Sawalaat Uthney Lage By Zahid Awan

سوالات اٹھنے لگے ۔۔۔۔۔ زاہد اعوان

اسلام آباد میں 126روزہ دھرنے میں تقاریر سن سن کر پی ٹی آئی کے حامیوں کے ساتھ مخالفین بھی بڑی توقعات وابستہ کر بیٹھے‘ ہر کوئی یہ گمان کرنے لگا کہ سابق حکمرانوں نے ملکی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا اورعوام کے ٹیکسوں سے بیرون ملک ذاتی جائیدادیں بناتے رہے۔ کہا گیا کہ ملک کاوزیراعظم صادق اورامین ہوتا تو پھر ملک میں ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہ ہوسکتی‘ کہاگیاکہ ملک بھر میں موٹرویز‘ میٹروبسوں‘ سڑکوں‘ پلوں‘ ہسپتالوں اورسی پیک سمیت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا مقصد صرف کرپشن اور اقربا پروری تھا‘ ورنہ سڑکوں‘ پلوں اوردیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر ہرگز ترقی نہیں‘ ان سے عوام کوروٹی نہیں ملتی ‘ عوام کو بجلی اورگیس کے یوٹیلٹی بل جمع کرانے اورٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی روکاگیا اورکہاگیاکہ حکمران یہ پیسہ ایمانداری سے خرچ نہیں کریں گے‘ لہٰذا سرکاری خزانے میں جمع ہی نہ کرایاجائے۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے بتایاگیا کہ جس پر بھی الزام لگے تو اسے فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیاجائے تاکہ شفاف انکوائری ہوسکے‘ ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے ''تبدیلی ‘‘کو ناگزیر قرار دیاگیا۔ پاکستان کو دنیا میں ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے گئے‘ انصاف اورمیرٹ کے نام پر بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے‘ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کاسُن کر تو ہر پاکستانی کے دل میں تبدیلی کی خواہش جاگ گئی‘ پھر 2018ء کے الیکشن میں لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ بھی دئیے اور عمران خان صاحب ملک کے وزیراعظم بھی بن گئے۔منشور میں سو دنوں کا پلان دیکھ کر عوام سمجھ بیٹھے کہ شاید اب راتوں رات ملک سے مہنگائی اوربیروزگاری کاخاتمہ ہوجائے گا‘ کرپشن ماضی کاقصہ بن جائے گی اور قوم خوشحالی کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
سو دن گزرے‘ چھ ماہ بھی گزر گئے‘ تبدیلی کاسال بھی پورا ہوگیا‘ پھر موجودہ حکومت کے دو سال بھی مکمل ہوگئے لیکن ابھی تک دکھائے جانے والے تبدیلی کے خوابوں کی تعبیر سامنے نہیں آسکی۔ آج بھی ہر بحران کا ملبہ سابق حکومتوں پر ہی ڈالا جارہاہے ‘ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے آج بھی ان کاذمہ دار سابق حکمرانوں کوہی قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس آزاد میڈیا نے تبدیلی لانے میں موجودہ حکمران جماعت کابھر پور ساتھ دیا‘ حکومت بننے کے بعد اسی میڈیا کے پر کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ‘جس کے نتیجے میں ساری صنعت بحران کاشکار ہوگئی۔ عوام جوسنتے تھے کہ سابق حکمران قومی خزانے کولوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بناتے رہے‘ تبدیلی کے بعد بھی آج تک کوئی ایسی ٹھوس چیز سامنے نہیں لائی گئی جس سے ثابت ہوکہ عوام کاپیسہ کس نے اورکیسے لوٹا ؟ نہ ہی لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی گئی‘ بلکہ قومی خزانے کی لوٹ مار سے شروع ہونے والی بات بالآخر منی لانڈرنگ اور اپنی دولت غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک منتقل کرنے سے آگے نہ بڑھ سکی‘ بلکہ اب تو موجودہ حکمرانوں کی بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادوں کی رپورٹیں بھی سامنے آرہی ہیں‘ لیکن ہرطرف خاموشی ہے۔
وہ جوکہاجاتاتھا کہ سابق حکومت موٹرویز اورمیٹروبسوں جیسے میگا پراجیکٹ صرف کرپشن اوراپنوں کو نوازنے کیلئے شروع کرتی ہے اس کاتوڑ موجودہ حکومت نے یہ نکالاہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے موجودہ بجٹ میں کوئی خاص نیا میگا پراجیکٹ شامل ہی نہیں کیاگیا بلکہ جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے قلیل رقوم ہی مختص کی گئی ہیں‘ شاید حکمرانوں کی سوچ یہ ہوسکتی ہے کہ جب کوئی نیا بڑا منصوبہ شروع ہی نہیں ہوگا تو پھر کرپشن بھی نہیں ہوسکے گی‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر نئے منصوبے شروع نہیں کئے جارہے تو عوام کاپیسہ سرکاری خزانے میں محفوظ پڑا رہے گا اور کسی قسم کی چوری یاکرپشن نہیں ہوگی؟ کرپشن کے الزام پر استعفیٰ مانگنے والوں پر اب خود جب کوئی الزام لگتا ہے تو کہاجاتاہے کہ ابھی توالزام ہے‘ ثابت ہوگا تو پھر کارروائی بھی کی جائے گی۔
کورونا ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے بھی کئی سوالات اٹھادئیے ہیں‘ سب سے اہم بات تویہ کی گئی کہ وہ وہ ادارے جو اربوں روپے ادھر اُدھر خرچ کررہے ہیں‘ ان میں شفافیت نظر نہیں آرہی‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آٹا‘ چینی اورپٹرول بحران کی آڑ میں فائدہ اٹھانے اورکورونا وبا کے دوران اربوں روپے کمانے والوں پر بھی سوالات اٹھائے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے پاکستانیوں کو کہاں کھپایا جائے گا؟ کیا 14 دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد وہ جہاں مرضی جائیں؟ 50ہزار سے ایک لاکھ مزدور مشرق وسطیٰ سے واپس آرہے ہیں‘ بیروزگاری اسی وجہ سے ہے کہ حکومتی اداروں سے سہولت نہیں ملتی‘ یہ لوگ تین ماہ جمع شدہ رقم سے نکال لیں گے ‘ اس کے بعد یہ مزدور کیا کریں گے‘ کیا حکومت کا کوئی پلان ہے ؟چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں سے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ان کو کھپانے کا کیا طریقہ ہے ‘ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی ہے ‘ کوئی ادارہ بظاہر کام نہیں کررہا‘ نہیں معلوم حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے اور عوام کے مسائل کیسے حل کیے جائیں گے ‘ ہر ادارے میں این ڈی ایم اے جیسا حال ہے ‘ کیا عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے ہے ؟ ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا‘ عوام کو روٹی‘ پٹرول‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار کی ضرورت ہے ۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے وہ بھی نہیں معلوم‘ اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے تو بتائیں؟
یقینا عدالت عظمیٰ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات آج ہر پاکستانی کے ذہن میں بھی اُبھر رہے ہیں‘ ہرکوئی معاشی حالات سے پریشان ہے‘ پٹرول سستا ہونے کے باوجود مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ چینی انکوائری رپورٹ سامنے تو آئی لیکن آج تک عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ اصل میں انکوائری تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ چینی کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کیوں ہوا ؟ اس کے ذمہ داروں کاتعین کیاجاتا‘ ان سے پیسہ واپس ہوتا اورچینی کے نرخ واپس 2018ء کی قیمت پر لائے جاتے‘ لیکن انکوائری رپورٹ میں فوکس سبسڈی دینے والوں پرکیاگیا اورپھر رپورٹ شائع ہونے کے بعد بھی آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی بلکہ آئے روز کسی نئی انکوائری کے چکر میں اسے طوالت ہی دی جارہی ہے ۔یوں نظر آرہاہے کہ شاید یہ معاملہ الجھا ہی رہے گا اور موجودہ حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل ہوجائے گی۔
فواد چودھری صاحب نے اپنی جماعت کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حقیقی تبدیلی لانے اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں‘ حکمران جماعت کے دیگر ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے بھی اپنی قیادت پر تنقید سامنے آنا شروع ہوگئی ہے اور کہاجارہاہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی کوئی بات نہیں سنی جاتی اور ریاست کاسارا نظام غیرمنتخب مشیر اورمعاونین خصوصی چلارہے ہیں‘ جنہیں عوام کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں کیونکہ وہ نہ تو عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں اورنہ ہی انہوں نے آئندہ عوام کے سامنے جاناہے۔ ایک طرف کورونا کی وبا نے عوام کو معاشی اورسماجی پابندیوں میں جکڑ رکھاہے تو دوسری جانب عام آدمی کے ساتھ ساتھ حکومتی ایوانوں سے بھی اس بات کااعتراف کیاجارہاہے کہ موجودہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی‘ ہر طرف سے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر اب بھی حالات کی سنگینی کونہ سمجھا گیاتو پھر وقت ہاتھ سے نکل سکتاہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت اس جانب توجہ دے تا کہ عوام میں حکمران جماعت کی مقبولیت بھی بحال ہو سکے۔
 
Columnist
Zahid Awan
Column date
Jun 28, 2020

Back
Top