Sazishi Nazariyaat kyun Maqbool hote hain?

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
سازشی نظریات کیوں مقبول ہوتے ہیں ؟ ..... رضوان عطا

Sazishi.jpg


کہتے ہیں ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیںلیکن اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ سائنسی دور میں بھی ہم انتہائی غیر سائنسی اندازمیں سازشی تھیوریوں پر بھی یقین کر رہے ہیں۔یہ تھیوریاں نا صرف ہمارے اذہان کومتاثر کر رہی ہیںبلکہ ان سازشی تھیوریوں نے عالمی تعلقات کا بھی حشر نشر کر دیا ہے۔ پوری دنیا سازشی تھیوریوں کی لپیٹ میں ہے۔ چین ، امریکہ تعلقات کے بگاڑ میں بھی سازشی تھیوری ہی کار فرما ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین بائیو لوجیکل ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا تھا کہ ووہان میں واقع تجربہ گاہ سے ''کورونا وائرس‘‘ فرار ہو گیا جس نے پوری دنیا کے طبی ماحول کو ہی خراب کر دیا۔امریکی صدر ٹرمپ کی یہ سازشی تھیوری آسٹریلیا، بھارت ، برطانیہ، جاپان ، تائیوان، فرانس اور کینیڈا سمیت ایک سو سے زائد ممالک نے مان لی ہے۔حد تو یہ ہے کہ امریکہ نے اس سازشی تھیوری کی بنیاد پر چین کے خلاف انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے جس کے لئے ایک ٹیم شائد ان سطور کے منظر عام پر آنے تک چین کا دورہ شروع کر چکی ہو۔اسی سازشی تھیوری کی بنیاد پرامریکہ دنیا کے سب سے بڑے صحت کے ادارے عالمی ادارہ صحت کو بھی خیر باد کہہ چکا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ جہاں چین کے خلاف سازشی تھیوری پر عمل پیرا ہیں، وہیں امریکی صدرکو خود بھی سازشی تھیوری کاسامنا ہے۔ان کے خلاف یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے گزشتہ صدارتی انتخاب روس کی مدد سے جیتا تھا۔جواب میں انہوں نے بھی اپنے حریف امیدوار جو بائیڈن پر الزام دھر دیا کہ وہ بیرونی ممالک کی مدد سے انتخاب جیتنا چاہتے ہیں ۔ امریکی صدر پر یہ الزام لگایاگیاکہ انہوں نے جو بائیڈن کو ہرانے کے لئے یوکرائن سے مدد مانگی ،اور امریکی امداد کوجو بائیڈن کے خلا ف ثبوت دینے سے مشروط کر دیا۔ یہ معاملہ امریکی صدر کے مواخذے تک پہنچا ،ایوان زیریں سے منظوری کے بعد یہ معاملہ ایوان بالا میں پہنچا لیکن سینٹ میں ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت نے امریکی صدر کو بچا لیا۔یہ سازشی تھیوری اب بھی ہر کسی کی زبان پر ہے۔

سازشی تھیوریوں کا ایک اور بڑا مرکز بھارت ہے۔ بلکہ بھارت کو سازشی تھیوریوں کا ''گھنٹہ گھر‘‘ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔پاکستان سے چند برس پہلے بھی ایک طوطا مقبوضہ کشمیر گیا تھا جس کے پر کاٹ دیئے گئے تھے۔ عید الفطر کے بعد پاکستان سے ایک طوطا بھارتی مقبوضہ کشمیر پہنچ گیا ،اس کو بھی پاکستانی جاسوس قرار دے کر تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ عالمی دبائو پڑنے اور عالمی میڈیا میں خبریں جاری ہونے پر بھارت نے طوطے کی رہائی کی خبر جاری کی لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ بھارتی اخبارات پڑھنے سے یوں محسوس ہوگا کہ جیسے بھارت میںپاکستان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ بقول بھارت، مقبوضہ کشمیر کی پوری صورتحال پاکستان کی پیدا کردہ ہے۔ حال ہی میں بھارت نے دو فوجیوں (سمیت کمار اور پرمیت) اور ایک ڈی ایس پی سنگھ کو پاکستان کی مدد سے بھارتی حکومت کا تختہ الٹانے کے مضحکہ خیز الزام میں گرفتار کر لیا ہے ۔

کووڈ 19 کی حالیہ وباء کے دوران انہوں نے خوب ''ترقی‘‘ کی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ انہیں اپنے ذہنوں میں جگہ دینے والے اور پھیلانے والے عام، ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ اور بااختیار افراد کے ہاں بھی سازشی نظریات مقبول ہوتے ہیں۔ شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود وباء کے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹروں کے زہریلا ٹیکہ لگانے سے لے کر بیرونی امداد ملنے تک مختلف سازشی خیالات ہمارے ہاں گردش کرتے رہے اور ان کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔

سارشی نظریے سے مراد کسی واقعے یا صورت حال کی ایسی وضاحت ہے جس میں ''برے‘‘ اور طاقت ور گروہوں کی کارستانی اور مذموم مقاصد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ سازشی نظریوں پر یقین نفسیاتی طور مضر ہوتا ہے اور کسی ذہنی مرض یا خلل کی بھی علامت ہو سکتا ہے۔ ان نظریات پر یقین کا سبب بیرونی حالات بھی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی کیفیات و تعصبات بھی۔اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے نہ سمجھا جائے۔ حال ہی میں کنزرویٹو خیالات کی حامل نامور امریکی شخصیت اور ٹی وی میزبان چُک وولیری کے ٹویٹر پر جاری ہونے والے تبصرے میں امریکی شعبہ صحت کے حکام، ذرائع ابلاغ اور ڈیموکریٹ سیاست دانوں سب کو ایک سازش کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے ۔ اپنی ٹویٹ میں وہ کہتے ہیں ''شرم ناک ترین جھوٹ وہ ہیں جو کووڈ 19 کے بارے میں بولے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی جھوٹ بول رہا ہے۔ سی ڈی سی (سرکاری امریکی ادارہ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینش)، ذرائع ابلاغ، ڈیموکریٹ، ہمارے ڈاکٹر، تمام نہیں لیکن بیشتر، وہ جن پر ہمیں اعتماد کرنے کا کہا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب انتخابات اور معیشت کی بحالی کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے، اس کا تعلق انتخابات سے ہے۔ میں اس سے تنگ آ چکا ہوں۔‘‘

اس ٹویٹ کو ہزاروں افراد نے پسند کیا اور ستم ظریفی یہ کہ ''سپرپاور‘‘ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ری ٹویٹ کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے کسی نہ کسی حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار متعدد بار کورونا وائرس سے متعلق سازشی خیالات کی ترویج کر چکے ہیں۔ انہیں سازش کرنے والے اپنے ملک میں بھی نظر آتے ہیں اور بیرون ملک (بالخصوص چین) بھی۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض سیاست دان وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے سازشی نظریات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کورونا کو فائیو جی سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔سازشی تھیوریوں کے ''ماہرین‘‘ کا کہنا ہے کہ فائیو جی کی مدد سے دنیا بھر کے لوگوں کی جاسوسی کی جائے گی حالانکہ اس میں رتی بھر صداقت نہیں۔

کسی زمانے میں سازشی نظریات کا دائرہ محدود ہوتا تھا لیکن عالمگیریت کے عمل اور پھر سوشل میڈیا نے اسے عالمگیر بنا دیا ہے۔ مذکورہ ٹویٹ ہی کی مثال لے لیجیے، پاکستان میں بیٹھا ہر شخص اسے پڑھ سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے کئی متاثر بھی ہو جائیں۔

سکالرز کا خیال ہے کہ سازشی خیالات نے بڑے پیمانے پر ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں گھر گیا اور یہ امریکی ثقافت کا جزو بن گئے۔ آپ نے اڑان بھرتے جہاز کے پروں کے پیچھے ایک یا اس سے زیادہ پتلے لمبے ''بادل‘‘ بنتے دیکھے ہوں گے جو کچھ دیر تک قائم رہتے ہیں، بچے یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور سبب بھی دریافت کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اس کا سبب نہ بھی معلوم ہو تو بھی قوی امکان ہے کہ آپ اسے کسی سازش سے نہیں جوڑیں گے۔ بہت سے امریکیوں کا خیال مختلف ہے۔ وہ اسے ''کیم ٹریل‘‘ نامی سازش سمجھتے ہیں جس کے مطابق یہ ''بادل‘‘ کیمیائی اور حیاتیاتی اجزا سے بنتے ہیں جنہیں مذموم مقاصد کے لیے چھوڑا جاتا ہے اور عام لوگوں کی زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 10 فیصد امریکی اس سازشی نظریے کو بالکل سچ اور 20 سے 30 فیصد کسی حد تک سچ سمجھتے ہیں۔

سازشی نظریات کسی بھی جماعت سے وابستہ افراد میں پائے جا سکتے ہیںمگر عام طور پر اس قسم کے نظریات کے حامل افراد حکومت مخالف رجحان اور کم سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ سازشی نظریات کی بنیاد عام طور پر شواہد پر نہیں ہوتی، ان کا زیادہ تر تعلق عقائد اوراندازفکر سے ہوتا ہے۔ سازشی نظریات پر عموماً وہ لوگ یقین کرتے ہیں جو عامۃ الناس سے متعلق اداروں کے ڈھانچوں اور ان کے افعال کے بارے میں کم آگاہی رکھتے ہیں۔ ان نظریات کے بل بوتے پر ''خفیہ سچ‘‘ تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ان سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو الجھا ہوا ہو۔ ان میں تعصبات کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ مثلاً ہندو انتہا پسندوںمیں مسلمانوں کے بارے میں مختلف سازشی نظریات عام ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

ہمارے ہاں ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی گھریلو سازشوں کو خوب پیش کیا جاتا ہے۔ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گھریلو نظام سازشوں کے تحت بنتا اور بگڑتا ہے۔ چیزوں کو سیاہ اور سفید کے طور پر سامنے لایاجاتا ہے، چند کردار سر تا پا منفی اور چند مثبت ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے فرار ہی تو ہے۔کمزور اور دوسروں پر انحصار کرنے والے عموماً اپنے خلاف رخ اختیار کرنے والے حالات کو سازش کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔

اسی طرح بیرونی دنیا کے واقعات کی توجیہہ سازش کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں سازشیں ڈھونڈ لی جاتی ہیں اور عوامی تحریکوں کے پیچھے بھی۔ اور کبھی سیاست دانوں کو میکاولی کا پیروکار سمجھ لیا جاتا ہے۔ البتہ تنقیدی اور تجزیاتی اذہان کے مالک افراد سازشی نظریات سے کم متاثر ہوتے ہیں، اسی لیے ایسے اذہان کی تعمیر کو معاشرے میں ترجیح دینی چاہیے۔​
 

Back
Top