Seerat e Sahabah Shahadat e Hazrat Ameer Hamza (R.A) By Sahibzad Peer Mukhtar Ahmad Jamal Tonsvi

رے میں سوچ رہے ہیں۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ عنقریب یہاں سے ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لیے جا رہا ہے تو وحشی کی امید پر خوف کا غلبہ ایک بار پھر مسلط ہو گیا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ شام، یمن یا کسی دوسرے ملک فرار ہو جائے ۔ اس حوالے سے اس نے اپنے ایک جاننے والے سے مشورہ کیا تو اس نے کہا:
’’وحشی تم اس قدر خوف زدہ مت ہو۔ خدا کی قسم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کسی شخص کو قتل نہیں کرتے جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جائے ،کیونکہ ان کے نزدیک اصل اہمیت دین کی ہے۔‘‘
وحشی کے لیے یہ بات بظاہر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھی ،مگر جیسے ہی اس نے اسلام قبول کرنے کے متعلق سوچا، اس کے دل میں امید وں کے چراغ روشن ہو گئے اور پھر ایک دن اس کا رخ یثرب کی طرف تھا۔
راستے بھر وہ سوچتا رہا کہ اگر کسی نے راستے میں اسے پہچانتے ہی قتل کر دیا تو ۔۔۔ اس خدشے کے تحت اس نے یہی حکمت عملی اپنانے کا پروگرام بنایا کہ وہ کسی طرح چھپتے چھپاتے ایک دم حضور ؐ کے سامنے آجائے اور توحید کا اقرار کرنے کا اعلان کر دے۔
یہی سوچتے ہوئے وہ مدینہ پہنچ گیا۔ کسی اجنبی سے پوچھا کہ اللہ کے رسولؐ کہاں تشریف فرما ہوں گے۔ اسے بتایا گیا مسجد نبوی میں ۔وحشی کا رخ مسجد نبوی کی طرف تھا۔
مسجد میں لوگ آ جا رہے تھے ،مگر اس نے ہمت کی اور خاموشی سے مسجد میں داخل ہو گیا۔ سامنے ہی حضورؐ لوگوں کے درمیان بیٹھے نظر آئے وہ تیزی سے آگے بڑھا اور بلند آواز سے پکارا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
آواز سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے ایسی نظروں سے اسے دیکھا کہ وحشی کو معلوم ہو گیا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے اس کا اندازہ درست تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’تم وحشی بن حرب ہو۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
یہ سن کر انھوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔۔۔ پھر کچھ لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ حضرت حمزہؓ کو تو نے کیسے قتل کیا؟‘‘
وحشی دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھ گیا اور پھر پورا واقعہ بیان کیا ۔۔۔ وحشی خاموش ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا: ’’وحشی تم پر افسوس ہو!‘‘ پھر کچھ لمحوں کے بعد ارشاد ہوا:’’میری نظروں سے دور ہو جاؤ ۔۔۔ تم مجھے نظر نہ آیا کرو۔۔۔‘‘
وحشی کے لیے یہ الفاظ ایک طرح سے زندگی کا پروانہ تھے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ وحشی کے قتل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور اسے ناپسندیدہ شخص کے طور پر سہی، بہر کیف جینے کی آزادی ہے۔
اس دن کے بعد وحشی کے ذہن سے ایک بات چپک کر رہ گئی کہ معلوم نہیں اس کا گناہ معاف ہوا ہے کہ نہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر کسی کے بارے میں اللہ کے رسولؐ خوش نہیں ہیں تو اس کی کوئی مغفرت نہیں۔ وہ مسلسل اس سوچ میں رہنے لگا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے خوش کیا جائے، اپنے گناہ کا کفارہ کیسے ادا کیا جائے؟
اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلوں میں حاضری دینی تو نہ چھوڑی البتہ یہ ضرور کرتا کہ اس طرح محفل میں بیٹھتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ نہ سکیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ زندگی وہ اسی کیفیت میں رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ مسلمانوں کے امیر المومنین تجویز ہوئے اور اس دوران میں عرب میں فتنۂ ارتداد برپا ہو گیا۔
وحشی نے اس دور میں اسلام پر ثابت قدم رہ کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ دل سے اسلام لایا ہے ۔ لوگ اسے کہتے کہ وہ غم نہ کرے، اگر وہ سچے دل سے ایمان لایا ہے تو اللہ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دے گا۔ لیکن وہ مطمئن نہ ہوتا ۔۔۔ ہرآن اس کے سامنے احد کا وہ منظر آجاتا جب اس نے چھپ کر حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا اور پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ آتے، جو اس کا سینہ چیر دیتے۔
فتنہ ارتداد ہی کے زمانے میں مسلمانوں کو باغیوں کے ساتھ لڑنا پڑا۔ یہ ایک کٹھن اور آزمایش کا موقع تھا۔ وحشی بن حرب کے لیے کفارہ کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا تھا۔ وہ بھی ان مہموں میں شامل ہو گیا۔
پھر ایک دن اس کی امید بر آئی۔وہ اس لشکر میں شامل تھا جس کا مقابلہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ تھا۔ مسیلمہ کذاب نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا قبیلہ بنو حنیفہ نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔
وحشی سوچنے لگا کہ اگر مسلیمہ کذاب کے ساتھ اس جنگ میں اس کے ہاتھوں مسیلمہ کذاب ہلاک ہوا تو حضرت حمزہؓ کا کفارہ ادا ہو جائے گا۔ وہ اسی سوچ کے ساتھ میدانِ جنگ میں اترا۔
اس نے وہی برچھی اور وہی کلہاڑی ایک مرتبہ پھر پکڑی ہوئی تھی اور اس کی نگاہیں مسلیمہ کذاب کو تلاش کر رہی تھیں۔ جنگ کے پہلے مرحلے کے بعد جب مسیلمہ کذاب کی فوج شکست کھا گئی تو وہ بھاگ کر اپنے قلعے نما باغ میں جا چھپا۔ صحابہؓ کے لشکر نے اس کا تعاقب کیا۔ وحشی بھی ان میں شام
بارے****
ماشاءاللہ
خوب صورت اضافہ
بہت بہت شکریہ
 
ل تھا اور اپنے ہتھیار لیے مسیلمہ کذاب کو تلاش کر رہا تھا۔ آخر اس کی نظروں نے مسیلمہ کو ڈھونڈ نکالا۔ وہ تلوار لیے ایک جگہ کھڑا بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا۔ وحشی نپے تلے قدموں سے اس کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابیؓ کی نظریں بھی مسیلمہ پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وحشی کے قدم تیز ہو گئے۔ اس نے تاک کر نیزہ مسیلمہ پر چلایا ،مگر جس لمحے وحشی کا نیزہ مسیلمہ کے جسم میں پیوست ہوا۔ انصاری کی تلوار بھی اس کے جسم کے آرپار ہو گئی۔
حضرت حمزہؓ بنیادی طور پر ایک سپاہی تھے۔ انھوں نے متعدد شادیاں کیں۔ ان کی بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الملہ، خولہ بنت قیس، سلمیٰ بنت عمیس۔ ان سب سے ایک ایک اولاد ہوئی۔ صرف ایک لڑکا ابوالعلی بلوغت کو پہنچا۔ آپؓ کی بقیہ اولاد کم عمری ہی میں انتقال کر گئی۔
________
شامل تھا***
ماشاءاللہ
خوب صورت اضافہ
بہت بہت شکریہ
 

Back
Top