Rome Ki Tameer By Ikhlaq Ahmad

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
روم کی تعمیر ........ تحریر : اخلاق احمد

Rome.jpg

تقریباً 1000 ق م میں ہندیورپی نسل کے حملہ آور قبائل کی ایک لہر کوہ الپائن کے دروں سے گزر کر اٹلی کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں پہنچی۔ ان قبائل نے یہاں قبضہ کر کے آہستہ آہستہ یہیں مکمل بودوباش اختیار کر لی۔
ہندیورپی نسل کے یہ لوگ چار قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سبین (Sabines)، سامنیت (Samnites)، امبریائی (Umbrian) اور لاطینی (Latins)۔ لاطینی وسطی اٹلی میں آباد ہو گئے اور انہوں نے بہت سے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد کر لیے۔
۔800 ق م تک لاطینی لوگوں کے تقریباً 40 گاؤں آباد ہو گئے۔ اتنی تعداد میں گاؤں آباد ہو جانے کے بعد لاطینی لوگوں نے دریائے ٹائبر کے کنارے ایک شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور شہر کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب کیا۔ چونکہ یہ جگہ دلدلی تھی لہٰذا پہلے اس جگہ سے کیچڑ اور دلدل کو خشک کیا گیا۔ جیسے جیسے وہ اس جگہ پر کام کر رہے تھے، انہیں اپنے ہمسایہ اٹروریا (Etruscan) قبائل سے حملے کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ اٹروریا دریائے ٹائبر کے شمالی کنارے پر آباد تھے۔
لاطینیوں کا خیال تھا کہ ان کے یہ ہمسائے اس شہر کی تعمیر کو ناپسند کرتے ہوئے دریائے ٹائبر کو ایک پایاب مقام سے عبور کر کے فوراً حملہ آور ہوں گے۔ اس مقام کی نگرانی کے لیے پیلاٹین پہاڑی (Palatine Hill) سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔ اس بنا پر لاطینیوں نے اسی پہاڑی کے اوپر اس نئے شہر کو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ دشمن کی حرکات و سکنات پر بھی مستقل نظر رکھی جا سکے۔
مندرجہ بالا تاریخی مفروضے کے باوجود زمانہ حال تک تاریخ دانوں کو صحیح طور پر علم نہیں ہو سکا کہ روم کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا، یا روم کب وجود میں آیا؟ البتہ تاریخی تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ دیگر لاطینی شہروں کی طرح روم بھی کئی گاؤں اکٹھے ہو جانے سے وجود میں آیا، اس شہر کی ابتدائی اساس پیلاٹین پہاڑی پر ہی رکھی گئی تھی۔ اسی اساس پر ''چوکور روم‘‘ (Roma quadrata) کا شہر تعمیر ہوا، جو ایک افسانے کے مطابق رومولس (Romulus) نے تعمیر کیا تھا، پھر پھیلتے پھیلتے سات پہاڑیاں، نیز دوسری بلندیاں اور میدان بھی روم کی حدود میں آ گئے اور روم سات پہاڑیوں کا شہر کہلانے لگا۔
تاریخ کی بجائے دو افسانے ہمیں بتاتے ہیں کہ روم کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا۔ ایک افسانے کے مطابق ٹرائے کے ایک جنگجو اینیاس (Aneas) نے تقریباً 1100 ق م میں روم کی بنیاد رکھی جب کہ دوسرے افسانے کے مطابق 753 ق م میں روم کا سنگ بنیاد دو جڑواں بھائیوں رومولس اور ریمس نے رکھا تھا۔ ان دونوں جڑواں بھائیوں کی پرورش ایک مادہ بھیڑئیے نے کی تھی۔
افسانے کے مطابق مقررہ دن خاص قسم کی جھاڑیوں کی آگ کا الاؤ روشن کیا گیا اور پھر باری باری رومولس اور ریمس کے سب ساتھی اس آگ کے الاؤ پر سے پھلانگے تاکہ اس تعمیری کام میں شیطانیت اور برائی سے بچا جا سکتے، پھر رومولس نے ایک سفید بیل اور گائے کو ہل میں جوت کر مستقبل کی فصیلوں کے ساتھ ساتھ ہل چلایا اور زمین پر جھریاں ڈالیں۔ اس زمانے میں اس طرح کی جھریاں ڈالنا متبرک خیال کیا جاتا اور ان جھریوں کو ایسی جگہ سے پھلانگنا جہاں گزرنے کا نشان نہ رکھا گیا ہو، اس شہر کی فصیلوں کی بے حرمتی کرنا تصور کیا جاتا تھا۔ ریمس اپنے بھائی رومولس سے حسد کرتا تھا، جیسے ہی اس نے یہ جھریاں ڈالیں، ریمس نے فوراً انہیں پھلانگتے ہوئے اپنے بھائی کو کہا کہ یہی لکیریں تمہارے شہر کی حفاظت کریں گی!
اس بے حرمتی پر ریمس کو مارڈالا گیا، اور رومولس نے اس کی لاش پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ آئندہ بھی جو شخص ہمارے شہر کی فصیلیں پھلانگنے کی جرأت کرے گا، اس کا یہی حشر ہوگا۔
ان افسانوں سے قطع نظر تاریخ دانوں کو اس بات کا اثریاتی سراغ بھی ملا ہے کہ آٹھویں صدی قبل از مسیح میں لاطینی لوگ اس مقام پر آباد ہو چکے تھے، جہاں آج روم آباد ہے۔
ایک روایت کے مطابق ابتدائی روم پر سات بادشاہوں نے حکومت کی۔ ان کے نام رومولس، نوماپومپلیوس، تولوس ہوسٹیوس، اینکس مارکوس، سروئس تولیوس اور لوسوس ٹاکونوس سپربس ہیں۔
چھٹی صدی قبل از مسیح میں روم پراٹروریا ئیوں نے قبضہ کر لیا۔ روم کا آخری بادشاہ سپربس انہیں لوگوں سے تعلق رکھتا تھا۔ 509 ق م میں رومی عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے روم سے بادشاہت ختم کرکے جمہوریت کی ابتدا کی۔
یہ جمہوریہ 27 ق م تک قائم رہی، اسی دوران 390 ق م میں فرانس کے گال قبائل نے روم کو تاراج کیا۔
درحقیقت روم کی یہ جمہوریت، جمہوریت نہیں بلکہ ایسی حکومت تھی جس کا نظم و نسق طبقہ امرا کے ہاتھ میں تھا۔ اس سے نچلے درجے کے شہریوں کو بھی مراعات ملتی رہتی تھیں۔ بعدازاں سینیٹ کی حکومت آئی۔ حکمران ''قونصل‘‘ کہلانے لگے۔
رفتہ رفتہ شہر روم نے ہمسایہ لاطینی ریاستوں اور گردو پیش کے دوسرے لوگوں پر غلبہ پا لیا۔ اسی وجہ سے 390 ق م میں گالوں کے ہاتھوں تاراج ہونے کے باوجود روم کی عظمت میں اضافہ ہوتا گیا اور تیسری صدی قبل از مسیح تک یہ ایسی بڑی قوت بن گیا کہ اس نے اس وقت کی دوسری بڑی طاقت، قرطاجنہ سے ٹکر لی اور اسے شکست دے کر مغربی بحیرہ روم کا بلاشرکت غیر مالک بن گیا۔
۔168 ق م تک مشرقی سمت میں سلطنت کی توسیع ہوئی۔ مقدونیہ کے فلپ پنجم اور شام کے اینٹاکس سوم کی شکست اور مصر کو نیچا دکھانے کے واقعات پیش آئے۔
بلاشبہ رومی اثر دور دور تک پھیل گیا مگر اس سے صرف عمائدین سلطنت یعنی سینیٹ کے ارکان اور عساکر ہی کو فائدہ پہنچا۔ طبقاتی نزاع بڑھتا گیا، چنانچہ عوام کے اطمینان کی خاطر زرعی قوانین متعارف کرائے گئے اور غلاموں کی بغاوتوں کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ مثلاً سسلی میں تقریباً 136، 131، 104 اور 101 ق م میں ایسا ہوا۔
بہرحال سلطنت روم اپنی جمہوری شکل میں یا شہنشاہیت کی صورت میں دنیائے قدیم کی ایک بڑی سلطنت تھی۔ اس کی تقریباً ایک ہزار سالہ تاریخ میں اس کی سرحدیں کئی بار تبدیل ہوئیں۔
اپنے عروج کے دور میں سلطنت روم تقریباً ایک چوتھائی یورپ، مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے اور براعظم افریقہ کے شمالی ساحل پر قابض رہی۔
اس کے زیرِحکومت دنیا کا بہت بڑا علاقہ اپنے رنگ و نسل و مذاہب کے اختلاف کے باوجود ایک سیاسی وحدت یا اکائی میں تبدیل ہو گیا اور رومی تہذیب ایک بین الاقوامی تہذیب میں تبدیل ہو گئی۔ خود روم وسطی اٹلی کے ایک گاؤں سے دنیا کے بڑے بین الاقوامی اور عظیم الشان دارالحکومت میں بدل گیا۔

 

Back
Top