Seerat e Sahabah Shahadat e Hazrat Ameer Hamza (R.A) By Sahibzad Peer Mukhtar Ahmad Jamal Tonsvi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
شہادتِ حضرت امیر حمزہ ؓ ۔۔۔۔۔۔ صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی

hamza.jpg

حضورِ اقدسﷺ کی ذاتِ مقدس نے حضرت امیرحمزہ ؓ کو ’’سیدالشہدا‘‘(یعنی شہیدوں کے سردار) کے خطاب سے نوازا۔

سیدالشہداسیدنا حضرت امیر حمزہؓ کی ولادت رحمت عالمﷺکی ولادت باسعادت سے 2سال قبل تقریباََ568عیسوی میں دنیا کے عظیم شہر مکۃالمکرمہ میں ہوئی۔آپؓ رسولِ عربیﷺکے چچا اوررضائی بھائی بھی تھے،کیونکہ ابو لہب کی آزاد کردہ کنیزحضرت ثوبیہؓ نے ان دوہستیوں یعنی حضور نبی کریمﷺ اور آپؐکے چچا حضرت امیر حمزہؓ کو دودھ پلایا تھا اس کے علاوہ حضرت امیر حمزہؓ آپﷺ کے خالہ زاد بھی تھے کیونکہ حضرت امیر حمزہؓکی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت وہب بن عبدمناب بن زہرہ کی چچازاد بہن تھیں۔

ایک دن حضرت امیر حمزہؓ شکار سے واپس آئے تو کسی نے آپؓ سے کہا کہ آپؓ کے بھتیجے حضرت محمد مصطفیٰﷺکو ابو جہل نے برا بھلا کہا ہے،حضرت امیر حمزہؓ غصہ میں آگئے اور ابو جہل کے پاس پہنچے اور جو کمان ہاتھ میں تھی،اُس کے سر پر دے ماری،لہولہان کیا اور فرمایا کہ ’’تم کیا سمجھتے ہو کہ محمد(ﷺ)اکیلے ہیں؟آج سے میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔‘‘

باقی لوگوں نے تو رحمتِ عالمﷺ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرتے ہوئے ’’صحابیء رسولؐ‘‘ہونے کا عظیم رتبہ حاصل کیا۔لیکن سیدالشہدا حضرت امیر حمزہؓ نے ابو جہل کے پاس جا کر مشرکین کے سامنے حضور نبی کریمﷺ پر ایمان لانے کااعلان فرمایا۔۔حضرت امیر حمزہؓ نے حضور سیدِ عالمﷺ کے حکم پر سب سے پہلے مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی اور حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے ہاں قیام فرمایا۔

مدینہ شریف میں آکر حضور سرورِ کائناتﷺنے مدینہ شریف کے تینوں یہودی قبیلوں،بنی نضیر،بنی قریظہ اور بنی قینقاع سے معاہدے کئے اور آس پاس کے قبیلوں کیساتھ صلح کے معاہدوں کیلئے سفر فرمائے۔ابوا،بواط اور ذوالعشیرہ کے سفر بھی انہی مقاصد کیلئے ہی کئے گئے تھے،ان تینوں علاقوں میں سفر کے دوران نبی کریمﷺ نے حضرت امیر حمزہؓ کے ہاتھوں میں سفید رنگ کا جھنڈا تھمایا تھا جس سے مراد صلح تھی۔

جنگ بدر میں حضرت امیر حمزہؓ نے خوب جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور داد وصول کی،حضرت امیر حمزہؓ دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل زرہ بکتر پہنتے تھے مگر اسلام لانے کے بعدکبھی زرہ استعمال نہیں کی،کسی نے وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ ’’اسلام لانے سے قبل میں موت سے ڈرتا تھا مگر اب موت کا ڈر نہیں رہا۔‘‘جنگ بدر میں آپؓ نے اپنی دستار مبارک میں شترمرغ کا’’پر‘‘سجا رکھا تھا کہ جنگ میں ہر آدمی حضرت امیر حمزہؓ کو پہچان سکے۔

جنگِ احد میں خود نبی کریمﷺبھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ کرامؓ شہید ہوئے لیکن اس جنگ میںسیدالشہدا حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت کے حوالہ سے…امام بخاری،ابودائودالطیاسی اور ابن اسحاق اور دیگر اہلِ تحقیق نے آپؓ کے قاتل (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)کی زبان سے یوں نقل کیا ہے کہ’’جنگ بدر میں حضرت امیرحمزہؓ نے طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا جب مشرکین مکہ جنگ احد کیلئے روانہ ہوئے تو میرے مالک،جبیر بن مطعم(جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)نے مجھے کہا کہ اگر تم میرے چچاطعیمہ کے بدلہ میں حضرت امیرحمزہؓ کو قتل کردو،تو میں تم کو آزاد کردوں گا،چناچہ میں بھی کفار کے لشکر میں شامل ہوکرروانہ ہوا،میں حبش النسل تھا اور حربہ(چھوٹا نیزہ)مارنے میں کمال مہارت رکھتا تھا،شاذونادر ہی میرا وار خطا جاتا تھا،جب جنگ شروع ہوئی اور دونوں فریق ایک دوسرے سے مصروف پیکار ہوگئے تو میں صرف حضرت امیر حمزہؓ کی سرگرمیوں کو دیکھتا رہا،آپؓ ایک غضب ناک شیر کی طرح پھرتے تھے،جدھر سے گزرتے اپنی تلوار آبدار سے مشرکین کی صفوں کو اُلٹ پلٹ کررکھ دیتے تھے،آپؓ کے مقابلہ میں کھڑا ہونے کی کسی میں جرأت نہ تھی،میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟جدھر رخ کرتے ہیں لوگ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں،لوگوں نے مجھے بتایا،یہی تو حمزہؓ ہیں،میں نے دل میں کہا ،میرے مطلوب تو یہی ہیں،میں نے اُن کو پہچان لیا،اب میں اُن پر ضرب لگانے کی تیاری کرنے لگا،کبھی کسی درخت اور کبھی کسی چٹان کی اوٹ میں چھپتا چھپاتا اُن کے نزدیک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا،اسی اثناء میں سباح بن عبدالعزٰی الغبثانی سامنے آنکلا،جب حضرت امیر حمزہؓ نے اُسے دیکھا تو اُسے للکارتے ہوئے کہا ’’اے ختنہ کرنے والے کے بیٹے!آمیری طرف،دودو ہاتھ ہوجائیں،تُو اللہ عزوجل اور اُس کے پیارے حبیبﷺسے دشمنی رکھتا ہے‘‘ یہ کہہ کر آپؓ نے اُس پر حملہ کردیا اور آنِ واحد میں ہی اُسے جہنم واصل کردیااور لاشہ سے زرہ اتارنے کیلئے اُس پر جھکے،میں ایک چٹان کی اوٹ میں تاڑ لگائے چھپ کر بیٹھا تھا،حضرت امیر حمزہؓکا پائوں پھسلا تو زرہ سرکنے سے آپؓ کا پیٹ ننگا ہوگیا،میں نے اپنے چھوٹے نیزے کو پوری قوت سے اپنی گرفت میں لے کر لہرادیا،جب مجھے پوری تسلی ہوگئی تو میں نے تاک کر وہ نیزہ آپؓ کے شکم پر دے مارا جوناف کے نیچے سے اندر گھسا اور پار نکل گیا،آپؓ نے غضب ناک شیر کی طرح مجھ پر جھپٹنا چاہا لیکن زخم کاری تھا اس لیے اُٹھ نہ سکے میں وہاں سے چلا آیا،جب آپؓ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی،اللہ تعالیٰ نے شہادت سے سرفراز فرمایا تو پھر وہاں گیا اور اپنا نیزہ اُٹھالایا۔

حضرت امیر حمزہؓ کو وحشی نے شہید کرنے کے بعدآپؓ کا پیٹ چاک کیا،آپؓ کا کلیجہ مقدس نکالا اور ایک عورت،جس کا نام ہندہ تھا کے پاس لے آیااور کہا کہ یہ حمزہ ؓکا کلیجہ ہے،اس نے چبایا اور نگلنا چاہا لیکن نگل نہ سکی اور تھوک دیا۔

حضورِ اقدسﷺسیدالشہداحضرت امیرحمزہؓ کی شہادت پر تشریف لائے اور آپؓ کے مُثلہ(ناک کان کاٹنا)کیے ہوئے جسم مبارک کو دیکھا،آپﷺاس موقع پر انتہائی رنجیدہ اور غمگین ہوئے کہ آپﷺ نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا،اسے دیکھ کر آپﷺ شدید جلال میں آگئے،تو آپؓ نے قسم کھائی کہ میں ایک حمزہؓ کے بدلہ میں ستر کافروں کو قتل کرکے ان کا مُثلہ کروں گا،اس پر ربِ کائنات نے یہ آیت نازل فرمائی،ترجمہ ’’اور اگر تم سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی تھی اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبروالوں کا صبر سب سے اچھا ہے اور اے محبوبﷺ تم صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھائو اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ ہو بے شک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کماتے ہیں۔‘‘اسی آیت کریمہ کے نازل ہونے پر رحمت عالم نے بارگاہِ خداوند ِ قدوس میں عرض کیا ’’اے میرے رب!بلکہ ہم صبر کریں گے۔‘‘اور ستر کفار کے قتل ومُثلہ کا ارادہ ترک کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔

حضرت امیرحمزہؓ کی شہادت پر حضور پر نورﷺنے ارشاد فرمایا ’’اے چچا!آپؓ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو کیونکہ آپؓ جب تک عمل کرتے رہے،بہت نیکی کرنے والے اور صلہ رحمی کرنے والے تھے۔‘‘پھر حضرت امیرحمزہؓ کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور اُن کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوکر اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپﷺ پر غشی طاری ہو جاتی، آقائے نامدارﷺ فرما رہے تھے کہ اے اللہ کے رسولؐ کے چچا!اللہ اور اُس کے رسولؐ کے شیر،اے حمزہؓ،اے نیک کام کرنے والے،اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے جبرائیل ِ امین تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ امیرحمزہؓ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہے’’حمزہؓ ابن عبدالمطلب اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ؐکے شیر ہیں۔‘‘

کریم آقاﷺ کو حضرت امیرحمزہؓ سے بے حد محبت تھی آپؓ کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھایا گیا،آپﷺ کے حکم پر حضرت امیرحمزہؓ کے جنازے کے بعد ایک ایک شہید کو لایا جاتا رہا اور ہر بار حضرت امیرحمزہؓ کے جسد مبارک کا جنازہ ساتھ پڑھایا گیا۔



 

Back
Top