SC orders to demolish all illegal constructions in Karachi’s Delhi, Punjab colony

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
غیر قانونی عمارتیں گرائیں، کراچی کا نیا پلان بنائیں: چیف جسٹس

cj.jpg

کچی آبادیاں ختم کرکے مکینوں کو کثیر المنزلہ عمارتوں میں منتقل کرنے ، کے پی ٹی کی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی ختم کرنیکا حکم، بتایا جائے شہر قائد کیسے جدید بنایا جاسکتا ہے ،سپریم کورٹ وفاق، سندھ اور نہ شہری حکومت کام کررہی،کیا کریں کسے بلائیں؟جسٹس گلزار احمد، ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ کی سرزنش، پی آئی اے کو دی گئی زمینوں اور سٹرکچر کی رپورٹ طلب
کراچی(سٹاف رپورٹر،این این آئی، دنیا مانیٹرنگ) سپریم کورٹ نے کراچی میں کچی آبادیوں کوختم کرکے مکینوں کو کثیر المنزلہ عمارتوں میں منتقل کرنے ، غیرقانونی عمارتیں گرا نے اور شہر قائد کو جدید بنانے کیلئے نیا پلان تیار کرنے کا حکم دیدیا جبکہ کے پی ٹی کی زمین پر لیز غیر قانونی قرار دیدی ۔عدالت نے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسے بنایا جا سکتا ہے ،سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانرزسے مددحاصل کی جائے ،اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہری حکومت کام کررہی ہے نہ وفاقی اور صوبائی حکومت کام کررہی ہے ،کیا کریں کسے بلائیں ؟کوئی ادارہ ٹھیک نہیں، عدالت عظمیٰ نے پنجاب کالونی، دہلی کالونی، پی این ٹی کالونی اور گزری روڈ پر غیرقانونی تعمیرات گرانے کا حکم جاری کیا۔ جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کرکے 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کابھی حکم دیا اور جنرل منیجر لیگل سروسز سے پی آئی اے کو دی جانے والی زمینوں اور اس کے سٹرکچرکے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کرلی ہے ۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے شہر قائد میں سرکاری زمینوں پر قبضے ، ان پر عمارتیں اور کالونیاں بنانے ، شہر کی ازسر نو بحالی، کے پی ٹی کی زمین سمیت دیگر معاملات پر سماعت کی۔دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ، اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، میئر کراچی ، صوبائی وزیر سعید غنی ،ریونیو بورڈ سندھ کے حکام سمیت کے پی ٹی اور کنٹونمنٹ کے نمائندے پیش ہوئے ۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب کالونی، نیلم کالونی اور دہلی کالونی میں تجاوزات کے خاتمے کیلئے کیا کیا ؟اس موقع پر کنٹوٹمنٹ بورڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم تجاوزات کے خاتمے کیلئے اقدامات کررہے ہیں ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آپ بتائیں یہ وفاق کے زیر انتظام علاقہ ہے ،کون غیرقانونی تعمیرات کررہا ہے ، جس پراٹارنی جنرل انور منصور خان کا کہنا تھا کہ زمین کی ملکیت کا معاملہ عدالت عالیہ میں زیر التوا ہے ،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری زمین ہے ،کون قبضہ کررہا ہے ؟کھلے میدان تک ختم کردیئے ہر جگہ قبضہ ہے ،ہم کچھ نہیں جانتے غیرقانونی تعمیرات فوری گرائیں ، دوران سماعت عدالت نے گزری روڈ اور اطراف سے غیرقانونی عمارتیں فوری گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ زمین وفاق کے زیر انتظام ہے اس لیے وفاقی حکومت کارروائی کرے اور غیرقانونی کثیر المنزلہ عمارتوں کو گرا کر کالونی کو اصل شکل میں بحال کیا جائے ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ پورشن اور کوارٹرز پہلے کے موجود ہیں، عمارتیں لوگوں سے خالی کرا کے گرائیں گے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کوارٹرز خالی کرا کے وفاقی حکومت کے ملازمین کو ہی دیئے جائیں ،سارے کھلے میدان تک ختم کردئیے ، علاقے میں عمارتوں کی بھرمار ہے ، اس موقع پر کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل کا کہنا تھا کہ دہلی کالونی اور پنجاب کالونی میں کنٹونمنٹ بورڈ کارروائی کرتا ہے ،ہم نے 27 عمارتیں گرائی ہیں ، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کثیر المنزلہ عمارتوں کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں ؟یہ دہلی کالونی وغیرہ تو 1950کی بنی ہوئی ہیں آپ نئے قوانین بتا رہے ہیں ،گراؤنڈ پلس ون کی اجازت دی جاسکتی ہے لیکن اتنی اونچی اونچی عمارتیں کیسے بن گئیں ؟ آپ انگریزی بول کر ہمیں خوش نہیں کرسکتے ،آپ کو باہر سے بلایا گیا تاکہ آپ کو پتا ہی نہ ہو زمینی حقائق کیا ہیں،سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ مین روڈ پر 5,5 کروڑ روپے کے فلیٹس بکے ہیں ، اس موقع پر عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ کی سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے خزانے بھر لیے اور کہتے ہیں غیرقانونی تعمیرات ہیں ،اس وقت آنکھیں بند تھیں جب پیسے بٹور رہے تھے ، اب کہہ رہے غیرقانونی عمارتیں بن گئیں ، آپ لوگ آنکھیں بند کرکے چلتے ہیں ؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں پر اعتبار کرکے سرکاری زمینیں حوالے کی گئی تھیں ، آپ لوگوں نے اس ٹرسٹ کے ساتھ کیا کیا ؟ میں چاہے فارغ ہوجائوں پھر بھی کوئی بات نہیں مگر ہمیں قانون پر چلنا ہے ،آپ لوگوں کی مہربانی سے کراچی میں 55 فیصد کچی آبادی ہے ، یہ سب کے ایم سی اور کے ڈی اے سمیت دیگر کی مہربانی سے ہوا ہے ،کیا وفاقی حکومت صرف بین بجائے گی ؟دہلی کالونی، نیلم کالونی، پنجاب کالونی میں بندا پیدل بھی نہیں چل سکتا ،غیرقانونی تعمیرات کی بھرمار ہے ، طارق روڈ پر صرف دو ہوٹل اور یو بی ایل ہوا کرتا تھا، اب دیکھیں کیا حال ہوگیا ہے ، جس پراٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تھوڑا وقت دے دیں، میں رپورٹ پیش کروں گا ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں باہر سے سٹی پلانر بلانا پڑے گا ،لائنز ایریا کا حشر برا کردیا ہے ، خداداد کالونی پر پورا قبضہ ہورہا ہے ،قائد اعظم کے مزار کے ماتھے کا جھومر بنایا ہوا ہے ،شہر بھر سے کچی آبادیاں ختم کریں ،لائنز ایریا والوں کو کثیر المنزلہ عمارتیں بنا کر بسائیں ،قائد اعظم کے مزار کے سامنے فلائی اوور بنادیا ہے اب شاہراہ قائدین نظر بھی نہیں آتی،شاہراہ قائدین کا کچھ اور نام رکھ دیتے ، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پل کی وجہ سے نہیں بلکہ عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے مزار قائد چھپا ہے ، اس موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ جہانگیر روڈ والوں کو کہیں اور لے جائیں ،حکومت اپنی زمین خالی کرائے ، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے وقت دے دیں اس کا سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر کوئی حل نکالیں گے ،جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ متبادل کیلئے تو 5 ہزار کی جگہ پندرہ ہزار کلیم آجائیں گے ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ خواہش نہیں اور آپ کام کرنا ہی نہیں چاہتے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اتنے سالوں سے جو کچھ ہوتا رہا ہے اب بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا ،سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے تجویز دی کہ غیرقانونی تعمیرات کے جائزے کیلئے کمیٹی بنا دیں ، آپ وفاقی یا صوبائی افسران پر انحصار نہیں کرسکتے آپ تک صحیح بات نہیں آتی، جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ سب خود بخود نہیں ہوتا، کنٹونمنٹ بورڈ سے جو پلاٹ چاہیں کمرشلائز کرالیں،ایئرپورٹ کے پاس جس کو چاہیں4 منزلہ عمارت کی اجازت دیں جسے چاہیں نہ دیں، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ کوئی گھر گرا دیاجائے تو مائیں بہنیں سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ غیرقانونی تعمیرات کی اجازت کون دیتا ہے وہ ذمہ دار ہے ، چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون سازی کیوں نہیں کرتے ؟ ہم قانون بنائیں کیا ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی کمیٹی یا کمیشن نہیں بنائیں گے آپ قانون پر عمل کریں ، عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ آپ سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو صرف’ وائٹ واش‘ نظر آے گا،اگر کچھ ہوسکتا ہے تو صرف آپ کرسکتے ہیں آپ ہی درست کرسکتے ہیں ،اگر آج نہیں ہوا تو20 سال بعد کے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل بھی یہی بات کررہے ہوں گے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک متعلقہ ادارے ٹھیک نہیں ہوں گے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا ، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ کروڑوں لوگوں کا شہر ہے ، ہم نہیں چاہتے کوئی ایسی بات کہہ دیں جس سے نقصان ہو،کوئی امید افزا بات نظر نہیں آرہی ، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹریک سے 6 ہزار لوگوں کو بے گھر کیا گیا ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ووٹوں کے زاویے سے دیکھتے ہیں، ہم ووٹوں کے حساب سے نہیں دیکھتے ،آپ کو اتنی پریشانی ہے تو انہیں بسانے کیلئے قانون سازی کردیں ، ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہااٹارنی جنرل بتائیں گے کہ صوبائی حکومت کے 100 ارب روپے وفاق پر واجب الادا ہیں ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارا پیسہ تو باہر چلا گیا ، یہ پیسہ بھی آجائے تو غائب ہوجائے گا۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ آپ کے تھانے تک تو کرائے پر ہیں۔ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ سٹی پلاننگ کیلئے ماہرین کی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے ،ہم نے سفارشات کابینہ کو بھیج دی ہیں،مزید وقت لگے گا ، اس موقع پراین جی او کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی میں شامل لوگ خود قبضوں میں ملوث ہیں ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب بتائیں کس پر بھروسہ کریں ؟اب کراچی ری ڈیزائننگ نہ لکھیے گا بلکہ صرف تجاویز دیں ،تجاوزات کا مکمل خاتمہ، کچی آبادیوں کی ری سیٹلمنٹ اور متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے سفارشات دیں جبکہ میڈیا کے ذریعے بھی متعلقہ ماہرین سے سفارشات لیں ، سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ نہر خیام پر تعمیراتی سرگرمیوں کے خلاف عدالت عالیہ میں درخواست دائر ہوئی ہے ، جس پر عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ کودرخواست کو فوری نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نہر خیام پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر پی آئی اے نے عدالت کو پی آئی اے پلانیٹیریم سے متصل شادی ہال گرانے پر بتایا کہ شادی ہال ختم کردیا گیا ہے ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے کل ہی دیکھا ہے شادی ہال موجود ہے ۔ سماعت کے دوران عدالت نے کے پی ٹی کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کے معاملے پر کے پی ٹی کے وکیل سے مکالمہ میں کہا کہ آپ زمین کے مالک نہیں ہیں ،آپ کو کے پی ٹی کی سرگرمیوں کیلئے زمین دی گئی تھی، آپ کے پاس لیز نہیں تو آپ آگے کیسے لیز کریں گے ، جس پر کے پی ٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پورٹس سے ملحقہ زمین بھی پورٹس کو دی جاتی ہے ،چیف جسٹس کا کہنا تھا تو آپ نے ساری زمین اپنے ملازمین کو دے دیں، اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کمرشل سرگرمیوں کیلئے 25,25 سال کے لائسنس دے دیئے , اب 99,99 سال کی لیز کررہے ہیں ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو صرف پورٹ کے استعمال کیلئے زمین دی گئی ،آپ خود کو کے پی ٹی لینڈ الاٹ کررہے ہیں ،یہ مفادات کا ٹکرائو ہے اور اس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ،میں چیف جسٹس کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی زمین اپنے نام پر یا اپنے ججز کو الاٹ کردوں ؟ہمیں کورٹ چلانے کیلئے جگہ ملی ہے ذاتی استعمال کیلئے نہیں ،آپ کیسے زمین کے مالک بن رہے ہیں ؟ جس پر کے پی ٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی لیز منسوخ کی گئی انہیں سنا نہیں گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم حکم جاری کرچکے ہیں اسے حتمی سمجھیں ، آپ کا مسئلہ صرف ہائوسنگ سوسائٹی کا ہے ، جس پر کے پی ٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ آپ کے حکم سے ساری لیز متاثر ہوئی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے 99,99 سال کی لیز پر زمینیں دی ہوئی ہیں ،اس طرح ہر ادارہ سرکاری زمین اپنے لوگوں کو بانٹ دے گا ، ٹرسٹ پراپرٹی کسی صورت کسی کو نہیں دی جاسکتی ،کیا صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو اپنے نام پر کرلے گا ؟آپ باہر کی مثالیں دے رہے ہیں ،وہ لوگ اپنے گھر نہیں بناتے وہاں پر ، اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پورٹ کی زمین کو پورٹ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ، پورٹ کی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی بھی نہیں بنائی جاسکتی ،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی تو مینگروز بھی نہیں لگا سکی ، آپ درخواست واپس لیں یا عدالت کو حکم جاری کرنے دیں، اگر ہم نے حکم جاری کیا تو آپ رسک لے رہے ہیں، دوران سماعت چیئرمین کے پی ٹی کا کہنا تھا کہ امریکی قونصل خانے کو بھی زمین دی گئی ہے ہم کیسے کینسل کردیں ؟ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ہائوسنگ سوسائٹی نہیں بن سکتی، ہمارا حکم واضح ہے اپنی تشریح مت کریں ، ہاکس بے پر جتنے مکان سمندر کے ساتھ بنے ہوئے ہیں وہ قبضہ ہے ۔ بعد ازاں عدالت نے درخواستوں کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔​
 

@intelligent086
جج صاحب کچھ زیادہ ہی غصہ کھا گئے ہیں
حالات حاضرہ سے آگاہ رکھنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
درست سمت اختیار کی ہے لیکن جلد بازی نہیں ہونی چاہیئے
پسند اور جواب کا شکریہ
 
Back
Top