Sakoon Mahal Hai Qudrat Ke Karkhane Mein By Masood Ashar Column

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ۔۔۔۔ مسعود اشعر

علامہ اقبال نے کہا ہے ''سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘‘ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کے اس کارخانے میں واقعی سکوں محال ہے۔ کم سے کم ہمارا کارخانہ تو بالکل ہی امن وسکون سے کوسوں دور ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع ہم اس لئے نقل نہیں کرتے کہ جس تغیر کا اس مصرع میں ذکر کیا گیا ہے وہ ہمیں کہیں ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پرنالہ جہاں بہہ رہا ہے وہیں بہتا رہے گا۔ ایک وزیر کو اس کی وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت میں کھپا دینا تغیر نہیں ہے۔ اور ہم سے جو کہا جا رہا ہے کہ 25 اپریل کا اور انتظار کر لو، اس کے بعد اور تبدیلیاں بھی سامنے آئیں گی تو یقین جانیے، اس انتظار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ نے اعظم سواتی صاحب کا معاملہ دیکھ لیا۔ انہوں نے اپنے شاندار فارم ہائوس کے ساتھ چھوٹی سی جھونپڑی ڈالنے والے ایک غریب اور بے آسرا شخص کے ساتھ جو سلوک کیا، آج وہ کسی کو بھی یاد نہیں آ رہا ہے۔ ہم سب اسے بھول بھال گئے ہیں اور اعظم سواتی صاحب، جن کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹکتی نظر آ رہی تھی، وہ اس حکومت کی لانڈری سے صاف ستھرے ہو کر ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں۔ اب انہیں ایک نہایت ہی بااثر اور زیادہ طاقتور وزارت مل گئی ہے۔ اب کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ سوات کو کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔ وہ تو خوددار اور غیرت مند یوسف زئی پٹھانوں کا علاقہ ہے۔ اور وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ اتفاق سے ہمارے بزرگ بھی اسی سوات سے ترک وطن کرکے اس علاقے میں گئے تھے جہاں ہم پیدا ہوئے۔ یہ بات ہمیں بھی اچھی نہیں لگتی کہ صرف ایک آدمی کی وجہ سے پورے سوات کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے سوات کے پٹھان اسے کبھی پسند نہیں کریں گے۔ لیکن عمران خان صاحب کے لئے یہ کسی شخص یا کسی علاقے کی بدنامی نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا سمجھتے تو اعظم خان کو اس طرح بحال نہ کرتے۔
تو صاحب اعظم سواتی صاحب کی بحالی آپ نے دیکھ لی۔ اب آپ پریشان نہ ہوں، جہانگیر ترین صاحب کا بھی کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے بھی کافی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اور ایسی سرمایہ کاری کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ترین صاحب خود ہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان سے ان کی جو تھوڑی بہت دوری پیدا ہو گئی ہے وہ جلد ہی دوبارہ قربت میں بدل جائے گی۔ یاد رکھیے، یہ ہمارا سیاسی تجزیہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ احساس ہے جسے انگریزی میں گٹ فیلنگز کہا جاتا ہے۔ دل سے نکلنے والی آواز۔ البتہ، عمران خان اس معاملے میں واقعی تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھ دی جو آٹا چینی سکینڈل کے بارے میں بنایا گیا تھا‘ اور جس میں ان کے اپنے ہی بعض ساتھی ملوث نظر آتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے۔ ورنہ ایسی رپورٹ سات پردوں میں چھپا دی جاتی ہے۔ عام پاکستانی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ صرف ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو ہی یاد کر لیجئے۔ لیکن کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جن فیصلوں کی وجہ سے یہ آٹا اور چینی سکینڈل پیدا ہوا وہ فیصلے اس کابینہ کے اجلاس میں کئے گئے جن کی صدارت وزیر اعظم خود کر رہے تھے۔ بہرحال 25 اپریل کا ہم بھی انتظار کر رہے ہیں، آپ بھی انتظار کر لیجئے۔ اس وقت تک آپ اپنے ٹیلی وژن چینلز کے ٹاک شوز سے لطف اندوز ہوتے رہیے۔ ان چینلز کی بھی مجبوری ہے۔ انہیں چٹ پٹا مسالہ چاہیے اور خدا ہماری حکومتوں اور ہمارے سیاست دانوں کو سلامت رکھے، کسی نہ کسی بہانے انہیں یہ چٹ پٹی چاٹ ملتی ہی رہتی ہے۔
ہمیں تو اس وبا یا اس بلا نے پریشان کر رکھا ہے جس نے ساری دنیا کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور کچھ پتہ نہیں، یہ بلا کب تک ہمارے سروں پر سوار رہے گی لیکن اس بلا نے جو تنہائی کا تحفہ دیا ہے اس نے ہمارے تخلیق کاروں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے۔ ایک سے ایک ویڈیو ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ ان میں بڑے بڑے مشورے دئیے جا رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں، ان مشوروں پر کوئی عمل بھی کر رہا ہے یا نہیں۔ ہمارے تخلیق کار اگر خود کچھ تخلیق نہیں کر رہے ہیں تو مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں کا ادب ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ آج کل ایک فارسی نظم اور اس کا اردو ترجمہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔ یہ نظم ایک لڑکی گا رہی ہے۔ ظاہر ہے وہ ایرانی لڑکی ہے۔ لیکن وہ ایران میں موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس لڑکی نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ لباس آج کے ایران میں کوئی خاتون نہیں پہن سکتی۔ یہ نظم خاصی طویل ہے۔ ہم اس کا کچھ حصہ ہی یہاں پیش کر رہے ہیں۔ اس نظم کے ایک دو شعر اردو ترجمے کے ساتھ فارسی میں پیش ہیں۔
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
(شہر خالی، رستہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی)
وائی از دنیا کہ یار از یار می ترسد
( وائی اے دنیا کہ دوست دوست سے ڈر رہا ہے)
غنچہ ہائے تشنہ از گلزار می ترسد
( تشنہ غنچہ باغ ہی سے ڈر رہا ہے)
ہم نے عرض کیا ناں کہ یہ ایک خاصی طویل نظم ہے لیکن جس خلوص کے ساتھ یہ نظم ہمارے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری اپنی داستان ہے۔ بلکہ ہماری آج کی پوری دنیا کی ہی داستان ہے۔ یہ نظم ہمیں زمان خان نے بھیجی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ غالباً فارسی کے استاد معین نظامی صاحب نے کیا ہے۔ یہ نظم ہم سب کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اس دنیا کو جس ناگہانی بلا نے گھیر رکھا ہے، اب تک اس کے بارے میں یہی خیال تھا کہ یہ صرف انسانوں کا گلا ہی پکڑ رہی ہے، لیکن آج کی خبر یہ ہے کہ امریکہ کے ایک چڑیا گھر میں ایک شیر پر بھی یہ بلا سوار ہو گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس موذی وبا سے کوئی جاندار بھی محفوظ نہیں ہے۔ جو بلا جانوروں سے انسانوں کو لگی، وہ پھر جانوروں تک پہنچ گئی ہے۔ مگر ہم خوش ہیں کہ جس حساب سے اس بلا نے مغربی ملکوں کو اپنے شکنجے میں کسا ہے، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بڑی حد تک اس سے محفوظ ہے۔ اس پر ہمیں اپنے ڈاکٹر انور سجاد یاد آ گئے۔ وہ گرم ملکوں کی بیماریوں اور ان کے علاج سے متعلق تعلیم حاصل کرنے انگلستان گئے تھے۔ وہاں انہوں نے اپنے استادوں کو بتایا کہ ہمارے خطے میں جس قسم کا ماحول ہے اور جس گندگی اور زہریلی فضا میں ہم زندگی گزارتے ہیں اس میں ہمارے اندر خود بخود قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ مٹی، دھول اور گرمی ہمارے روزمرہ کے ساتھی ہیں؛ چنانچہ ایسی نازک بیماریاں ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں کرتیں۔ انور سجاد کی یہ بات آج ہمیں کورونا وائرس کے سلسلے میں مغربی ملکوں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے یاد آ رہی ہے۔ یہ وبا مغربی ملکوں میں جو تباہی مچا رہی ہے ہم اپنے ہاں وہ تباہی نہیں دیکھ رہے ہیں‘ لیکن یہاں انور سجاد کو یاد کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم اس بلا سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی احتیاط ہی نہ کریں۔ آپ بر طانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا قصہ ہی لے لیجئے۔ ان صاحب کو ہر ایک سے بے تکلف ہو کر ملنے اور گرم جوشی سے ہاتھ ملانے کا اتنا شوق ہے کہ اس شوق نے انہیں ہسپتال پہنچا دیا ہے۔ ہمیں تو روزانہ یہ خبریں سنائی جاتی ہیں کہ آج اتنے آدمی اور اس بیماری کی زد میں آ گئے۔ اور مر نے والوں کی تعداد میں بھی ایک اور آدمی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لئے احتیاط لازمی ہے۔ ادھر موسم نے بھی ہمیں پریشان کر رکھا ہے۔ ذرا تیز دھوپ نکلتی ہے، اور ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ اب گرمی آ گئی ہے، تو اچانک بادل آ جاتے ہیں، اور بارش شروع ہو جاتی ہے۔ ہم گرمی کا انتظار اس لئے کر رہے ہیں کہ شاید ہماری گرمی ہی اس بلا کا مقابلہ کر سکے۔​
 

Back
Top