Sadar Erdogan ka tareekhi daura By Javed Hafeez Column

صدر اردوان کا تاریخی دورہ
جاوید حفیظ

صدر اردوان متعدد بار پاکستان آ چکے ہیں لیکن انکا حالیہ دورہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ستمبر میں ترکی کے صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی تھی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجتماعات میں پاکستان کو ترکی کی سپورٹ حاصل رہی، اس امر کی خاص اہمیت یوں بھی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ سے باہر رہنے کے لیے کم از کم تین ووٹ درکار تھے تب چائنا، ترکی اور ملائیشیا جیسے آزمودہ دوست آڑے وقت میں ہمارے کام آئے تھے۔ ترکی پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کا بھی حامی رہا ہے۔

صدر طیب رجب اردوان نہ صرف ترکی کے عظیم لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2016ء میں جب مٹھی بھر فوجیوں نے ان کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا تو ترک عوام ان کی حمایت میں سڑکوں پر آ گئے تھے۔ یہ صدر اردوان سے محبت کا والہانہ عوامی اظہار تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ترکی نے عہدِ اردوان میں شاندار ترقی کی ہے اور عوام کا معیار زندگی بہت بہتر ہوا ہے۔

صدر اردوان کے عہدِ حکومت میں ترکی کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ ترکی کو یورپی یونین کی ممبر شپ ابھی تک نہیں مل سکی۔ آج کا ترکی مشرق کی جانب بھی اتنا ہی راغب ہے جتنا کہ مغرب کی طرف۔ ترکی آج بھی نیٹو کا اہم رکن ہے، لیکن فلسطین اور کشمیر کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے، غزہ کی پٹی اسرائیل کے حصار میں تھی۔ تب ترکی سے بحری جہاز غزہ کے عوام کے لیے امدادی سامان لے کر گئے تھے، یہ اور بات ہے کہ اسرائیلی نیوی نے ان جہازوں کو لنگر انداز نہیں ہونے دیا تھا۔ پچھلے سال جب صدر ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ یروشلم (مسلمان اس شہر کو القدس کہتے ہیں) منتقل کرنے کا اعلان کیا تو ترکی نے اس اقدام کی مذمت کرنے کے لیے او آئی سی کا ایمرجنسی اجلاس ترکی میں بلایا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2003 ء کے آغاز میں امریکہ عراق پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ تب امریکہ نے ترکی سے درخواست کی کہ تھی اسے عراقی سرحد کے قریب ایک ایئر بیس دے دے۔ ترکی نے صاف انکار کر دیا تھا حالانکہ امریکہ ایک خطیر رقم بھی ترکی کو دینے کے لیے تیار تھا۔ یہ ترک قیادت کی فراست کا ثبوت تھا۔ ترک قیادت نے سوچا کہ امریکی تو عراق پر بم برسا کر چلے جائیں گے لیکن ترکی اور عراق کے درمیان طویل دورانیے کی نفرت کی دراڑ پڑ جائے گی۔

پچھلے سال ترکی نے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم S-400 خریدنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ کو یہ بات ذرا بھی نہ بھائی۔ امریکہ نے ترکی پر پریشر ڈالا اور کہا کہ ہم ترکی کے ساتھ جدید ترین لڑاکا ہوائی جہاز ایف 35 کی پروڈکشن میں تعاون ختم کر دیں گے لیکن ترکی اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ صدر اردوان کے عہد میں ہونے والی شاندار اقتصادی ترقی کی وجہ سے ہی ترکی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کے قابل ہوا ہے۔ چونکہ پاکستان بھی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کا متمنی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی ساری توجہ اقتصادی ترقی کا عمل تیز کرنے پر مرکوز کرنا ہوگی۔ کشکول توڑے بغیر آپ انٹرنیشنل سطح پر آزاد فیصلے نہیں کر سکتے اور اگر آپ بار بار آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو داخلی اقتصادی پالیسی کے فیصلے بھی باہر سے آئیں گے۔ مثلاً گیس، بجلی کی قیمتوں کے نرخ اور شرح سود کا تعین۔ موجودہ حکومت کی دور رس سوچ اور صحیح پالیسی کی وجہ سے ترکی اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوا ہے۔ یہ سفر لمبا اور کٹھن ضرور تھا لیکن طیب اردوان کی زیرک اور مصمم ارادوں والی قیادت میں طے کر لیا گیا ہے۔

ترک صدر کے دورے کا کلائیمیکس ان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں تھا۔ اس تقریر میں ظہیر الدین بابر سے لے کر علامہ اقبال تک کے پیغام سے حوالے تھے۔ خلافت موومنٹ کا خاص طور پر ذکر تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت موومنٹ میں برصغیر کے مسلمانوں نے ترک بھائیوں کے لیے بے پناہ محبت کا اظہار کیا تھالیکن یہ امر بھی محل نظر رہے کہ خلافت کو ختم ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور دوسرے یہ کہ کمال اتاترک اور ان کے سپورٹرز نے خلافت کی سخت مخالفت کی تھی ۔ لہٰذا خلافتِ عثمانیہ کی یادیں پاک ترک رشتوں کو مضبوط رکھنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہو سکتیں۔

اس بات کا ادراک ہمارے سابق سفیر جناب انعام الحق نے بخوبی کیا تھا۔ انعام صاحب 1990ء کی دہائی میں ترکی میں ہمارے سفیر تھے۔ بعد میں فارن سیکرٹری اور فارن منسٹر بھی رہے۔ ترکی میں قیام کے دوران انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا۔ ترکوں کی وہ نسل جو خلافت کے اختتام پر برصغیر کے مسلمانوں کے جذباتی رد عمل سے خوب واقف تھی‘ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔ ان دنوں جنید جمشید مرحوم اور ان کا میوزیکل گروپ بہت پاپولر تھا۔ انعام صاحب نے اس بینڈ کو ترکی بلایا۔ ترکی کے مختلف شہروں میں فنکشن کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی کی نئی نسل کو دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان از بر ہو گیا۔کچھ عرصہ پہلے دونوں اطراف نے اس بات کے بارے میں سوچ بچار شروع کی کہ محبت کے اس دو طرفہ رشتے کو ٹھوس شکل دی جائے اور ڈیفنس اور تجارت کے شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے۔ دونوں ممالک کے مابین 1988ء میں ایک ڈیفنس مشاورتی گروپ بنا تھا بعد میں اس گروپ کو توسیع دی گئی اور اسے ہائی لیول سٹرٹیجک تعاون کونسل کا نام دیا گیا۔ صدر اردوان کے دورے میں کونسل کا اجلاس ہوا اور مختلف شعبوں میں تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔

ترکی ڈیفنس پروڈکشن میں خاصا آگے ہے 2018ء میں پاکستان نے ترکی کے بنے ہوئے تیس عدد ٹی 129 اٹیک ہیلی کاپٹر خریدے جن کی کل مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر تھی۔ اس وقت پاکستان کے لیے ترکی عسکری ساز و سامان کی امپورٹ کے لحاظ سے چین کے بعد دوسرا اہم ملک ہے۔ اس وزٹ کے دوران تیرہ مذاکراتِ تفاہم یعنی پر دستخط ہوئے۔ دورے کے اختتام پر جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ اس ناسور کے خاتمے کے لیے کام کریں گے۔ اسلامو فوبیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام کے بارے میں پیدا کیا گیا منفی تاثر قابل قبول نہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان زمینی اور ریلوے لائن کے ذریعے رابطے بڑھانے کی بھی بات ہوئی ہے۔ ترک صدر اردوان کی اہلیہ کو جب دو پاکستانی بچوں نے آمد کے وقت پھول پیش کئے تو انہوں نے بڑی خوبصورت بات کی اور وہ یہ تھی کہ ہماری دوستی ایک نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہو رہی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھی کہا گیا ہے کہ پاک ترک دوستی مشترکہ قومی میراث ہے جسے ایک نسل سے دوسری نسل میں ٹرانسفر ہونا چاہئے۔

ترکی میں سیاحت کا شعبہ بہت ترقی یافتہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019ء کے پہلے سات ماہ میں ڈھائی کروڑ سیاح ترکی آئے۔ سیاحت کے شعبے کی آمدنی اربوں ڈالر ہے۔ ترکی کے لیے سیاحت ایک سٹریٹجک اقتصادی میدان ہے۔ پاکستان ترکی سے سیاحت کے فیلڈ میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے شمالی علاقے سیاحوں کے لیے بہت پر کشش ہیں اور پھر ہمارا لاہور ہے، موہنجوڈارو اور ٹیکسلا ہیں۔ مکران کوسٹ سیاحوں کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔

ترکی صدر کا دورہ مجموعی طور پر بہت مثبت رہا۔ پا کستان کو عالمی طور پر تنہا کرنے والے ایک بار پھر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس دورے کے بعد یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب ترکی اور پاکستان کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ ہوگا۔ ہماری دوستی وسیع تر تعاون کی طرف رواں دواں ہے۔​
 

Back
Top