Saltanat e Usmania se Tipu Sultan ki Safarat kari By Muhib Ul Hassan

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
سلطنتِ عثمانیہ سے ٹیپو سلطان کی سفارت کاری ۔۔۔۔ تحریر : محب الحسن

Tipu.jpg

۔1784ء میں ٹیپو سلطان نے عثمان خان کو یہ معلوم کرنے کے لیے قسطنطنیہ بھیجا کہ آیا عثمانی حکومت میں ایک سفارت خانہ قائم کرنا مفید ہو گا یا نہیں؟ امید افزا جواب پا کر انہوں نے ایک سفارتی مشن قسطنطنیہ بھیجا۔ غلام علی خان، نوراللہ خان، لطف علی خان اور جعفر خان مشن کے اراکین اور سید جعفر و خواجہ عبدالقادر مشن کے سیکرٹری مقرر کیے گئے۔
ٹیپو سلطان نے سفارتی مشن اس غرض سے قسطنطنیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ عثمانی خلیفہ سے میسور کی بادشاہت کی سند حاصل کی جائے۔ ٹیپو نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ شاہان مغلیہ کے سوا، ہندوستان کے متعدد حکمرانوں نے اپنی تخت نشینی کی توثیق خلیفۂ وقت سے حاصل کی تھی۔ اب جبکہ خلافت سلاطین عثمانی کی طرف منتقل ہو گئی تھی، ٹیپو عثمانی خلیفہ سے یہ سند اس لیے حاصل کرنا چاہتے تھے کہ ان کی حیثیت باضابطہ ہو جائے۔
علاوہ ازیں انگریزوں کے خلاف، جو ان کے انتہائی خطرناک دشمن تھے اور انہیں تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے، ٹیپو سلطان عثمانی خلیفہ سے فوجی امداد بھی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خلیفہ کو لکھا کہ انگریزوں نے بنگال، کرناٹک اور ہندوستان کے دوسرے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، جو مغل شہنشاہوں کے ملک تھے۔ انگریز مسلمانوں پر ظلم توڑ رہے ہیں۔
ٹیپو کی بڑی تمنا تھی کہ وہ اپنی سلطنت میں صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ دیں۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف سے ان کی عدم توجہی ہے اور یورپ کے باشندے چونکہ پورے انہماک کے ساتھ اس طرف توجہ دے رہے ہیں اس لیے مسلمان ملکوں پر ان کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ سفیروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ سلطنت عثمانیہ میں تجارتی مراعات حاصل کریں اور قسطنطنیہ سے صنعت و حرفت کے ایسے ماہرین اپنے ساتھ لائیں جو میسور میں مختلف صنعتوں کو جاری کریں۔
سفیروں کو مسقط میں قیام کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی تاکہ ان تجارتی اور دوستانہ تعلقات کو مضبوط تر کیا جائے جو عمان کے ساتھ پہلے سے موجود تھے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ خلیج فارس سے گزرتے ہوئے بوشہر پر بھی اتریں اور شاہِ فارس سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ خلیج فارس کا بحری جائزہ لیں، اور جن مقامات سے وہ گزریں وہاں کے جغرافیائی، سماجی، سیاسی و معاشی حالات کا مطالعہ کریں اور اپنے تجربات قلم بند کرتے رہیں۔
وفد کے قائد غلام علی خان کو ہدایت کی گئی تھی کہ عثمانی حکومت سے مندرجہ ذیل بنیادوں پر معاہدہ کریں۔
پہلی بات یہ ہے کہ میسور اور عثمانی حکومتوں میں ہمیشہ دوستانہ تعلقات قائم رہیں۔ دوسرے یہ کہ عثمانی حکومت ٹیپو کی مدد کے لیے فوج بھیجے، جس کے اخراجات حکومت میسور برداشت کرے گی اور جب کبھی خلیفہ کو ان کی ضرورت ہو گی تو قسطنطنیہ تک ان کی واپسی کے اخراجات بھی اسی کے ذمے ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ خلیفہ ٹیپو سلطان کے پاس ایسے صنعت کار بھیجے جو بندوقیں اور توپیں ڈھال سکیں، جو شیشے اور چینی کے برتن اور دوسری چیزیں بنا سکیں۔ اس کے بدلے میں ٹیپو بھی ایسے کاریگروں کو، جو اس کی قلمرو میں پائے جاتے ہوں اور جن کی خلیفہ کو ضرورت ہو، قسطنطنیہ بھیجے گا۔ آخری بات یہ کہ سلطنت عثمانیہ کی حدود میں اسے تجارت کی سہولتیں ملیں۔ اس کے بدلے میں ٹیپو بھی عثمانی حکومت کو اسی قسم کی سہولتیں اور رعایتیں مملکت میسور میں دے گا۔ ٹیپو نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ خلیفہ ٹیپو کو بصرہ کی بندرگاہ دے دے، اس کے بدلے میں وہ خلیفہ کو بندرگاہ منگلور پیش کر دے گا۔
سفیر ساحل مالا بار کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ سے 9 مارچ 1786ء کو 4 جہازوں میں سوار ہوئے۔ ان کے ساتھ بہت بڑا عملہ تھا جو تقریباً 9 سو افراد پر مشتمل تھا، جن میں سیکرٹری، ترجمان، خدمت گار، جاروب کش، باورچی اور فوجی سپاہی تھے۔ ان کے ساتھ کافی مقدار میں کپڑے، صندل کی مصنوعات، مسالے، میسور کے سونے چاندے کے سکے، بیش قیمت ملبوسات، جواہرات اور چار ہاتھی تھے۔ ان میں سے کچھ ٹیپو کی مملکت کی مصنوعات تھیں جو تشہیر کے لیے بھیجی گئی تھیں اور جنہیں مختلف ساحلی مقامات پر قیام کے دوران فروخت کیا جا سکتا تھا۔ باقی سامان امرا، اعلیٰ افسروں، عمان، فارس اور ترکی کے حکمرانوں کو تحفے کے طور پر پیش کیے جانے کیلئے تھا۔
18 اپریل کو ان کے جہاز مسقط پہنچے اور 25 جون کو مسقط سے روانہ ہوئے۔ کئی بندرگاہوں اور جزیروں کی سیر کرتے ہوئے 23 جولائی کو بوشہر پہنچے۔ شیخ ناصر گورنر بوشہر نے اپنے بیٹے کو خیر مقدم کا پیغام دے کر بھیجا۔ وہ خود اس لیے نہیں آ سکے تھے کہ انہیں ایک مہم پر جانا تھا۔ سفیروں کو مطلع کیا گیا کہ شیخ ناصر کا ارادہ ایک مشن میسور بھیجنے کا ہے تاکہ وہ منگلور میں ایک فیکٹری قائم کرنے کی اجازت ٹیپو سے لیں اور اس کے بدلے میں ٹیپو کو بھی اجازت ہو گی کہ وہ بوشہر میں ایک فیکٹری قائم کریں۔ سفیروں سے درخواست کی گئی کہ وہ اس تجویز کو اپنی سفارش کے ساتھ سلطان کی خدمت میں پیش کریں۔
17 اگست کی صبح وہ بصرہ کے قریب پہنچے۔ سفیروں نے پہلے ہی ایک قاصد بھیج کر اپنی آمد کی اطلاع کر دی تھی۔ اس لیے جب وہ محامرہ، در بند اور دوسرے قریوں سے گزرے جو شط العرب کے دونوں جانب آباد تھے، تو ان کے استقبال کے لیے حاجی محمد آفندی دفتر دار اور حاجی جواد کپتان پاشا موجود تھے۔ وہ اپنے ساتھ 7 کشتیاں لائے تھے تاکہ انہیں بصرہ حفاظت کے ساتھ پہنچا دیں۔ اسی اثنا میں خبر موصول ہوئی کہ 18 اگست کی شب کو ٹیپو سلطان کے روانہ کیے گئے ایک جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ غرق ہو گیا، جس کی وجہ سے 50 جانیں ضائع ہوئیں۔ 22 اگست کو سب ایک ساتھ بصرہ پہنچے۔ بصرہ سے روانگی میں بعض وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوئی۔
سفیر 10 فروری 1787ء کو دریائے دجلہ کے راستے سے روانہ ہوئے، ان کے ساتھ 4 سو افراد تھے جن میں 2 سو سپاہی بھی تھے جنہیں یورپین طرز پر تربیت دی گئی تھی۔ بغداد پہنچے تو سلیمان پاشا نے انہیں بہت عزت و احترام کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ 29 مئی کو وہ خشکی کے راستے روانہ ہوئے اور 25 ستمبر کو قسطنطنیہ میں داخل ہوئے۔ شہر کے ایک محل میں ان کے قیام کا انتظام کیا گیا۔ انہوں نے وزیراعظم کی خدمت میں بیش قیمت ملبوسات، جواہرات اور 17 ہزار وینس کی اشرفیاں پیش کیں۔ اس کے بدلے میں انہیں خلعتیں دی گئیں۔ اس کے بعد ایک گاؤں میں وزیراعظم نے ان کے اعزاز میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ترک اور ٹیپو کی افواج نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں تمام اعلیٰ افسروں نے شرکت کی اور اطلاعات کے مطابق خود سلطان عبدالحمید اول بھی بھیس بدل کر وہاں موجود تھے۔ سلطان نے 5 نومبر کو سفیروں کو اعزاز کے ساتھ باریابی بخشی۔
اسی دوران قسطنطنیہ میں طاعون پھیل گیا اور سفارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس کی نذر ہو گئے۔ شدید سردی کی وجہ سے بھی، جس کے میسوری عادی نہیں تھے، بہت سے جانیں ضائع ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اواخر جنوری 1788ء تک ان کے صرف 70 خدمت گار باقی بچے۔ 4 مارچ کو سفیر رخصتی سلام کے لیے سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ وہ اوائل جنوری 1790ء میں ٹیپو کے کیمپ میں پہنچے جو اس وقت ٹراونکور کی فوجی بیرکوں کے نواح میں تھا۔
اس سفارتی مشن پر میسور حکومت کی ایک بڑی رقم خرچ ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ سفیروں کو دوران سفر ہر طرح کی مصیبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں۔ تقریباً 9 سو آدمیوں میں سے جو مالابار کے ساحل سے روانہ ہوئے تھے، مٹھی بھر آدمی اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔ اس کے باوجود سفارتی مشن سلطان ترکی سے صرف سندِشاہی حاصل کر سکا تھا، جس کی رو سے ٹیپو سلطان کو خودمختار بادشاہ کا لقب اختیار کرنے اور اپنے سکے جاری کرنے کا حق حاصل ہو گیا تھا۔ سفیروں کو سلطان اور ان کے وزیراعظم نے ٹیپو کے لیے دوستانہ خطوط، خلعتیں اور ایک ڈھال بھی دی تھی، جو جواہرات سے مرصع تھی، لیکن سفارت نہ تو تجارتی مراعات لے سکی اور نہ فوجی امداد۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی کے وجود ہی کو کیتھرائن دوم، ملکہ روس اور جوزف دوم شہنشاہ آسٹریا کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا، جنہوں نے 1787ء میں عثمانی سلطنت کے یورپین صوبوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور قسطنطنیہ کے تخت پر کیتھرائن کے پوتے کانسٹنٹائن کو بٹھانے کے لیے ایک سمجھوتہ کیا تھا۔ ان خطروں نے ترکی کو اشتعال دیا اور اس نے روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ روسی حلیف آسٹریا نے بھی ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ ترکی فرانس سے بھی، جو اس کا روایتی حلیف تھا، کسی مدد کی توقع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فرانس خود اپنے روز افزوں داخلی مصائب میں گرفتار تھا۔ لیکن وہ انگلستان کی حمایت پر بھروسہ کر سکتا تھا جو 1788ء میں پروشیا اور ہالینڈ کے ساتھ اس معاہدے میں شامل ہو گیا تھا جس کا مقصد جنوب مشرقی یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ معاہدہ ترکی کے حق میں تھا۔ وہ ترکی، اس کے دشمن آسٹریا و روس کے مابین صلح کرانا چاہتا تھا۔ ان حالات میں ٹیپو سلطان کے ساتھ معاہدۂ اتحاد کر کے عثمانی حکومت برطانیہ کو دشمن نہیں بنا سکتی تھی۔
 

@intelligent086
۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی کے وجود ہی کو کیتھرائن دوم، ملکہ روس اور جوزف دوم شہنشاہ آسٹریا کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا، جنہوں نے 1787ء میں عثمانی سلطنت کے یورپین صوبوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور قسطنطنیہ کے تخت پر کیتھرائن کے پوتے کانسٹنٹائن کو بٹھانے کے لیے ایک سمجھوتہ کیا تھا۔ ان خطروں نے ترکی کو اشتعال دیا اور اس نے روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ روسی حلیف آسٹریا نے بھی ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ ترکی فرانس سے بھی، جو اس کا روایتی حلیف تھا، کسی مدد کی توقع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فرانس خود اپنے روز افزوں داخلی مصائب میں گرفتار تھا۔ لیکن وہ انگلستان کی حمایت پر بھروسہ کر سکتا تھا جو 1788ء میں پروشیا اور ہالینڈ کے ساتھ اس معاہدے میں شامل ہو گیا تھا جس کا مقصد جنوب مشرقی یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ معاہدہ ترکی کے حق میں تھا۔ وہ ترکی، اس کے دشمن آسٹریا و روس کے مابین صلح کرانا چاہتا تھا۔ ان حالات میں ٹیپو سلطان کے ساتھ معاہدۂ اتحاد کر کے عثمانی حکومت برطانیہ کو دشمن نہیں بنا سکتی تھی۔
....................
کوٹ نہیں ہوا تھا ویسے ہی پیسٹ کر دیا ہے
اس کا مقصد کیا ہوا؟
دور اندیش تھا
سلطنت عثمانیہ خود اس پوزیشن میں نہیں تھی بوقت ضرورت ٹیپو سلطان کی مدد کر سکے
سفارتی مشن ناکامی سے دوچار ہوا
اس میں ایسا کوئی سبق پنہاں نہیں ہے جس کی مثال دی جا سکے
 
گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے
مختصر سفارتی مشن پر مبنی مضمون سے اپنی مرضی کا مطلب نکال کر بھاگ گئی، شیر میسور کی مکمل تاریخ پڑھ، حیدر علی کی تربیت کی داد دینی پڑے گی یہی چیزیں تو تم سے دور ہیں
 
گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے
مختصر سفارتی مشن پر مبنی مضمون سے اپنی مرضی کا مطلب نکال کر بھاگ گئی، شیر میسور کی مکمل تاریخ پڑھ، حیدر علی کی تربیت کی داد دینی پڑے گی یہی چیزیں تو تم سے دور ہیں
پسند اور رائے کا شکریہ
:)
 
@intelligent086
۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی کے وجود ہی کو کیتھرائن دوم، ملکہ روس اور جوزف دوم شہنشاہ آسٹریا کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا، جنہوں نے 1787ء میں عثمانی سلطنت کے یورپین صوبوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور قسطنطنیہ کے تخت پر کیتھرائن کے پوتے کانسٹنٹائن کو بٹھانے کے لیے ایک سمجھوتہ کیا تھا۔ ان خطروں نے ترکی کو اشتعال دیا اور اس نے روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ روسی حلیف آسٹریا نے بھی ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ ترکی فرانس سے بھی، جو اس کا روایتی حلیف تھا، کسی مدد کی توقع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فرانس خود اپنے روز افزوں داخلی مصائب میں گرفتار تھا۔ لیکن وہ انگلستان کی حمایت پر بھروسہ کر سکتا تھا جو 1788ء میں پروشیا اور ہالینڈ کے ساتھ اس معاہدے میں شامل ہو گیا تھا جس کا مقصد جنوب مشرقی یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ معاہدہ ترکی کے حق میں تھا۔ وہ ترکی، اس کے دشمن آسٹریا و روس کے مابین صلح کرانا چاہتا تھا۔ ان حالات میں ٹیپو سلطان کے ساتھ معاہدۂ اتحاد کر کے عثمانی حکومت برطانیہ کو دشمن نہیں بنا سکتی تھی۔
....................
کوٹ نہیں ہوا تھا ویسے ہی پیسٹ کر دیا ہے
اس کا مقصد کیا ہوا؟
دور اندیش تھا
سلطنت عثمانیہ خود اس پوزیشن میں نہیں تھی بوقت ضرورت ٹیپو سلطان کی مدد کر سکے
سفارتی مشن ناکامی سے دوچار ہوا
اس میں ایسا کوئی سبق پنہاں نہیں ہے جس کی مثال دی جا سکے
بھائی جان کا جواب پڑھ لے یہی کافی ہے
:)
 
گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے
مختصر سفارتی مشن پر مبنی مضمون سے اپنی مرضی کا مطلب نکال کر بھاگ گئی، شیر میسور کی مکمل تاریخ پڑھ، حیدر علی کی تربیت کی داد دینی پڑے گی یہی چیزیں تو تم سے دور ہیں
آپ کو کیا ہوا 😅 اتنا غصہ
 
Back
Top