Sab se pehle: aap aur Kaun ? M Ibrahim Khan Column

سب سے پہلے : آپ اور کون؟ ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

شخصی ارتقاء کے حوالے سے سوچنے اور لکھنے والے اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ انسان کو سب سے بڑھ کر اپنے وجود سے محبت ہونی چاہیے۔ جب ایسا ہوتا ہے تب راہیں ہموار ہوتی ہیں‘ کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے اور فرق دکھائی دیتا ہے۔
لوئی ہے کا کہنا ہے کہ اپنے وجود سے محبت کرنا ہماری زندگی میں معجزوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اپنے وجود سے پیار کرنا ہے۔ جب آپ اپنے وجود کو چاہیں گے تب دوسرے بھی آپ پر متوجہ ہوں گے۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو چاہیں تو کوئی ہم پر کیوں متوجہ ہوگا۔ لوگ بنیادی طور پر اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ کوئی اُنہیں چاہے‘ اُن پر متوجہ ہو۔ ایسے میں آپ کا اپنے آپ کو چاہنا کسی کے لیے دلچسپی کا باعث کیوں اور کیونکر ہوسکتا ہے؟
یہ معاملہ تھوڑا سا گھما پھراکر سمجھنے کا ہے۔ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ سب اُس پر متوجہ ہوں۔ مرکزِ نگاہ بننا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنا‘ بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ جو دوسروں کی نظر میں بلند ہونا چاہتے ہیں ‘وہ ایسا کچھ کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہو۔ کوئی بھی انسان کسی پر اُسی وقت متوجہ ہوتا ہے‘ جب وہ اُس کی دلچسپی کا کوئی کام کرتا ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت ہی نہیں۔
دنیا کا ہر انسان بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے ‘اپنے وجود کو خاطر خواہ اہمیت دینا‘ اُسے اپ گریڈ کرنے پر متوجہ ہونا اور اس حد تک مضبوط ہو جانا کہ لوگ رشک کی نظر سے دیکھیں۔ اپنے آپ پر مطلوبہ حد تک متوجہ ہونا‘ بلکہ متوجہ رہنا ایک ایسا عمل ہے‘ جس کے تقاضے کم ہی لوگ نبھا پاتے ہیں۔ اپنے آپ سے پیار کرنا اِس دنیا میں ڈھنگ سے جینے کی ایک بنیادی شرط ہے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘اُن کے لیے وہ تمام دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ‘جو کامیابی کی طرف جانے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔
اپنے آپ کو چاہنے اور خود غرض ہونے میں بہت فرق ہے۔ جو لوگ اپنے وجود سے پیار کرتے ہیں‘ وہ اپنی شخصیت کو اس طور پروان چڑھاتے ہیں کہ جس قدر بھی صلاحیت و سکت ہے وہ بروئے کار لائی جائے اور دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کی جائے۔ یہ دنیا ہر اس انسان سے پیار کرتی ہے جو واضح مثبت سوچ کے ساتھ اپنے وجود کو پروان چڑھانے پر متوجہ ہوتا ہے۔ مثبت سوچ کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتا ہو اُس سے دوسروں کا بھلا کرنے کا بھی سوچے۔
سوال یہ ہے کہ انسان دوسروں کا بھلا کیوں سوچے؟ معاملہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں۔ سبھی سمندر میں ہیں۔ سبھی کو ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا ہے۔ کسی بھی انسان کی اپ گریڈیشن اُسی وقت کوئی مفہوم رکھتی ہے جب وہ اپنی کارکردگی سے دوسروں کے لیے بھی کوئی نتیجہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ صرف ہمارے لیے نہیں ہوتا‘ دوسروں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جس طور ہمیں دوسروں سے غرض ہوتی ہے بالکل اُسی طور دوسروں کو بھی ہم سے غرض ہوتی ہے۔ ہمیں دوسروں سے بہت کچھ درکار ہوتا ہے اور اس کے جواب میں دوسروں کو بھی ہم سے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو بھائیں‘ اچھے لگیں تو لازم ہے کہ دنیا کی مرضی اور مفاد کا بھی کچھ خیال رکھیں۔
کسی قابل ہونے کے لیے انسان کو بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا اور سب سے جاں گُسل مرحلہ ہے اپنے آپ سے پیار کرنا‘ اپنے وجود کو چاہنا۔ اپنے آپ سے پیار کرنے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ اِس کے لیے ہمیں چاہنے کا مطلب سمجھنا ہوگا۔ عمومی سطح پر لوگ چاہنے سے مراد محض مفاد یا غرض لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اپنے آپ کو چاہنے کے نام پر لوگ خود غرضی کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔ خود غرضی بہت محدود تصور ہے۔ جب انسان صرف اپنا بھلا چاہے اور دوسروں کے مفاد سے کچھ بھی غرض نہ رکھے تب خود غرضی پروان چڑھتی ہے۔ اپنے فائدے کا سوچتے رہنا اور دوسروں کو نقصان سے بچانے کے بارے میں نہ سوچنا کسی بھی اعتبار سے ایسا عمل نہیں جسے کوئی بھی شخص مستحسن گردانے۔
جب کوئی اپنے وجود سے سچا پیار کرتا ہے تو دوسروں کو بھی کچھ دینے کے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانا دوسروں کی نظر میں بلند ہونے کا آسان طریقہ ہے۔ اپنے آپ کو چاہنے کے عمل میں انسان وہ سب کچھ سیکھتا ہے ‘جو اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اُس کی کارکردگی نکھرتی جاتی ہے اور لوگوں کو اُس کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہی نہیں ہو پاتا‘ بلکہ بہت کچھ ملتا بھی رہتا ہے۔
اپنے وجود کو اولیت دے کر ‘یعنی چاہنے کی صورت میں اپ گریڈ کرنے والا ہر انسان اس دنیا کو بھی اپ گریڈ کرتا ہے۔ جب انسان اپنے وجود کو بلند کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو ایسا بہت کچھ کرتا ہے جو دوسروں کے مفاد کے مطابق بھی ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اپنے آپ کو چاہنے کے عمل میں سوچ کی سمت کیا رہی ہے۔ اگر مثبت سوچ اپناتے ہوئے اپنے آپ کو چاہا جائے تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی بہت کچھ ملتا ہے۔
اب آئیے اِس سوال کی طرف کہ اپنے آپ کو چاہنے والے کو دوسرے کیوں پسند کرتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اپنے آپ کو چاہنے کا مطلب ہے ایک ایسے عمل سے وابستہ ہونا جو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ یہ عمل ہے خرابیوں‘ خامیوں اور بُرائیوں سے دامن بچاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خوبیوں کو یقینی بنانا۔ یہ عمل انسان کو ایسی تمام سرگرمیوں سے دور رکھتا ہے ‘جو دوسروں کو پریشان کرتی ہوں‘ تکلیف دیتی ہوں۔ اپنے وجود سے حقیقی چاہت انسان کو ایسے اعمال کی طرف لے جاتی ہے جو فائدہ ضرور دیتے ہوں ‘مگر کسی کے لیے نقصان کا باعث نہ بنتے ہوں۔ عمومی سطح پر ہم میں سے بیشتر کے لیے اپنے وجود کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ ہم اپنے وجود کو مفت کا مال سمجھ کر اُس کا کماحقہ احترام نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی اپنے وجود سے بھرپور پیار کرتا ہے اور اس عمل میں خود کو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد اور بارآور بناتا ہے‘ تب لوگ تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اس دنیا کی ایک سفّاک حقیقت یہ ہے کہ بیشتر انسان اپنے وجود سے کماحقہ محبت نہیں کرتے‘ اپنے آپ کو زیادہ بارآور بنانے پر پورے من سے متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمیں اول و آخر اپنے وجود کے ساتھ جینا ہے۔ آئینے میں جو دکھائی دے رہا ہے وہ ہر پل آپ کے ساتھ رہا ہے۔ تو پھر اُسے کھل کر کیوں نہ چاہا جائے؟ یہ نکتہ جس قدر جلد سمجھ میں آجائے اُتنا ہی اچھا ہے۔ خود کو پسند کرنے سے چاہنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ سوچ آپ کی شخصیت سے ظاہر ہوتی ہے۔ صحت کا بلند معیار‘ علوم و فنون سے لگاؤ‘ شائستگی اور ہر نقصان سے بچنے کی شعوری کوشش آپ کو دوسروں سے نمایاں کرتی ہے‘ جو اپنے وجود کو چاہتا ہے‘ وہ لامحالہ دوسروں کو بھی پسند آنے لگتا ہے۔
 

Back
Top