Seedhi Lakeer By Mushtaq Qamar

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
سیدھی لکیر ۔۔۔۔۔۔ تحریر : مشتاق قمر

sl.jpg


میرے بچے کا نام سکول کے رجسٹر سے خارج کر کے‘ الوداعی پارٹی کے بغیر ہی اسے گھر بھیج دیا گیا۔ اس تمام کارروائی کی وجہ صرف اتنی بتائی گئی کہ پورے چار سال کی انتھک کوششوں کے باوجود‘ وہ ابھی سیدھی لکیر مارنے کے قابل بھی نہیں ہو سکا۔

ماسٹر صاحب نے بڑے دکھ سے مجھے یہ خبر سنائی‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے پورے نو برس بعد اس کے بارے میں کوئی حوصلہ افزا خبر میرے کانوں میں پڑی۔

اس سے پہلے اس بچے کے بارے میں بھی یہی عام سی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ وہ بڑا سیدھا سادا شریف سا لڑکا ہے۔ نہ صرف بڑوں کی عزت کرتا ہے بلکہ اس کے عوض میں شفقت کی توقع بھی رکھتا ہے۔ کسی سے لڑائی جھگڑا مول نہیں لیتا۔ داہنے رخسار پر چانٹا پڑے تو بایاں سامنے کر دیتا ہے۔ ہر وقت پرائی بھی پڑی رہتی ہے اور اپنی بھی نبیڑنے کی فکر میں رہتا ہے... اس کا کوئی ساتھی‘ سنگی‘ دوست‘ دشمن نہیں... بس ایسی ہی الٹی سیدھی‘ شریفانہ اور ناقابل عمل باتیں... اس کی زندگی ایک سیدھی لکیر کی مانند تھی جس میں کوئی خم‘ کوئی موڑ نہ تھا۔

میں اس بچے کو تقریباً بھول چکا تھا۔ اسے یاد رکھنے والی بات بھی تو کوئی نہ تھی۔ بس کبھی کبھار کوئی غرض مند ماتحت (میں ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہوں) اس کی تعریف و توصیف میں چند کلمات ادا کر کے اس کی موجودگی کا احساس دلا دیتا‘ لیکن آپ جانتے ہی ہیں اس قسم کا احساس اندر سے کتنا کھوکھلا ہوتا ہے۔ خصوصاً ایک ایسے انسان کیلئے جو خود بھی اپنی حالت سے گزر کر بلند عہدے پر پہنچا ہو اور اسے اپنی اولاد کے بارے میں کسی قسم کی خوش فہمی نہ ہو... لیکن کل ماسٹر صاحب کے ریمارکس سننے کے بعد یہ لڑکا ایک بار پھر اچانک میری زندگی میں داخل ہو گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے بچھڑ گیا تھا۔ کسی بردہ فروش کے ہاتھ لگ گیا تھا اور میں نے اسے دوبارہ بیگار کیمپ میں پا لیا۔

سارا مسئلہ سوچ کے انداز کا ہے۔ ماسٹر صاحب کے نزدیک بے شک وہ غبّی‘ کند ذہن لڑکا تھا‘ سیدھی لکیروں کے گر سے ناآشنا‘ ٹیڑھی لکیروں کا ماہر! لیکن میرے نزدیک اس کی اس خامی نے اسے ایک ''عظیم انسان‘‘ بنا دیا۔

میری نگاہوں میں اب وہ بچہ نہیں رہا تھا۔ کیونکہ عظیم انسان بچپن‘ لڑکپن‘جوانی اور بڑھاپے کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے۔ وہ تو پیدا ہوتے ہی کارنامے سرانجام دینے لگتے ہیں۔

ہر بڑا انسان اپنی عظمت کا آغاز پنگھوڑے سے ہی کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے پنگھوڑے کے کارناموں کی دریافت تاریخ کا قلم کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی نے آئندہ چل کر اپنی عظمت کے جھنڈے پہلوانی‘ مکہ بازی اور ہاکی کرکٹ کے میدان میں گاڑنے ہیں وہ دو چار دائو پیچ کا مظاہرہ دکھا دے گا۔

اسی طرح شاعری‘ موسیقی میں نام پیدا کرنے والے عظیم بچوں کے رونے دھونے میں بھی آہنگ اور سر سنگیت کا پورا پورا اہتمام ہوتا ہے۔

شاعری کے میدان میں نام پیدا کرنے والے بچے دوسروں کی نسبت قدرے زیادہ عجلت دکھانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کا رونا دھونا تو خیر بحر سے خارج ہوتا ہی نہیں‘ البتہ شاعرانہ مزاج کے مالک ہونے کے سبب سکولوں کے رجسٹر سے ان کا نام یقینا خارج ہو جاتا ہے۔

اس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ پہلوانی‘ مکے بازی اور جسمانی کرتب میں نام پیدا کرنے والے عظیم انسانوں کا بچپن سے جوانی تک کا سفر گھٹنے‘ ٹخنے تڑوائے بغیر ہی مکمل ہو جاتا ہے۔ البتہ انہیں اپنی عظمت کا احساس دلانے سے قبل خاصی مقدار میں جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں اور ان کے والدین طویل عرصے تک مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔

اصل مقصد یہ ہے کہ ماسٹر صاحب کے مخلصانہ مشورے کے باوجود زندگی سیدھی لکیر کا نام ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے مجھے اپنے بچے کے سکول سے نکالے جانے پر کسی قسم کا کوئی قلق نہیں ہوا۔ ایک طرح کی خوشی ہی ہوئی کیونکہ میرے خیال میں اسے اس کرۂ ارض پر زندگی بسر کرنی ہے اور زندگی بسر کرنے کا راز ٹیڑھی لکیروں ہی میں پوشیدہ ہے۔ ناک کی سیدھ میں چل کر کوئی شخص اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

انسان کو منزل تک پہنچنے کیلئے بہت سے موڑ اور نشیب و فراز کھنگالنے پڑتے ہیں۔ سیدھی لکیروں کی مہارت رکھنے والے پہلے موڑ پر ہی تھک ہار کربیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ٹیڑھی لکیروں کے ماہر بڑے بڑے طوفانوں سے بھی کوئی نہ کوئی سلامتی کی راہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

سیدھی لکیر کا راہی ایک ایسا سائیکل سوار ہے جو ساری زندگی ایک ہی مدھم لے پر گزار دیتا ہے۔ وہ زندگی بھر سائیکل کا بانجھ کھیل کھیلنے کے باوجود موت کے کنوئیں میں ٹیڑھی لکیروں کا چند لمحوں کا تخلیقی کھیل دکھانے والے موٹرسائیکل سوار جیسی تندو تیز زندگی کی دلکشی سے محروم رہتاہے۔

ہیزلٹ کا کہنا ہے فطرت کی بو قلمونیوں سے صحیح طور پر لطف اندوز ہونے کا واحد راستہ ہے کہ آپ عین جنگل میں پہنچ کراپنا راستہ بھول جائیں۔ میں توخیر راستہ بھول جانے کے حق میں نہیں‘ لیکن راستہ بھولنے کے بعد انسانی قدم زمین پر ٹیڑھی میڑھی لکیروں کے جو نقش و نگار بناتے ہیں‘ ان کی خوبصورتی سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ پھر گھر کی جانب جانے والی ایک سیدھی راہ کھو دینے کے بعد آپ ٹیڑھی راہوں میں دامن کشا جن نئی دنیائوں کی دریافت کرتے ہیں ان کے لطف و کرم کا ذائقہ کولمبس جیسے عظیم انسانوں کا ہی مقدر ہے۔

زندگی مسلسل ارتقائی سفر پر گامزن ہے۔ لیکن اس سفر کی سست رفتاری کا عالم یہ ہے کہ لاکھوں برسوں میں انسان نے صرف اکڑوں چلنا سیکھا ہے۔ ہاتھ پائوں کے بل چلنے کے مقابلے میں اکڑوں چلنے کی افادیت تو خیر سدا ہی سے مشکوک رہی ہے۔ البتہ اس سے ارتقائی سفر کی سست رفتاری پر بھی ایک نظر اے اہل نظر! سیدھی راہ اس سست رفتاری کو اور بھی سست اور بے کیف بنا دیتی ہے۔

سیدھی راہ پر اول تو نئے مناظر کا فقدان رہتا ہے۔ سارا راستہ ہی ''مناسب وقفوں‘‘ کی داستان جبر سے عبارت ہے۔ پھر مناظر اتنی باقاعدگی‘ سست رفتاری اور متوقع طور پر سامنے آتے ہیں کہ ان کی تبدیلی کا احساس ہی نہیں ہو پاتا۔ زلفوں کے سارے''لہرئیے‘‘ یک رنگی کا شکار ہو کر نئی دلچسپیوں کی تخلیق سے عاری رہتے ہیں۔ چاروںطرف کڑکتی دھوپ کا سائبان ہے۔ طلوع و غروب کا ایک منظر بھی نہیں۔ جبکہ زندگی بنیادی طور پر ایک تخلیقی عمل ہے۔

ٹیڑھی لکیر میں تخلیقی جرثومہ کی پرورش کیلئے سیدھی لکیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ سازگار ماحول پایا جاتا ہے۔
('' سیاہ سفید ‘‘ سے اقتباس ‘‘)​
 

Back
Top