secound world war mein aziyat rasani ke tareeqay by luis el sonador translated in Urdu....

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
دوسری عالمی جنگ میں اذیت رسانی کے طریقے
2nd.jpg

تحریر : لوئس ایل سنائیڈر
دوسری عالمی جنگ میں بعض ایسے مراکز تھے جہاں مفتوحہ اقوام کے بے شمار لوگ جمع کر کے رفتہ رفتہ مارے گئے۔ ان میں بوشن والڈ، لبلن، برجن بلسن، دخاؤ، میڈانک، آش ویز، گوتھا، ارلا، نارڈن ہازن، اہرڈرف، لکن والڈ، گیناؤ، اوبراوسل شامل ہیں۔ یہ تمام نام سرگزشت تہذیب و تمدن کے سیاہ ترین اوراق پر خون سے لکھے گئے۔ جنگ ختم ہونے سے پیشتر ہی افواہیں بھی پھیل گئی تھیں کہ نازیوں نے موت و ہلاکت کے ان مراکز میں ناقابل بیان مظالم توڑے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو اس کا یقین آیا۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ پہلی عالمی جنگ میں بھی اتحادیوں نے مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کیا تھا اور اس قسم کی لغو داستانیں پھیلائی تھیں کہ جرمن لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتے ہیں اور بچوں کو گرم تیل میں جوش دے کر جنگی مشین کے لیے چربی مہیا کرتے ہیں۔ لوگ دوبارہ بیوقوف بننے کے لیے تیار نہ تھے۔ پھر یکایک نازیوں کی وحشت و بہیمیت کے متعلق ایسے دردناک واقعات سامنے آئے کہ جن سے دنیا بھر میں غم و غصہ کی لہریں دوڑ گئیں۔ یہ پروپیگنڈا نہ تھا بلکہ شیطانی ظلم و جور تھا، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ کیمرہ اور فلم دونوں ان واقعات کی گواہی دے رہے تھے۔ رفتہ رفتہ سراسیمگی زدہ انسانیت پر آشکارا ہوا کہ ہٹلر اور نازیوں نے عمداً جنگی قیدیوں اور عام شہریوں کے خلاف حیاتیاتی جنگ کے وسیع پروگرام کو منظم طریق پر لباس عمل پہنایا اور تاریخ میں انسانیت کے نہایت خوفناک قتل عام کا ارتکاب کیا۔ یہ تمام واقعات یقینا قابل قبول نہ تھے مگر ان کی تردید نہیں ہو سکتی تھی۔ اس ظلم و جور کا مدعا یہ تھا کہ جن قوموں کو ہٹلر نے یورپ میں پست درجے پر رکھا تھا اور ثقافت کے لیے تباہ کن سمجھتا تھا، انہیں کمزور کر دیا جائے یعنی یہودیوں، پولستانیوں، چیکوں، فرانسیسیوں اور روسیوں کو۔ اس طرح وہ سمجھتا تھا کہ آریائی اور نارڈک نسل کے نجیب الطرفین لوگوں کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے نازیوں کی استحصالی کارگاہوں میں ایک کروڑ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ اس بیدردانہ مہم کی سب سے بڑی ضرب یورپ کے یہودیوں پر لگی۔ یورپ کے جن حصوں پر نازیوں کو اقتدار حاصل تھا ان میں 96 لاکھ یہودی رہتے تھے۔ ان میں سے کم از کم 57 لاکھ ناپید ہو گئے۔ ان میں سے اکثر کو گیس کے ذریعے سے مارا گیا۔اور طریقے بھی استعمال کیے گئے مثلاً گولی، پھانسی، بھوک، تپے ہوئے لوہے سے داغ دینا، جوڑ جوڑ الگ کرنا، زندہ دفن کر دینا، زہر آلود ٹیکے لگا دینا، تجربات جراحی کے سلسلے میں مار دینا اور پانی میں منجمد کر دینا۔ اتحادی فوجیں تیزی سے جرمنی کے اندر بڑھیں تو یہ پوری داستان عیاں ہو گئی کیونکہ ایسے تمام مراکز یکے بعد دیگرے آزاد کرالیے گئے۔ جو فوجیں مدت سے جنگ کی عادی چلی آرہی تھیں، انہیں موت کے نظارے اور اس کے قرب سے کیا ہراس ہو سکتا تھا؟ لیکن ان پر بھی ان مراکز کے مناظر دیکھ کر سخت بیزاری چھا گئی۔ وہ سب کچھ دیکھتے تھے مگر انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا۔ ہزاروں جسم لکڑی کے شہتیروں کی طرح ایک دوسرے پر ڈھیر کیے پڑے تھے۔ بعض گڑھوں میں پھینک دیے گئے تھے، بعض خندقوں میں۔ بعض ایسے لوگ مختلف حجروں سے نکلے جنہیں ہڈیوں کے چلتے پھرتے ڈھانچے کہنا چاہیے کیونکہ ان کے جسموں پر ذرا سا بھی گوشت نہ رہا تھا۔ وہ جو کچھ دیکھ رہے تھے اس پر یقین نہ آتا تھا۔ قوی دل آدمی بھی بدنصیبوں کے اس بدحال ہجومِ عظیم کا حال دیکھ کر بے اختیار رو پڑے۔ جنرل آئزن ہاور نے پہلے پہل یہ دردناک نظارہ گوتھا کے قریب ایک مرکز میں دیکھا۔ اس نے بتایا کہ زندگی بھر مجھے ایسا صدمہ کبھی کسی واقعے سے نہیں پہنچا۔ اس نے مرکز کا گوشہ گوشہ دیکھا تاکہ ضرورت پیش آنے پر وہ خود حقیقی حالات بتا سکے اور نازی وحشت کی ان سچی کہانیوں کو پروپیگنڈا قرار دینے کا موقع نہ آنے پائے۔ اسی شام کو آئزن ہاور نے امریکا اور انگلستان کی حکومتوں سے کہہ دیا کہ جلد سے جلد ایڈیٹروں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ قطعی شہادت خود ملاحظہ کر لیں اور کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہ رہے۔ آگے چل کر نورمبرگ کے استغاثے میں ان تمام جرائم کی وسعت ثابت ہوئی مثلاً: 1۔ گولیوں کے ذریعے سے قتل عام کیا گیا۔ اس اثنا میں نظربند اسیروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ساز بجائیں اور گانا سنائیں۔ 2۔ مراکز میں جو افسر اور محافظ مقرر تھے وہ انسانی کھوپڑیوں کو دھوپ میں خشک کر لیتے تاکہ نشانیوں کے طور پر انہیں محفوظ رکھ سکیں۔ قیدیوں کی جلد سے انہوں نے لیمپوں کے شیڈ، دستی بیگ اور دستانے بنائے۔ 3۔ جو قیدی زندہ تھے انہیں بھی بلاامتیاز مُردوں کی گاڑیوں میں بھر دیا گیا تاکہ لاشوں کے ساتھ جلا دیا جائے۔ 4۔ مردوں کے جسم حجاموں کے پاس بھیج دیے گئے تاکہ وہ بال اور دانت الگ کر لیں اور جلانے سے پیشتر انہوں نے سونا نکال لیا۔ 5۔ جن قیدیوں نے کوئی راز بتانے سے انکار کر دیا انہیں ایسی کوٹھڑیوں میں ڈالا جن کے اندر اسبستوس لگی ہوئی تھی۔ وہ سخت گرم کر دی جاتیں اور قیدی اسی میں مر جاتا۔ 6۔ بچے بھی نازی جرمنوں کے اس دوزخ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اذیت رسانی کا یہ سلسلہ طبی تجربات میں کمال پر پہنچا۔ قیدیوں کے جوڑ جوڑ اسی طرح الگ کیے جاتے، جس طرح تجربات میں چوہوں کے جوڑ الگ الگ کر لیے جاتے ہیں۔ ان پر نئے زہروں اور تریاقوں کا تجربہ کیا جاتا۔ تقریباً 200 جرمن ڈاکٹر ان تجربات میں شریک تھے۔ وہ ایک کا بازو الگ کر کے دوسرے کو لگانے کا تجربہ کرتے۔ گیس کا ٹیکہ لگا کر جلد سے جلد مار دیتے۔ منجمد پانی میں انسان کو ٹھہرائے رکھتے تاکہ اس کے اثرات کا اندازہ ہو جائے۔ پسے ہوئے شیشے، گندے چیتھڑے اور گردو غبار زخموں میں بھر دیے جاتے تاکہ میدان جنگ کے سے حالات پیدا کر کے تجربات کیے جائیں۔ جو قیدی رضاکارانہ اپنے آپ کو ان تجربات کے لیے پیش کر دیتے انہیں اچھی غذا دی جاتی اور اچھے مکان میں رکھا جاتا۔ اس نظامِ نو کے تحت سب کچھ سائنس کے نام پر کیا جاتا۔​
 

@intelligent086
نازی تو طاقت کی انتہا پر تھے لیکن کشمیریوں کے لئیے جو عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں ان کا زکر بھی ہونا چاہیئے کیا انتظار ہو رہا ہے کہ مورخ لکھے ایک ایسا بھی دور تھا جب مسلمان دولت سے مالا مال تھے حمیت اور غیرت کے مفلس تھے ان کے ہوتے ہوئے ان کی بہنوں کی آبروریزی کی گئی یہ دولت کے نشے میں بدمست پڑے تھے تف ہے ان نام نہاد مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں پر....... یہی کچھ کشمیری شامی، فلسطینی، افغانی، ارے کتنی جگہوں پر ماؤں بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے ، یا رب ان مسلمانوں کو ہوش میں لا..... معزرت جزباتی پن
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
عنوان کا مسئلہ ہے پاکستان ویب پاکستانی زبان کی ترجمان ہونی چاہیئے ہم اس احساس کمتری سے کب نکلیں گے
 
نازی تو طاقت کی انتہا پر تھے لیکن کشمیریوں کے لئیے جو عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں ان کا زکر بھی ہونا چاہیئے کیا انتظار ہو رہا ہے کہ مورخ لکھے ایک ایسا بھی دور تھا جب مسلمان دولت سے مالا مال تھے حمیت اور غیرت کے مفلس تھے ان کے ہوتے ہوئے ان کی بہنوں کی آبروریزی کی گئی یہ دولت کے نشے میں بدمست پڑے تھے تف ہے ان نام نہاد مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں پر....... یہی کچھ کشمیری شامی، فلسطینی، افغانی، ارے کتنی جگہوں پر ماؤں بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے ، یا رب ان مسلمانوں کو ہوش میں لا..... معزرت جزباتی پن
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
عنوان کا مسئلہ ہے پاکستان ویب پاکستانی زبان کی ترجمان ہونی چاہیئے ہم اس احساس کمتری سے کب نکلیں گے
یہ ہوش سے کرنے والے کام ہیں جزباتی انداز نہیں چلتے باقی ان شاء اللہ کشمیریوں کا لہو رنگ لائے گا انڈیا کئی حصوں میں تقسیم ہو گا۔
یہ بات سچ ہے نازی تاریخ دہرائی جا رہی ہے ۔ آپ نے موضوع سے ہٹ کر جواب دیا ہے اسے تقابل کہا جا سکتا ہے۔
شکریہ​
 
Back
Top