Short Biography Of Famous Poet And Philospher Kabir Das By Waqar Ahmad Malik

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
بھگت کبیر۔۔۔۔ ایک عظیم شاعر اور فلاسفر

kabir das2.jpg


تحریر : وقار احمد ملک

بھگت کبیر ہندوستان کے مشہورصوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ مسلمان اور ہندو دونوں ان کو روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا تعلق پندرہویں صدی میں بتایا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔ ایک رائے کے مطابق ان کی پیدائش 1398 عیسوی ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ 1440 ء میں پیدا ہوئے ۔جائے پیدائش بنارس کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں۔ ان کی زندگی کے بارے میں مختلف معلومات روایات کی شکل میں موجود ہیں۔

kabir das1.jpg


ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق جولاہوں کے خاندان سے تھا۔ وہ ایک مسلمان جولاہے کے بیٹے تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ ایک برہمن بیوہ کے بطن سے پیدا ہوئے جس نے ذلت اور رسوائی سے بچنے کے لیے نومولود کو ایک تالاب کے کنارے پھینک دیا۔یہاں سے ایک مسلمان جولاہے نے ان کو اپنایا اور پرورش کی۔ بالغ ہونے کے بعد بھگت کبیر نے مسلمان مشائخ سے علم حاصل کیا۔ لیکن یہ تعلیم ان کی علم کی پیاس کو نہ بجھا سکی۔ مزید تحصیل علم کے لیے انہوں نے ایک ہندو رامانند کی شاگردی اختیار کر لی۔ ان کے یہ ہندو استاد وشنو جی کے پجاری تھے۔ دو طرز کی تعلیم کے حصول کے بعد دونوں مذاہب کا رنگ ان پر غالب آ گیا اور انہوں نے ہندوازم اور اسلام دونوں کو اپنانے کی کوشش کی۔

بھگت کبیر نے عام بھگتوں کی روایت کے خلاف چلتے ہوئے شادی کر لی۔ ان کی اولاد بھی ہوئی۔متعصب ہندوئوں کو ان کا یہ عمل ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے بھگت کبیرکو بنارس سے دیس نکالا دے دیا۔ وہ ذات پات اور مذہبی تفریق کے سخت خلاف تھے۔ شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے دوہے کہنا شروع کیے جو بہت جلد ہندوستان بھر میں معروف ہو گئے۔ اپنے دوہوں میں وہ بھگتی کے معارف بیان کرتے۔

بھگت کبیر کو ہندو؛ ہندو سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان ان کو ایک ولی کامل کا درجہ دیتے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ میں بھی کبیر کے دوہے اور اشعار شامل ہیں۔ پیدائش کی طرح ان کی وفات کے سن پر بھی مختلف معلومات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ 1448 عیسوی میں فوت ہوئے جبکہ دوسری مضبوط روایت کے مطابق ان کا سن وفات8 151ہے۔ کہتے ہیں جب بھگت کبیر کا انتقال ہوا تو ہندو اور مسلمانوں میں میت کے حصول پر جھگڑا ہو گیا۔ ہندو ان کی لاش کو جلانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان ان کو دفنانے پر بضد تھے۔ اچانک ان کی لاش غائب ہو گئی اور اس کی جگہ چند پھول پائے گئے۔ کچھ پھولوں کو ہندوئوں نے جلا دیا اور کچھ کو مسلمانوں نے دفن کر دیااور قبر بنا دی جو آج تک بھارت کے شہر ماگھر میں موجود ہے۔ عقائد کے لحاظ سے وہ اللہ اور رام دونوں کو مانتے تھے۔ مسجد اور مندر کے وجود کی اہمیت کے قائل نہ تھے۔ خدا کے وجود کو ہر جگہ اور ہر چیز میں تسلیم کرتے تھے۔ ان کے مذہبی فلسفہ کے مطابق انسان کی نجات خدا سے محبت اور انسان سے دوستی میں مضمر ہے۔ ان کے پیروکار کبیر پنتھی کہلاتے ہیں۔ ان کے والد کا نام نیرو اور والدہ کا نام نیما یا نعیمہ تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ جولاہے تھے۔۔ ان کی شاعری میں کئی زبانوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ مشہور تنقید نگار سردار جعفری اپنی ایک تنقیدی کتاب میں بھگت کبیر کو میر اور غالب کے بعداردو کا تیسرا بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔ اردو کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو بھگت کبیر قلی قطب شاہ سے بھی پرانے شاعر ہیں۔ ان سے پہلے امیر خسرو کے علاوہ اور کوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا۔

بھگت کبیر تاریخی کتابوں میں کبیر داس کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا زمانہ سکندر لودھی کا زمانہ تھا۔ سکندر لودھی نے ہی ایک روایت کے مطابق ان کو بنارس سے ماگھر منتقل ہونے کا مشورہ دیااور پھر اختلافات کی بنیاد پرسکندر لودھی نے ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سکندر نے کبیر کو تین مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی لیکن تینوں مرتبہ ناکام ہوا۔ پہلی مرتبہ آگ میں جلا کر، دوسری مرتبہ پانی میں ڈبوکر اور تیسری مرتبہ ہاتھی کے ذریعے کچل کر۔

بھگت کبیر کی عظمت کی گواہ اس کی عوامی شاعری ہے جس میں ہم کو ہندی بھگتی اور اسلامی تصوف دونوں کا رنگ یکجا دکھائی دیتا ہے۔ مذہبی دوہے لکھنے کے باوجود ان کا انداز فکر سیکولر تھاجو انسان کی فلاح و بہبود کا قائل تھا۔ کبیر کی فکر اور فلسفہ ٹیگور، اقبال اور دوسرے کئی اہل قلم کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔​
 

Back
Top