Short Biography of Dr Jamil Jalibi written By Abdul Basit Khan in Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ڈاکٹر جمیل جالبی

jamil.jpg

ڈاکٹر جمیل جالبی کی یاد میں
تحریر : عبدالباسط خان

پاکستان کے ممتاز ادیب، نقاد، محقق اور دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی علمی تحقیق اور اردو ادب کی خدمت میں گزار دی۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقا کو چار جلدوں میں خوبصورت انداز میں تحریر کیا۔ ''تاریخِ اردو ادب‘‘ کو پڑھنے والا ماضی کی منظر کشی سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ اردو ادب کی تاریخ پر خاص ملکہ رکھتے تھے اور اپنی اس تاریخی تصنیف کا کام تن تنہا کرتے رہے، نہ کسی شخصیت اور نہ کسی ادارے سے کوئی مدد لی۔ قدرت نے شاید ان سے اتنا بڑا کام لینا تھا۔ اُن کی تحریر کی وسعتوں اور بلندیوں کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ بقول ان کے انسان اور حیوان میں یہ واضح فرق ہے کہ انسان کے پاس بولتی زبان ہے، جس طرح کائنات میں حیات کا ارتقا خود انسان کے ارتقا کی تاریخ بن جاتا ہے اسی طرح زبان کا ارتقا کسی تہذیب کی تاریخ کا زریں باب بن جاتا ہے، یہی بولتی زبان اُس کے شعور کی علامت ، دُکھ درد، خوشی غمی، خیال اور جذبے کا ہتھیار ہے۔
زبان نہ تو کوئی فرد ایجاد کر سکتا ہے اور نہ کوئی اس کو فنا کر سکتا ہے۔ جمیل جالبی فرماتے ہیں کہ مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے فارسی، ترکی اور عربی ساتھ لائے اور سرکاری زبان اُس وقت فارسی ٹھہری، تاہم اردو زبان کو فارسی نے بہت کچھ دیا مگر اُس نے کبھی اسے اپنے برابر جگہ نہیں دی۔ بقول جمیل جالبی صدیوں یہ زبان سر جھاڑ، منہ پھاڑ، گلی گلی، کوچوں کوچوں ماری ماری پھرتی رہی کبھی اقتدار کی قوت نے اسے دبایا کبھی اہلِ نظر نے حقیر جان کر اسے منہ نہ لگایا اور کبھی تہذیبی دھاروں نے اسے مغلوب کیا۔ یہ عوام کی زبان تھی اور عوام کے پاس رہی۔ جناب جمیل جالبی کے خیالات کی سادگی ان کے تہذیبی وقار اور ان کے ورثے کی ایک خوبصورت علامت بن کر اُبھری۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے جمیل جالبی نے ابتدائی تعلیم سہارن پور میں حاصل کی اور گریجوایشن ہندوستان کی جنگ آزادی کے شہر میرٹھ سے کی۔ یوسف زئی خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ پٹھان ہمیشہ اپنی زبان کی چاشنی، فہم و فراست اور خوبصورت لب و لہجہ رکھنے کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں عقیدت اور محبت کی نظر سے جانے جاتے تھے۔ پاکستان آ کرانہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ انکم ٹیکس سے وابستہ ہو گئے مگر طبیعت میں ادب کی تحقیق، تاریخ اُردو کی تخلیق کی بے چینی نمایاں رہی۔ وہ نوکری کے باوجود مختلف تصانیف میں مشغول و مصروف رہے۔ 1953ء سے اپنے میگزین ''نیا دور‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے انگلش لٹریچر کے طالب علم رہے اور ایل ایل بی بھی کیا۔ مگر دل و دماغ، شوق جنون اور محبت صرف اُردو ادب کی تحقیق اور تشہیر میں صرف کی، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بنے اور اس ادبی مرکز کو اپنی شخصیت کے سحر انگیز رنگ اور قومی جذبے سے سرشار کیا اور بہت خوبصورت انمٹ نقوش چھوڑے، جنہیں آج بھی ان کے ہم عصر بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ حکومت کے خزانے کی ایک ایک پائی کا حساب رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی جنگ آزادی کے منظر کو ایک لمحے کیلئے فراموش نہ کیا تھا۔ اسی لیے ادب اور اس ملک کیلئے ان کی خدمات کا اعتراف بڑی بڑی شخصیات نے کیا۔ وائس چانسلر، یونیورسٹی آف کراچی ڈاکٹر اجمل خاں نے جناب جمیل جالبی کی موت کو ایک قومی نقصان سے تعبیر کیا اور کہا کہ قوم ایک صاحب علم اور صاحب عقل انسان سے محروم ہو گئی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید الطاف حسین نے مرحوم جمیل جالبی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کو بہت بڑا عالم اور نامور مصنف قرار دیا جس نے اپنی ان تھک محنت اور محبت سے اردو زبان کو ایک نئی جدت بخشی، بقول ان کے جناب مرحوم ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام ہمیشہ تاریخ میں جگمگاتا رہے گا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے جارج اورول کے مشہور ناول انیمل فارم (Animal Farm) کا اردو ترجمہ ''جانورستان‘‘ کے عنوان سے کر کے شہرت پائی۔ اس کے علاوہ ایلیٹ کے مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں ''پاکستانی کلچر، قدیم اردو کی لغت، ارسطو سے ایلیٹ تک، تنقید اور تجربہ، اور قومی انگریزی اُردو لغت ‘‘ مقبول و معروف ہیں۔ ان کی بہترین اور یادگار خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ہلال امتیاز، ستارۂ امتیاز، بابِ اردو ایوارڈ، محمد طفیل ایوارڈ اور چار مرتبہ دائود لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اُن کا نام اردو ادب اور زبان کے فروغ اور دیگر اہم تصانیف کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے​
 

Back
Top