIndikaکے نام دیے جبکہ Indus کا لفظ اہل چین کے ذہن اور زبان کی پیداوار ہے۔ نام بدلتے رہے مگر ان سب تبدیلیوں سے بے خبر اور بے پروا کوہ ہمالیہ کے شمال مشرقی برف زاروں سے کروڑوں سال سے بہتا ہوا دریا اپنا تین ہزار کلومیٹر کا لمبا سفر بڑے وقار سے طے کرتا ہوا پہاڑوں‘ میدانوں اورصحرائوں سے گزرتا ہوابحیرہ عرب میں جا گرتا ہے جہاں سے کچھ عرصہ قبل بخارات بادلوں کے روپ میں ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ تیز ہوائوں کے شانوں پر سواری کرتے ہوئے وہ بادل بنگلہ دیش‘ بھارت اور پاکستان پر برسے تو محض پانی بن کر جب یہ بادل ہمالیہ کی بلندیوں پر پہنچے تو اُن کا پانی زمین پر برف بن کر گرا اور Glacierبن گیا۔ انہی برفانی تودوں سے دریا نکلے۔
برصغیر کے دونوں بڑے دریا (برہم پتر اور دریائے سندھ) تبت سے نکلتے ہیں۔ ایک جنوب مشرق کا رُخ کرتا ہے دوسرا جنوب مغرب کا۔ حسنِ اتفاق سے ان دونوں بڑے دریائوں کی لمبائی ایک جتنی ہے‘ مگر ان دونوں بھائیوں یا بہنوں کے نام دنیا کے سب سے لمبے 13 دریائوں کی فہرست میں نہیں لکھے جاتے۔
 
Column date
Jul 1, 2020
The rivers in Pakistan are not merely bodies of water; they are the lifelines of the nation, shaping its history, culture, and economy. Their waters have sustained civilizations, facilitated agriculture, and powered industries. However, these rivers face various challenges such as water scarcity, pollution, and mismanagement
 
Back
Top