Siasat Phir Kabhi By Khawar Ghuman Article

سیاست پھر کبھی۔۔۔ تحریر : خاور گھمن

pmik.jpg

پوری دنیا کو اس وقت کورونا وائرس کی جان لیوا وباء کا سامنا ہے ، انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی ہو کہ کوئی وباء کسی ایک خطے تک محدود رہنے کے بجائے یکدم پوری دنیا میں پھیل گئی ہو۔

پوری دنیا کو اس وقت کورونا وائرس کی جان لیوا وباء کا سامنا ہے ، انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی ہو کہ کوئی وباء کسی ایک خطے تک محدود رہنے کے بجائے یکدم پوری دنیا میں پھیل گئی ہو۔ تیسری دنیا کے ممالک اپنی جگہ ترقی یافتہ اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے سرکردہ ممالک بھی اس کے مقابلے کیلئے پریشان ہیں۔کئی ملک اپنے تمام تروسائل جھونکنے کے باجود اس کو ر وکنے میں بے بس نظر آتے ہیں ،بعض نے اس پر قابو پانے میں جزوی کامیابی حاصل کی لیکن فیصلہ کن کامیابی ابھی بہت دور ہے۔ حکومت ، اداروں اورعوام کو یہ لڑائی اب ہر سطح پر لڑنی ہوگی۔ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر ، جہاد سمجھ کر، سب کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ورنہ نتائج سوچ سے بھی زیادہ خوفناک اور بھیانک ہوں گے ، کسی کو سمجھ نہیں آتی تو اٹلی کے بعض ویڈیو کلپس دیکھ لے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرح سے اس جنگی کیفیت میں بھی پاکستان میں ایک بار پھر ایک لاحاصل بحث شروع کر دی گئی ہے۔لاک ڈائون ہونا چاہیے یا نہیں ؟ وفاقی حکومت مکمل لاک ڈائون کا اعلان کیوں نہیں کر رہی جبکہ صوبوں نے کر دیا ؟ وفاق کیوں گومگو کی کیفیت میں ہے ؟وزیر اعظم جس کو لاک ڈائون سمجھتے ہیں وہ ٹھیک ہے یا پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تشریح کو اس حوالے سے ٹھیک مانا جائے۔ایک لحاظ سے اگر اختلاف ہے بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت عامہ مکمل طور پر صوبوں کے سپرد ہے اور کورونا وائرس کا معاملہ مکمل طور پر انسانی صحت سے جڑا ہے۔ صوبے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے میں مکمل خود مختار ہیں، ہاں صورتحال بس میں نہ ہو تو وفاق کا فرض ہے کہ صوبوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان نے لاک ڈائون کا فیصلہ لیا تو کیا وفاق نے کوئی قد غن عائد کی ؟ہر گز نہیں بلکہ اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا گیا، پھر اس وقت میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، اس لاحاصل بحث سے کیا نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، میری سمجھ سے تو بالاتر ہے اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس مباحثے میں ہمارے بڑے انتہائی محترم صحافی اور تجزیہ نگار اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ کیا امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ مما لک کو بھی پاکستان جیسی صورت حال کا سامنا نہیں؟ کیامعاشی ، سماجی اور وسائل کے لحاظ سے مستحکم ترین ان ممالک نے یکدم مکمل لاک ڈائون کا ا علان کر دیا؟ ان کیلئے تو لاک ڈائون کا فیصلہ پاکستان جیسے غریب ملک کی نسبت کئی گنا زیادہ آسان تھا ، پھر وہ اس قدر سوچ بچار کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں بتدریج فیصلے کرنے پر مجبور ہیں، ہمارے صحافی بھائیوں اور تجزیہ کاروں کیساتھ عوام کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا۔
الحمد للہ ، پاکستان میں ابھی تک صورتحال اس نہج پر نہیں پہنچی کہ ہم ہاتھ کھڑے کر دیں۔ کورونا وائرس سے اس وقت تک ملک میں ہلاکتوں کی تعداد 7ہے ، ان میں سے بھی4 مریض کینسر کا شکار تھے اور ان کی قوت مدافعت کورونا وائرس کا وار سہنے کی متحمل نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیساتھ قو ی امید رکھنی چاہیے کہ کورونا سے جو تباہ کاریاں چین ، اٹلی اور سپین میں ہوئیں، پاکستان اس سے محفوظ رہے گا لیکن اس سب کیلئے حکومتوں کیساتھ بحیثیت قوم بھی ہمار بڑا امتحان ہے۔ اگر چہ کہ ایسے حالات سے نمٹنے کی ہماری تربیت ہے نہ رویہ لیکن ہمیں اس بار تاریخ رقم کرنا ہوگی۔ ہمیں دنیاکو بتانا ہوگا کہ تیسری دنیا کے ملک پاکستان کے عوام نے کورونا کو اپنے عزم اور قوت ارادی سے شکست دیکر بتا دیا کہ ہم بھی مہذب دنیا کے شہری ہیں۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا یہ حکومت لاک ڈائون کرے نہ کرے ، ہمیں اپنے اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کیلئے ، سیلف لاک ڈائون کی طرف جانا ہوگا۔ کم سے کم14 دن کیلئے خود کو خود ساختہ قید کی طرف لے کر جانا ہوگا ورنہ اگر دنیا کا بہترین صحت کا نظام رکھنے والا اٹلی اپنے شہریوں کی جانیں نہ بچا سکا تو ہمارا بچنا بھی ممکن نہیں۔معجزہ اگر کوئی ہوگا تو انحصار عوام کے ا حساس ذمہ داری پر ہے۔ طبی ماہرین ہوں یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی ، سوشل میڈیا اور وا ٹس ایپ ویڈیوز کے ذریعے ہر کوئی چیخ چیخ کر پاکستانیوں کو یہی پیغام دے رہاہے کہ کورونا مذاق نہیں '' دیکھا جائے گا‘‘ والا رویہ تباہ کن ہو گا۔
وزیر ا عظم عمران خان کی اینکرپرسنزکیساتھ ملاقات سے بھی تقریباً تمام سوالات کے جواب مل چکے ہیں کہ حکومت قدم بہ قدم کیوں آگے بڑھ رہی ہے اور عوام کیلئے کس حد تک ریلیف حکومت کے بس میں ہے۔ وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات پر 15 روپے فی لیٹر کمی سمیت اربوں روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ، دیہاڑی دار اور غریب ترین افراد کی مالی معاونت کیساتھ بجلی اور گیس کے بلوں میں بھی ریلیف ملے گا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ملک میں غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں جبکہ شرح سود میں بھی مزید 1.5 فیصد تک کمی کرتے ہوئے اسے 11 فیصد تک لایا گیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جہاں اپنی اپنی بساط کے مطابق معاشرے کے ہر طبقے کا فوکس صرف کورونا کے مقابلے پر ہونا چاہیے ہماری توجہ کوئی سازش ڈھونڈنے پر مرکوز ہے۔یہ افواہیں پھیلائی جار ہی ہیں کہ اب تک ہونیوالے فیصلے وزیر اعظم آفس میں نہیں بلکہ کوئی اور کررہا ہے۔ پنجاب میں لاک ڈائون کے فیصلے کو لیکر بھی افواہوں کا بازار گرم ہے کہ شاید کہیں سے احکامات براہ راست چیف سیکرٹری پنجاب کو ملے۔
سندھ حکومت کے کورونا وائرس کیخلاف اب تک کے بھرپور اقدامات کی ستائش کیساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان بھی لائق تحسین ہے کہ سیاست کیلئے بہت وقت ہے اس وقت ہمیں مل کر صرف اور صرف کورونا سے ملک کے عوام کو بچانا ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی غفور الرحیم ذات پر مکمل بھروسے کیساتھ ہمیں پوری امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس امتحان میں بھی سر خرو ہوں گے اور ایک باوقار قوم بن کر ابھریں گے لیکن پھر کہوں گا کہ اس کا انحصار حکومتی فیصلوں سے کہیں زیادہ عوام کے طرز عمل پر ہوگا۔ عالمی ادارہ صحت اور حکومت کی جانب سے جاری ا حتیاطی تدابیر کو آئندہ 14دن کیلئے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیں، اس عزم کیساتھ کہ جہاں ہم نے اپنے گھر والوں اور پیاروں کو اس وباء سے بچانا ہے وہیں اس ملک کے ہر شہری کی جان کوبھی عزیز تر رکھنا ہوگا۔​
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top