Maria-Noor

Maria-Noor

New Member
I Love Reading
Invalid Email
11
 
Messages
6,575
Reaction score
11,925
Points
731
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی

اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری مثل شمع جلنے لگی

مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی

ہوا چلی سرِ صحرا تو یوں لگا جیسے
ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی

کہیں پڑا نہ ہو پرتو بہارِ رفتہ کا
یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

جو دل کا زہر تھا، کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں پہ دیکھ لے ، کونپل نئی نکلنے لگی

شکیب جلالی
 

Back
Top