Roshan Tareekh Aur Maali Wasaeil ke Bawajood Muslim Ummah Ka Zawal...By Noon Alif Virk

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
روشن تاریخ اور مالی وسائل کے باوجود مسلمان سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن کیوں؟

muslim.jpg

تحریر : ن-ا-ورک
دنیا کا کل رقبہ 14کروڑ 84لاکھ 29ہزار مربع کلومیٹر ہے، ایک چوتھائی حصے پر 50 اسلامی ممالک موجود ہیں ۔دنیا کی کل آبادی 7.7ارب ہے اس میں مسلمانوں کی تعداد 1ارب 70کروڑ 27ؒٓؒٓلاکھ 42ہزار ہے سوائے عیسائیوں کے کسی اور مذہب کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نہیں۔
دنیا میں اس وقت اہم ترین بندر گاہیں 40ہیں جن میں ایک تہائی یعنی 14بندر گاہیں مسلم ممالک کی ہیں، تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد 17ہے جن میں سے 14 مسلم ملک ہیں ،گیس کے بڑے ذخائر دس ممالک میں ہیں جن میں مسلم ممالک کی تعداد 5ہے یورینیم کے بڑے ذخائر رکھنے والے 7ممالک میں سے مسلم ممالک کی تعداد 4ہے۔اہم ترین عالمی بحری راستے بھی مسلم ممالک کے پاس ہیں ۔سوال یہ ہے کہ وسائل اتنے زیادہ مگر اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود سمندر کے جھاگ کی طرح یہ بے وزن کیوں ہیں ؟ اتنے کمزور کیوں ہیں ؟
آج دنیا میں جس طرف نظر اُٹھائیں مسلمان ہی زیر عتاب ہیں ۔انڈیا میں مسلمانوں کے وجود کو ختم کیا جارہا ہے ،فلسطین میں قیامت ٹوٹ رہی ہے ،برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے، مسلمانوں کے جسم کے کباب بناکر کھائے جارہے ہیں ،افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کوتہہ بارود کیا گیا ، کشمیر لہو لہو ہے ۔آخر اس بے بسی ،کمزوری کی کوئی وجہ تو ہے ڈیڑھ ارب سے زیادہ تعداد میں موجود یہ قوم اتنی کمزور اور بے بس تو نہ تھی۔ یہ وہی قوم ہے جس کی ابتدا 611ء میں ہوئی امام الانبیاء خاتم النبینﷺنے توحید کی صدا لگائی ایک عظیم انقلاب برپا ہوا عرب کے ایک چھوٹے سے شہر سے اُٹھنے والی آواز انتہائی مختصر عرصہ میں کرہء ارض پر پھیل گئی ۔مولا علی ؓکے سامنے جنگ خندق میں جب عرب کانامی گرامی ایک پہلوان امر بن عبدِود گھوڑے سمیت خندق پھلاند کر آگیا ۔حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ تم خندق تو عبور کرکے آگئے ہو مگر میں تمہیں تین پیش کش کرتا ہوں پہلی یہ کہ ہمارے نبی کریم ﷺکا کلمہ پڑھ لو ،دوسری پیش کش یہ ہے کہ تم اپنی جان بچا کر واپس چلے جائو۔ عرب کا نامی گرامی پہلوان اپنے غرورو تکبر میں کہنے لگا کہ میں عرب کا سب سے طاقتور پہلوان ہوں۔ عرب کی عورتیں ساری زندگی مجھے طعنے دیں گی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ پھر مقابلے کیلئے تیار ہوجائو ۔وہ حیران ہوا کہ مجھے آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا مقابلہ ہوا تو باطل حق کے سامنے ہار گیا۔حضرت علیؓ نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔بقول اقبال،
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
۔23برس میں ایک جماعت تیار ہوئی ایمانداروں اور متقیوں کی ،بہادروں اور مجاہدوں کی یہ جماعت اُٹھی ،آگے بڑھی تو زمین و آسماں نے عجیب عجیب نظارے دیکھے ناقابل یقین اور ناقابل ِ فراموش واقعات رو نما ہوئے۔ کہیں 313نے مقابلہ کیا 1100کاتو کہیں صرف 60نے مدمقابل 60ہزار کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ ایمان والوں کا قافلہ باوجود تعداد کم ہونے اور اسلحہ کی کمی کے باوجود فتح پہ فتح حاصل کرتا رہا ۔پھر وہ وقت آیا جب دو سپر طاقتیں تعداد میں کہیں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں کہیں بہتر اپنا زور دکھانے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میدان میں آئیں لیکن اُن کا مقابلہ کون کرے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صرف 70سال میں مسلمانوں نے ایک کروڑ 44ہزار 581مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کر لیا ،بڑی بڑی فوجی طاقتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔روم اور فارس جیسی سپر طاقتیں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئیں ۔وقت کا پہیہ رواں دواں رہا اور مسلمان پے در پے کامیابیاں حا صل کرتے رہے ،آگے بڑھتے رہے 713ء میں طارق بن زیاد صرف بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ سپین میں داخل ہوا۔ ایک لاکھ سات ہزار فوجیوں کی قیادت کرتا ہوا راڈرک مقابلہ پر آیا شکست ِ فاش کھائی ۔سپین میں مسلمان 800سو سال تک حکومت کرتے رہے، مسلمانوں نے غرناطہ اور قرطبہ جیسے شہر آباد کئے،اس زمانے میں قرطبہ میں لمبی لمبی دو رویہ پختہ سڑکیں تھیں اور اُن پر روشنی کا اہتمام تھا۔ اُس کے سات سو سال بعد تک بھی لندن اور پیرس میں ایک بھی عوامی چراغ نہیں تھا ،یورپ سے لوگ علم و ہنر سیکھنے کیلئے غرناطہ اور قرطبہ آیا کرتے تھے ۔مسلمانوں کے پاس بڑے بڑے بحری بیڑے تھے اور صنعت میں بھی مسلمانوں نے خوب ترقی کی۔ 1916ء تک مسلمانوں کی مرکزیت کسی نہ کسی طرح قائم رہی اور مسلما ن شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہے تھے مگر پچھلی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوںنے نہ صرف گھوڑے پالنے چھوڑ دیئے بلکہ گھوڑے بیچ کر سو گئے۔
اپنی موت سے چند روز قبل لیڈی ڈیانا نے ڈوڈی الفہد کو مصری اخبار ’’ الاہرام ‘‘کے چیف ایڈیٹر محمد حسین ہیکل کی کتاب ’’ حضرت عمرفاروق ؓ ‘‘ پیش کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا تھا کہ ’’ آپ کی تاریخ کتنی روشن ہے ‘‘۔یہ ایک ایسا فقرہ ہے جس کے سحر سے ایک با حمیت مسلمان نہیں نکل سکتا ۔لیڈی ڈیانا نے یہ فقرہ اُس قوم کی تاریخ کے بارے میں کہا تھا جو آج انڈو نیشیا سے لیکر مراکش تک اور اُندلس سے یمن تک عیسائیت ، اشتراکیت ، اشتمالیت، یہودیت ،لادینیت ،برہمنیت اور مغربی طاغوتی طاقتوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے مغرب کی یہودی لابی نے جس کے پیٹ میں اسرائیل کا چھرا گھونپااہل سعود کا کردار بھی اہل یہود جیسا ہوگیا ،وہ نبی آخرالزماں ﷺکے آخری خطبہ کا پہلا اور بنیادی نکتہ تک بھول گئے کہ عرب کی سرزمین پر یہو دونصاریٰ کا وجود نہ ہو مگر آج وہاں امریکہ کی بے دام غلامی کی شکل ہمیں عملی طور پر نظر آتی ہے۔ خلافت راشدہ کے بعدیہ قوم اپنے آپ کو سنبھالنے میں ناکام رہی جب تک اس قوم کا عروج رہا اس کی تہذیب غالب رہی ۔علم و ادب اور سائنس کے میدان میں اس کا عروج رہا جنگ عظیم اول کے بعد اس قوم نے خلافت کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا اور اکتوبر 1918میں جنرل گورو نے اس قوم کے محسن عظیم صلاح الدین ایوبی ؒ کی قبر پر ٹھوکر مارتے ہوئے کہا ’’لو صلاح الدین ؒ ہم یہاں تک آگئے اور ہم نے شام بھی فتح کر لیا تم کب تک سوتے رہو گے مگر اس قوم کی حمیت سوئی رہی ۔3مارچ 1924ء کو اس قوم کے ایک حکمران مصطفیٰ کمال نے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کیا تو اس کا ایک شاعر اقبال ؒتڑپ اُٹھا
چاک کردی تُرک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
آج یہ قوم اتنی کمزور ہے کہ اہل مغرب اور انکی تہذیب کو وقتی طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ یہودیت اور عیسائیت آج پھر صلیبی ذہنیت کے ساتھ اس قوم کے ساتھ بر سر ِ پیکار ہے۔ ایک عرب اخبار ’’خلیج ٹائم‘‘ فلسطینیوں پر ہونے والے حالیہ مظالم پر لکھتا ہے کہ ’’وحشیانہ جنسی تشدد کا غم انگیز لاوا مظلوم فلسطینی عورتوں کی شہادتوں سے پھوٹ پڑا ہے۔ مظالم کا شکار یہ مظلوم عورتیں بتاتی ہیں اسرائیلی افواج نے چھ چھ سات سات سال کی بچیوں تک کو بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا ِ۔ ستم رسیدہ اور مظلوم بچیاں اس دوران میں جاں بحق ہو جاتی ہیں ۔‘‘ لیکن یہ قوم خاموش ہے ۔عالمی ادارے بھی اپنے ایوانوں سے اس قوم کے ساتھ کی جانے والی سفاکی کے نظارے دیکھ رہا ہے۔
۔14مئی 1948ء کو رات دس بجے ایک یہودی ایجنسی نے دنیا کی پہلی یہودی نظریاتی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود وہاں کے فطری فلسطینی باشندوں کا نہ صرف بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے بلکہ اُن کو اپنے وطن سے نکالنے کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ اقوام متحدہ کی بات چلی ہے تو تھوڑی سی روشنی اُس کے کردار پر بھی ڈالنا ضروری ہے۔ 1947ء میں برطانیہ نے جب اقوام متحدہ میں فلسطین کا مسئلہ پیش کیا تو امن و انصاف کے نام پر قائم ہونے والے اس ادارے نے خود اپنے آئین اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا جس کی تفصیل بڑی درد ناک اور شرمناک ہے جب اسرائیل کے پاس فلسطین کا صرف چھ فیصد حصہ تھا اُس وقت 55فیصد رقبہ یہودی آبادی کو اور 45فیصد مسلم عرب آبادی کو دے دیا گیا۔ امن و انصاف کے اس ظالمانہ جابرانہ پیمانے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی یہودی اس درندانہ بندر بانٹ پر بھی راضی نہ رہے اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں ۔اس وقت فلسطین کا 82فیصد رقبہ اسرائیل کے تسلط میں جا چکا ہے ۔ جس روز اقوام متحدہ نے یہ غیر منصفانہ فیصلہ سنایا اُس کا اعلان ہوتے ہی چھ لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صلیبی جنگجو ئوں نے مسلم قوم کے گوشت کو بطور ٹانک اور دوا کے استعمال کیا۔ صلیبی جنگ کے دوران دو ہزار ترک فوجیوں کے سر کاٹے گئے، کچھ سروں کی ٹرافیوں کے طور پر نمائش کی گئی آج یہودیت 1919ء کی وہ یاد تازہ کر رہی ہے جب یروشلم میں صلیبی سپاہیوں نے مسجد عمر ؓ میں گھس کرمسلم قوم کا قتل عام کیا اس وقت دل ہلا دینے والے شورو غل میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ہر سو موت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ،مسجد عمر ؓ کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا ،خون صلیبی سواروں کے ٹخنوں اور رکابوں پر پہنچ رہا تھا ،وہاں 70ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
محمد حسین ہیکل نے جس عظیم رہبر پر سیر حاصل بحث کی ،فلسطین کی فتح کے بعد جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو ان کا غلام اونٹ پر سوار تھا اور وہ عظیم خلیفہ پیدل چل رہے تھے ۔آپؓ کی قمیض پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے جب اہلیان شہر استقبال کیلئے آئے تو آپؓ نے فرمایا ۔۔راہبوں پر تلوار نہ اُٹھائو ،عبادت گاہوں کو مسمار نہ کرو اور آپؓ نے بشپ کی اجازت حاصل کرکے ان کے گرجے میں نماز ادا فرمائی ،آج وہی فلسطین لہو لہو ہے ۔یہ بات ہے تو تلخ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمام وسائل کے ہوتے ہوئے مسلمانوں نے وقت کی آواز پر لبیک نہیں کہا ۔بڑے بڑے وسائل رکھنے والے مسلمان حکمران محلات تعمیر کرنے ،اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں لگے رہے ،دوسری طرف قومیں جن کی نظر تاریخ پر تھی ،مسلسل تیاری کرتی رہیں ،اُس غفلت کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں ۔عراق پر حملہ ہوا ،افغانستان کو بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا اور نام نہا دسپر پاور باری کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے ۔دہشت گردی کی اختراع ہمارے لئے گھڑی گئی ،ہم اتنا بھی نہ کہہ پائے کہ تمہارے پاس کیا جواز ہے، نائن الیون پرکے خود ساختہ واقعے پر ہم خاموش رہے۔ ہماری خاموشی بھی جرم کے مترادف جسے مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ آج امریکہ ایٹم بم بنا کر جاپان کے دو شہرتباہ برباد کرنے کے بعد، لیبیا، عراق، شام، فلسطین، اور افغانستان میں خون ریزی کرنے کے باوجود بھی مجرم نہیں کہلاتا اور مسلمان کچھ نہ کرکے بھی دہشتگرد ہیں۔
جمال عبدالناصر مسلم امہ کا حقیقی رہنما تھا جس نے مصر کی حکومت سنبھالی تومصر میں مفلوک الحالی کا دور دورہ تھا ۔ نہر سویز برطانیہ اور فرانس کے زیر تسلط تھی مگر جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو برطانیہ اور فرانس کے قبضہ سے چھڑایا ،اس نے جب آپریشن شروع کیا تو اپنی قوم کو آگاہ تک نہ کیا ،تین گھنٹہ تک تسلسل کے ساتھ قوم سے خطاب کیا جبکہ دوسری طرف آپریشن جاری تھا جب نہر سویز آزاد ہوگئی تو جمال عبدالناصر نے قوم کو خوشخبری سنائی۔ یہ مسلم لیڈر شپ کا کمال تھا ۔ ہندوستان میں شہاب الدین غوری نے جب پرتھوی راج کو شکست دی تو شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد اس نے اپنا لباس اُتارا ۔نیچے جو لباس تھا وہ خون آلود تھا اور یہ خون برسوں سے سوکھ چکا تھا ۔شہاب الدین غوری سے جب اس بابت پوچھا گیا تو اس نے کہا یہ وہ لباس ہے جس میں شکست سے دوچار ہوا میں نے یہ تہیہ کیا تھا کہ اس وقت تک یہ لباس نہیں اتاروں گا جب تک میں اپنی شکست کا بدلہ نہیں لے لیتا۔
قذافی کی موت کا پس منظر بھی یہی ہے کہ وہ سامراج کے بھیانک منصوبوں کے خلاف کھڑا ہوگیا ،وہ سونے کی کرنسی لانچ کررہا تھا جس سے امریکہ کو اپنا ڈالر ختم ہوتا ہوا نظر آیا۔ قذافی کا کہنا تھا کہ گولڈ کے ذریعے ہمارے ساتھ تجارت کی جائے ، تیل کے بدلے سونا دیا جائے اور امریکہ ہمیں کوئی چیز دے تواس کے بدلے سونا لے یہی بات امریکی ڈالر کی موت تھی پھر مغرب نے لیبیا سے اپنے ایجنٹ متحرک کئے جنہوں نے قذافی کے خلاف رائے عامہ ہموار کی اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب مسلم امہ کو متحد کرنے کا جرم کیا ،مشرق وسطیٰ کی مسلم ریاستوں کو باور کرایاکہ تیل کے ذخائر ہمارے پاس ہیں اور اسے سامراجی طاقتیں استعمال کر رہی ہیں یہی جرم تھا ذوالفقار علی بھٹو کاجس پر سفید ہاتھی اس کی جان کے درپے ہوگیا اس جرم میں اسے تختہ دار پر جھولنا پڑا ۔​
 

تحریر : ن-ا-ورک
دنیا کا کل رقبہ 14کروڑ 84لاکھ 29ہزار مربع کلومیٹر ہے، ایک چوتھائی حصے پر 50 اسلامی ممالک موجود ہیں ۔دنیا کی کل آبادی 7.7ارب ہے اس میں مسلمانوں کی تعداد 1ارب 70کروڑ 27ؒٓؒٓلاکھ 42ہزار ہے سوائے عیسائیوں کے کسی اور مذہب کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نہیں۔
اللہ اکبر
باعمل کر دے
 
نہیں۔
دنیا میں اس وقت اہم ترین بندر گاہیں 40ہیں جن میں ایک تہائی یعنی 14بندر گاہیں مسلم ممالک کی ہیں، تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد 17ہے جن میں سے 14 مسلم ملک ہیں ،گیس کے بڑے ذخائر دس ممالک میں ہیں جن میں مسلم ممالک کی تعداد 5ہے یورینیم کے بڑے ذخائر رکھنے والے 7ممالک میں سے مسلم ممالک کی تعداد 4ہے۔اہم ترین عالمی بحری راستے بھی مسلم ممالک کے پاس ہیں ۔سوال یہ ہے کہ وسائل اتنے زیادہ مگر اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود سمندر کے جھاگ کی طرح یہ بے وزن کیوں ہیں ؟ اتنے کمزور کیوں ہیں ؟
ماشاءاللہ
مالی وسائل بھی دوسری اقوام عالم سے زیادہ
 
اُٹھائیں مسلمان ہی زیر عتاب ہیں ۔انڈیا میں مسلمانوں کے وجود کو ختم کیا جارہا ہے ،فلسطین میں قیامت ٹوٹ رہی ہے ،برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے، مسلمانوں کے جسم کے کباب بناکر کھائے جارہے ہیں ،افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کوتہہ بارود کیا گیا ، کشمیر لہو لہو ہے ۔آخر اس بے بسی ،کمزوری کی کوئی وجہ تو ہے ڈیڑھ ارب سے زیادہ تعداد میں موجود یہ قوم اتنی کمزور اور بے بس تو نہ تھی۔ یہ وہی قوم ہے جس کی ابتدا 611ء میں ہوئی امام الانبیاء خاتم النبینﷺنے توحید کی صدا لگائی ایک عظیم انقلاب برپا ہوا عرب کے ایک چھوٹے سے شہر سے اُٹھنے والی آواز انتہائی مختصر عرصہ میں کرہء ارض پر پھیل گئی ۔مولا علی ؓکے سامنے جنگ خندق میں جب عرب کانامی گرامی ایک پہلوان امر بن عبدِود گھوڑے سمیت خندق پھلاند کر آگیا ۔حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ تم خندق تو عبور کرکے آگئے ہو مگر میں تمہیں تین پیش کش کرتا ہوں پہلی یہ کہ ہمارے نبی کریم ﷺکا کلمہ پڑھ لو ،دوسری پیش کش یہ ہے کہ تم اپنی جان بچا کر واپس چلے جائو۔ عرب کا نامی گرامی پہلوان اپنے غرورو تکبر میں کہنے لگا کہ میں عرب کا سب سے طاقتور پہلوان ہوں۔ عرب کی عورتیں ساری زندگی مجھے طعنے دیں گی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ پھر مقابلے کیلئے تیار ہوجائو ۔وہ حیران ہوا کہ مجھے آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا مقابلہ ہوا تو باطل حق کے سامنے ہار گیا۔حضرت علیؓ نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔بقول اقبال،
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
۔23برس میں ایک جماعت تیار ہوئی ایمانداروں اور متقیوں کی ،بہادروں اور مجاہدوں کی یہ جماعت اُٹھی ،آگے بڑھی تو زمین و آسماں نے عجیب عجیب نظارے دیکھے ناقابل یقین اور ناقابل ِ فراموش واقعات رو نما ہوئے۔ کہیں 313نے مقابلہ کیا 1100کاتو کہیں صرف 60نے مدمقابل 60ہزار کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ ایمان والوں کا قافلہ باوجود تعداد کم ہونے اور اسلحہ کی کمی کے باوجود فتح پہ فتح حاصل کرتا رہا ۔پھر وہ وقت آیا جب دو سپر طاقتیں تعداد میں کہیں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں کہیں بہتر اپنا زور دکھانے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میدان میں آئیں لیکن اُن کا مقابلہ کون کرے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صرف 70سال میں مسلمانوں نے ایک کروڑ 44ہزار 581مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کر لیا ،بڑی بڑی فوجی طاقتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔روم اور فارس جیسی سپر طاقتیں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئیں ۔وقت کا پہیہ رواں دواں رہا اور مسلمان پے در پے کامیابیاں حا صل کرتے رہے ،آگے بڑھتے رہے 713ء میں طارق بن زیاد صرف بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ سپین میں داخل ہوا۔ ایک لاکھ سات ہزار فوجیوں کی قیادت کرتا ہوا راڈرک مقابلہ پر آیا شکست ِ فاش کھائی ۔سپین میں مسلمان 800سو سال تک حکومت کرتے رہے، مسلمانوں نے غرناطہ اور قرطبہ جیسے شہر آباد کئے،اس زمانے میں قرطبہ میں لمبی لمبی دو رویہ پختہ سڑکیں تھیں اور اُن پر روشنی کا اہتمام تھا۔ اُس کے سات سو سال بعد تک بھی لندن اور پیرس میں ایک بھی عوامی چراغ نہیں تھا ،یورپ سے لوگ علم و ہنر سیکھنے کیلئے غرناطہ اور قرطبہ آیا کرتے تھے ۔مسلمانوں کے پاس بڑے بڑے بحری بیڑے تھے اور صنعت میں بھی مسلمانوں نے خوب ترقی کی۔ 1916ء تک مسلمانوں کی مرکزیت کسی نہ کسی طرح قائم رہی اور مسلما ن شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہے تھے مگر پچھلی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوںنے نہ صرف گھوڑے پالنے چھوڑ دیئے بلکہ گھوڑے بیچ کر سو گئے۔
اپنی موت سے چند روز قبل لیڈی ڈیانا نے ڈوڈی الفہد کو مصری اخبار ’’ الاہرام ‘‘کے چیف ایڈیٹر محمد حسین ہیکل کی کتاب ’’ حضرت عمرفاروق ؓ ‘‘ پیش کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا تھا کہ ’’ آپ کی تاریخ کتنی روشن ہے ‘‘۔یہ ایک ایسا فقرہ ہے جس کے سحر سے ایک با حمیت مسلمان نہیں نکل سکتا ۔لیڈی ڈیانا نے یہ فقرہ اُس قوم کی تاریخ کے بارے میں کہا تھا جو آج انڈو نیشیا سے لیکر مراکش تک اور اُندلس سے یمن تک عیسائیت ، اشتراکیت ، اشتمالیت، یہودیت ،لادینیت ،برہمنیت اور مغربی طاغوتی طاقتوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے مغرب کی یہودی لابی نے جس کے پیٹ میں اسرائیل کا چھرا گھونپااہل سعود کا کردار بھی اہل یہود جیسا ہوگیا ،وہ نبی آخرالزماں ﷺکے آخری خطبہ کا پہلا اور بنیادی نکتہ تک بھول گئے کہ عرب کی سرزمین پر یہو دونصاریٰ کا وجود نہ ہو مگر آج وہاں امریکہ کی بے دام غلامی کی شکل ہمیں عملی طور پر نظر آتی ہے۔ خلافت راشدہ کے بعدیہ قوم اپنے آپ کو سنبھالنے میں ناکام رہی جب تک اس قوم کا عروج رہا اس کی تہذیب غالب رہی ۔علم و ادب اور سائنس کے میدان میں اس کا عروج رہا جنگ عظیم اول کے بعد اس قوم نے خلافت کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا اور اکتوبر 1918میں جنرل گورو نے اس قوم کے محسن عظیم صلاح الدین ایوبی ؒ کی قبر پر ٹھوکر مارتے ہوئے کہا ’’لو صلاح الدین ؒ ہم یہاں تک آگئے اور ہم نے شام بھی فتح کر لیا تم کب تک سوتے رہو گے مگر اس قوم کی حمیت سوئی رہی ۔3مارچ 1924ء کو اس قوم کے ایک حکمران مصطفیٰ کمال نے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کیا تو اس کا ایک شاعر اقبال ؒتڑپ اُٹھا
چاک کردی تُرک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
آج یہ قوم اتنی کمزور ہے کہ اہل مغرب اور انکی تہذیب کو وقتی طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ یہودیت اور عیسائیت آج پھر صلیبی ذہنیت کے ساتھ اس قوم کے ساتھ بر سر ِ پیکار ہے۔ ایک عرب اخبار ’’خلیج ٹائم‘‘ فلسطینیوں پر ہونے والے حالیہ مظالم پر لکھتا ہے کہ ’’وحشیانہ جنسی تشدد کا غم انگیز لاوا مظلوم فلسطینی عورتوں کی شہادتوں سے پھوٹ پڑا ہے۔ مظالم کا شکار یہ مظلوم عورتیں بتاتی ہیں اسرائیلی افواج نے چھ چھ سات سات سال کی بچیوں تک کو بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا ِ۔ ستم رسیدہ اور مظلوم بچیاں اس دوران میں جاں بحق ہو جاتی ہیں ۔‘‘ لیکن یہ قوم خاموش ہے ۔عالمی ادارے بھی اپنے ایوانوں سے اس قوم کے ساتھ کی جانے والی سفاکی کے نظارے دیکھ رہا ہے۔
۔14مئی 1948ء کو رات دس بجے ایک یہودی ایجنسی نے دنیا کی پہلی یہودی نظریاتی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود وہاں کے فطری فلسطینی باشندوں کا نہ صرف بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے بلکہ اُن کو اپنے وطن سے نکالنے کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ اقوام متحدہ کی بات چلی ہے تو تھوڑی سی روشنی اُس کے کردار پر بھی ڈالنا ضروری ہے۔ 1947ء میں برطانیہ نے جب اقوام متحدہ میں فلسطین کا مسئلہ پیش کیا تو امن و انصاف کے نام پر قائم ہونے والے اس ادارے نے خود اپنے آئین اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا جس کی تفصیل بڑی درد ناک اور شرمناک ہے جب اسرائیل کے پاس فلسطین کا صرف چھ فیصد حصہ تھا اُس وقت 55فیصد رقبہ یہودی آبادی کو اور 45فیصد مسلم عرب آبادی کو دے دیا گیا۔ امن و انصاف کے اس ظالمانہ جابرانہ پیمانے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی یہودی اس درندانہ بندر بانٹ پر بھی راضی نہ رہے اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں ۔اس وقت فلسطین کا 82فیصد رقبہ اسرائیل کے تسلط میں جا چکا ہے ۔ جس روز اقوام متحدہ نے یہ غیر منصفانہ فیصلہ سنایا اُس کا اعلان ہوتے ہی چھ لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صلیبی جنگجو ئوں نے مسلم قوم کے گوشت کو بطور ٹانک اور دوا کے استعمال کیا۔ صلیبی جنگ کے دوران دو ہزار ترک فوجیوں کے سر کاٹے گئے، کچھ سروں کی ٹرافیوں کے طور پر نمائش کی گئی آج یہودیت 1919ء کی وہ یاد تازہ کر رہی ہے جب یروشلم میں صلیبی سپاہیوں نے مسجد عمر ؓ میں گھس کرمسلم قوم کا قتل عام کیا اس وقت دل ہلا دینے والے شورو غل میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ہر سو موت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ،مسجد عمر ؓ کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا ،خون صلیبی سواروں کے ٹخنوں اور رکابوں پر پہنچ رہا تھا ،وہاں 70ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
محمد حسین ہیکل نے جس عظیم رہبر پر سیر حاصل بحث کی ،فلسطین کی فتح کے بعد جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو ان کا غلام اونٹ پر سوار تھا اور وہ عظیم خلیفہ پیدل چل رہے تھے ۔آپؓ کی قمیض پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے جب اہلیان شہر استقبال کیلئے آئے تو آپؓ نے فرمایا ۔۔راہبوں پر تلوار نہ اُٹھائو ،عبادت گاہوں کو مسمار نہ کرو اور آپؓ نے بشپ کی اجازت حاصل کرکے ان کے گرجے میں نماز ادا فرمائی ،آج وہی فلسطین لہو لہو ہے ۔یہ بات ہے تو تلخ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمام وسائل کے ہوتے ہوئے مسلمانوں نے وقت کی آواز پر لبیک نہیں کہا ۔بڑے بڑے وسائل رکھنے والے مسلمان حکمران محلات تعمیر کرنے ،اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں لگے رہے ،دوسری طرف قومیں جن کی نظر تاریخ پر تھی ،مسلسل تیاری کرتی رہیں ،اُس غفلت کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں ۔عراق پر حملہ ہوا ،افغانستان کو بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا اور نام نہا دسپر پاور باری کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے ۔دہشت گردی کی اختراع ہمارے لئے گھڑی گئی ،ہم اتنا بھی نہ کہہ پائے کہ تمہارے پاس کیا جواز ہے، نائن الیون پرکے خود ساختہ واقعے پر ہم خاموش رہے۔ ہماری خاموشی بھی جرم کے مترادف جسے مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ آج امریکہ ایٹم بم بنا کر جاپان کے دو شہرتباہ برباد کرنے کے بعد، لیبیا، عراق، شام، فلسطین، اور افغانستان میں خون ریزی کرنے کے باوجود بھی مجرم نہیں کہلاتا اور مسلمان کچھ نہ کرکے بھی دہشتگرد ہیں۔
وہی قوم ہے جس کی ابتدا 611ء میں ہوئی امام الانبیاء خاتم النبینﷺنے توحید کی صدا لگائی ایک عظیم انقلاب برپا ہوا عرب کے ایک چھوٹے سے شہر سے اُٹھنے والی آواز انتہائی مختصر عرصہ میں کرہء ارض پر پھیل گئی ۔مولا علی ؓکے سامنے جنگ خندق میں جب عرب کانامی گرامی ایک پہلوان امر بن عبدِود گھوڑے سمیت خندق پھلاند کر آگیا ۔حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ تم خندق تو عبور کرکے آگئے ہو مگر میں تمہیں تین پیش کش کرتا ہوں پہلی یہ کہ ہمارے نبی کریم ﷺکا کلمہ پڑھ لو ،دوسری پیش کش یہ ہے کہ تم اپنی جان بچا کر واپس چلے جائو۔ عرب کا نامی گرامی پہلوان اپنے غرورو تکبر میں کہنے لگا کہ میں عرب کا سب سے طاقتور پہلوان ہوں۔ عرب کی عورتیں ساری زندگی مجھے طعنے دیں گی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ پھر مقابلے کیلئے تیار ہوجائو ۔وہ حیران ہوا کہ مجھے آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا مقابلہ ہوا تو باطل حق کے سامنے ہار گیا۔حضرت علیؓ نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔بقول اقبال،
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
۔23برس میں ایک جماعت تیار ہوئی ایمانداروں اور متقیوں کی ،بہادروں اور مجاہدوں کی یہ جماعت اُٹھی ،آگے بڑھی تو زمین و آسماں نے عجیب عجیب نظارے دیکھے ناقابل یقین اور ناقابل ِ فراموش واقعات رو نما ہوئے۔ کہیں 313نے مقابلہ کیا 1100کاتو کہیں صرف 60نے مدمقابل 60ہزار کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ ایمان والوں کا قافلہ باوجود تعداد کم ہونے اور اسلحہ کی کمی کے باوجود فتح پہ فتح حاصل کرتا رہا ۔پھر وہ وقت آیا جب دو سپر طاقتیں تعداد میں کہیں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں کہیں بہتر اپنا زور دکھانے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میدان میں آئیں لیکن اُن کا مقابلہ کون کرے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صرف 70سال میں مسلمانوں نے ایک کروڑ 44ہزار 581مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کر لیا ،بڑی بڑی فوجی طاقتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔روم اور فارس جیسی سپر طاقتیں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئیں ۔وقت کا پہیہ رواں دواں رہا اور مسلمان پے در پے کامیابیاں حا صل کرتے رہے ،آگے بڑھتے رہے 713ء میں طارق بن زیاد صرف بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ سپین میں داخل ہوا۔ ایک لاکھ سات ہزار فوجیوں کی قیادت کرتا ہوا راڈرک مقابلہ پر آیا شکست ِ فاش کھائی ۔سپین میں مسلمان 800سو سال تک حکومت کرتے رہے، مسلمانوں نے غرناطہ اور قرطبہ جیسے شہر آباد کئے،اس زمانے میں قرطبہ میں لمبی لمبی دو رویہ پختہ سڑکیں تھیں اور اُن پر روشنی کا اہتمام تھا۔ اُس کے سات سو سال بعد تک بھی لندن اور پیرس میں ایک بھی عوامی چراغ نہیں تھا ،یورپ سے لوگ علم و ہنر سیکھنے کیلئے غرناطہ اور قرطبہ آیا کرتے تھے ۔مسلمانوں کے پاس بڑے بڑے بحری بیڑے تھے اور صنعت میں بھی مسلمانوں نے خوب ترقی کی۔ 1916ء تک مسلمانوں کی مرکزیت کسی نہ کسی طرح قائم رہی اور مسلما ن شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہے تھے مگر پچھلی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوںنے نہ صرف گھوڑے پالنے چھوڑ دیئے بلکہ گھوڑے بیچ کر سو گئے
 
جنگجو ئوں نے مسلم قوم کے گوشت کو بطور ٹانک اور دوا کے استعمال کیا۔ صلیبی جنگ کے دوران دو ہزار ترک فوجیوں کے سر کاٹے گئے، کچھ سروں کی ٹرافیوں کے طور پر نمائش کی گئی آج یہودیت 1919ء کی وہ یاد تازہ کر رہی ہے جب یروشلم میں صلیبی سپاہیوں نے مسجد عمر ؓ میں گھس کرمسلم قوم کا قتل عام کیا اس وقت دل ہلا دینے والے شورو غل میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ہر سو موت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ،مسجد عمر ؓ کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا ،خون صلیبی سواروں کے ٹخنوں اور رکابوں پر پہنچ رہا تھا ،وہاں 70ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
صلیبیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک
 
۔23برس میں ایک جماعت تیار ہوئی ایمانداروں اور متقیوں کی ،بہادروں اور مجاہدوں کی یہ جماعت اُٹھی ،آگے بڑھی تو زمین و آسماں نے عجیب عجیب نظارے دیکھے ناقابل یقین اور ناقابل ِ فراموش واقعات رو نما ہوئے۔ کہیں 313نے مقابلہ کیا 1100کاتو کہیں صرف 60نے مدمقابل 60ہزار کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ ایمان والوں کا قافلہ باوجود تعداد کم ہونے اور اسلحہ کی کمی کے باوجود فتح پہ فتح حاصل کرتا رہا ۔پھر وہ وقت آیا جب دو سپر طاقتیں تعداد میں کہیں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں کہیں بہتر اپنا زور دکھانے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میدان میں آئیں لیکن اُن کا مقابلہ کون کرے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صرف 70سال میں مسلمانوں نے ایک کروڑ 44ہزار 581مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کر لیا ،بڑی بڑی فوجی طاقتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔روم اور فارس جیسی سپر طاقتیں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئیں ۔وقت کا پہیہ رواں دواں رہا اور مسلمان پے در پے کامیابیاں حا صل کرتے رہے ،آگے بڑھتے رہے 713ء میں طارق بن زیاد صرف بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ سپین میں داخل ہوا۔ ایک لاکھ سات ہزار فوجیوں کی قیادت کرتا ہوا راڈرک مقابلہ پر آیا شکست ِ فاش کھائی ۔سپین میں مسلمان 800سو سال تک حکومت کرتے رہے، مسلمانوں نے غرناطہ اور قرطبہ جیسے شہر آباد کئے،اس زمانے میں قرطبہ میں لمبی لمبی دو رویہ پختہ سڑکیں تھیں اور اُن پر روشنی کا اہتمام تھا۔ اُس کے سات سو سال بعد تک بھی لندن اور پیرس میں ایک بھی عوامی چراغ نہیں تھا ،یورپ سے لوگ علم و ہنر سیکھنے کیلئے غرناطہ اور قرطبہ آیا کرتے تھے ۔مسلمانوں کے پاس بڑے بڑے بحری بیڑے تھے اور صنعت میں بھی مسلمانوں نے خوب ترقی کی۔ 1916ء تک مسلمانوں کی مرکزیت کسی نہ کسی طرح قائم رہی اور مسلما ن شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہے تھے مگر پچھلی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوںنے نہ صرف گھوڑے پالنے چھوڑ دیئے بلکہ گھوڑے بیچ کر سو گئے
اور ہمارے وطن کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 70 سالوں میں؟​
 
Back
Top