Afsana Sirat e Ishq by Sibgha Ahmad

Sibgha Ahmad

Sibgha Ahmad

Popular Pakistani
6
 
Messages
1,231
Reaction score
2,705
Points
251
صراطِ عشق
مصنفہ: صبغہ احمد

بابا! میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ "حاصل!" بابا نے ایسے کہا جیسے لفظ "حاصل" کو پہلی بار سنا ہو۔ جوگی بابا نے خبیر کو دیکھ کر زور سے بلکہ تقریباً چلا کر کہا۔ آس پاس بیٹھے مرید اور چند دیگر عامل جو آستانہ سجائے بیٹھے تھے ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ جواباً خبیر نے بھی پر یقین لہجہ اپناتے ہوئے کہا، "ہاں بابا! میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہوں"۔ چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔ میں نے اسے بچپن سے اپنے سامنے دیکھا ہے جیسے وہ میرے لیے لازم ہو۔ بس بابا آپ ایسا دم کر دیں کہ وہ مجھے چاہنے لگے۔ وہ گھر والوں کو میرے بارے میں انکار نہ کرے۔ بابا نے اس پر کچھ پڑھ کر پھونک دیا۔ اس نے بھی جیب سے ہزار ہزار کے چند نوٹ نکالے اور سامنے پڑے ڈبے میں ڈال دیے اور مطمئن ہو کر اٹھ گیا۔ جا بچے! اللہ تجھ پر اپنا کرم کرے، وہ تجھے حاصل ہو۔ بابا نے اس کے الفاظ اسی کو واپس لوٹائے گویا باور کروا رہے ہوں، دیکھ! تو کیا بول گیا۔ مزار سے نکلتے ہی وہ سیاہ مرسیڈیز کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور اگنیشن میں چابی گھمانے لگا۔ گاڑی سیاہ تارکول کی سڑک پر دھواں اڑاتی مزار سے دور ہونے لگی۔ اس کے جاتے ہی ایک عامل، جوگی کے پاس آ بیٹھا اور رازداری سے پوچھنے لگا۔ کون تھا یہ بابا؟۔ تھا ایک ناسمجھ بالک۔ کہتا ہے اسے حاصل کرے گا۔ "ناسمجھ"۔ بابا کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھ بھی چکو، اب تم بچی تو نہیں ہو۔ اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے کیسیے گنواؤں۔ بھائی جی نے ہم پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہے۔ تو اور کیا چاہتی ہے۔ بچپن سے تجھے پالا، تیری ہر خواہش پوری کی۔ اب ان کی باری آئی ہے تو تو نے نظریں پھیر لیں۔
تو کیا کروں امی! ان کے احسانوں تلے لگ جاؤں۔ انہیں سر پر بٹھا لوں کہ انہوں نے مجھ پر احسانِ عظیم کیا ہے۔
چپ کر جا، چپ کر جا! کوئی سن لے گا۔ وہ دونوں اس وقت محلے کی عورتوں کی طرح لڑ رہیں تھیں۔ اور کتنا ستائے گی تو اپنی ماں کو؟۔ پڑھا لکھا ہے، باشعور ہے، اپنا کماتا ہے، فرمانبردار لڑکا ہے۔ دیکھا نہیں کیسے باپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ کوئی اور ہوتا تو ٹھک سے جواب دیتا کہ یتیم لڑکی میرے پلے باندھ دی۔ اب وہ اس کی خوبیاں گنوا کر دوسرا حربہ آزما رہی تھیں۔
ہاں ہاں! کوئی اور کیوں ہوتا یہ احسان صرف وہی کر سکتا ہے خبیر حارث علی۔ وہ ہاتھ نچا کر بولی۔ میں نے آپ سے کہہ دیا ہے امی میں شادی صرف عماز سے کروں گی۔ آخری جملہ اس نے بڑے تحمل اور دھیمے لہجے میں کہا تھا۔ جانے شرم تھی یا بغاوت وہ ماں کے سامنے ایسے ہی بول سکی۔ اور زرینہ بیگم نے ہاتھ ماتھے پر لے جا کر ایسے مارا جیسے قسمت کو کوس رہی ہوں۔
تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے! کیا ہے اس نشئی میں؟ کرتا کراتا کچھ ہے نہیں۔ اس کی ماں تجھے نوکرانی بنا دے گی۔ کیوں نہیں سمجھتی تو آئش! اس سارے میں انہوں نے پہلی بار اس کا نام لیا تھا۔ ان کے لہجے میں اب لجاہت تھی۔ "نشئی" کا لفظ تھا یا انگارا، آئش کو اندر تک سلگا گیا تھا۔ امی وہ نشا نہیں کرتا اور اس کی ڈگری بھی مکمل ہونے والی ہے۔ آپ ایسا نہ کہیں امی، آپ۔۔۔۔
وہ نمناک ہوگئی۔ مزید کچھ بول نہیں پائی بہت کچھ جو وہ بولنا چاتی تھی کہ آگے لحاظ بھی آڑے آتا تھا اور وہ سسکیاں بھی تھیں جو اسے بولنے نہ دے رہی تھیں۔
ٹھیک ہے پڑی رہ کمرے میں۔ شادی تیری خبیر سے ہی ہوگی۔ امی نے حتمی فیصلہ سنایا گویا پھانسی کا فیصلہ اور جس کے بعد قلم کی نب بھی توڑ دی جاتی ہے۔ خاموشی! مزید کوئی بات نہیں۔ عدالت برخاست۔ اس فیصلے نے اس کی زندگی کو تاریکیوں سے بھر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام عماز حیدر، کام سگریٹ نوشی، قد پانچ فٹ سات انچ، تعلیم ایم-بی-اے فائنل ایئر کا اسٹوڈنٹ، بس۔ ہاں بس اتنا ہی اور کوئی خوبی نہیں جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگائے بلکہ پانچواں چاند بھی لگ ہی جاتا اگر مامی اس کے اور آئش کے رشتے کے لیے مان جاتیں۔
وہ بہت پہلے سے سگریٹ نوشی کا عادی نہیں تھا، ہاں کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ بیٹھے ایک آدھ سگریٹ سلگا لی۔ وہ یو۔سی۔پی (یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب) کا پروردہ تھا۔ سگریٹ نوشی وغیرہ یہ سب بہت معمولی نوعیت کا تھا۔ لیکن اسے پتا ہی نہیں چلا کب اس کے عیاش دوست ڈرگز کی لت میں پڑ گئے۔ ایک روز جب عماز نے اپنے دوست آکاش کے پاس سفید پاؤڈر کی پڑیا دیکھی تو پہلے تو اس نے واویلا کیا پھر اسے سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن اس پر تب ہی یہ راز کھلا کہ صرف آکاش ہی نہیں باقی دو دوست بھی ڈرگز لینے لگے ہیں تو اس کی حیرانی اب پریشانی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ یہ الگ بات کہ وہ لاہور کے ایک اعلیٰ ادارے میں زیرِ تعلیم تھے۔ ماحول بھی یورپین ٹائپ ہی تھا۔ مخلوط تعلیم، کبھی کبھی سگرٹ پینا اور کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر مسکراہٹ اچھالنا لیکن وہ اس حد تک نہیں گر سکتا تھا۔ وہ چار دوستوں کا گروپ تھا جس میں عماز بھی شامل تھا۔ جس دن ریڈ پڑی، چیکنگ کے دوران عماز کے بیگ سے تو کچھ نہ نکلا لیکن ان کا گروپ یونی میں مشہور ہونے کی وجہ سے ان چاروں کی گرفتاری کا باعث بنا۔ وہ ایک رات بھی مکمل نہیں تھی جو عماز نے تھانے میں گزاری لیکن ان چند گھنٹوں نے ہی عماز کی زندگی کو نیا موڑ دے دیا۔ خاندان میں آج تک ایسی ذلت کا سامنا کسی کو نہیں ہوا تھا جو عماز کے مقدر میں آئی تھی اور جیسا برتاؤ اب عماز کے ساتھ کیا جاتا تھا اسے پسند کرنا تو دور خاندان والے اس سے بات کرتے بھی سوچتے۔ اس دن کے بعد سے عماز بھی سب سے متنفر ہو گیا۔ یونیورسٹی سے نکالے جانے کا بھی ڈر تھا مگر وہاں ابا کے اثر و رسوخ نے اسے بچا لیا لیکن زندگی میں آنے والی تلخیوں سے اسے کوئی نہ بچا سکا۔ پھر ایک رات عماز نے سڑکوں پر ٹہلتے گزاری۔ اپنی رسوائیوں پر نظر ڈالتے ہوئے، ایک سگریٹ، دوسرا پھر تیسرا اور پھر ایک کے بعد ایک وہ صبح تک لگا تار سگرٹ ہی پھونکتا رہا۔ اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔ اس صبح عماز بہت مشکل سے گھر پہنچا۔ ابا نے ایسی حالت دیکھی تو چار باتیں اور سنائیں۔ نوین بیگم کا تو دل پسیج گیا بیٹے کی ایسی حالت دیکھ کر۔ اس روز کے بعد سے عماز ایک چین اسموکر بن گیا۔ یونی بھی جاتا لیکن اکیلا رہتا اور اسے اکیلا رہنا ہی پڑا کیونکہ یونی میں اب کوئی بھی اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔ وقت اور حالات نے اسے ہر چیز سے نفرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ اسے اب پروہ تھی تو بس آئش کی۔ خاندان میں سب کے رویے کو دیکھتے ہوئے آئش کا ساتھ اب ایک ناممکن سی بات تھی۔ لیکن عماز کے دل میں آئش کی محبت کا دیا جلتا ہی رہا کبھی نہ بجھنے کے لیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف تھی آئش سلیمان علی تھی، فیشن ڈیزاننگ کے دوسرے سال میں۔ وہ بھی ان چند لڑکیوں میں سے تھی اور اس کی سہیلیوں کے بقول وہ واحد لڑکی تھی جسے اپنی پھوپو کا بیٹا پسند تھا اور صرف پسند کی حد تک بات ہوتی تو چل جاتا۔ وہ تو اس سے محبت بھی کرتی تھی اور تھوڑی نہیں بہت زیادہ کرتی تھی اور اب جیسا کہ شفقت کا ہاتھ اس کے سر پر رکھ ہی دیا گیا تھا تو وہ کیسے مان جاتی۔ وہ ان کے احسانات کی معترف تھی، اور بہت زیادہ تھی لیکن وہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ جس میں اس کی پسند بھی شامل نہ تھی ان کو کیسے کرنے دیتی۔ آئش سلیمان علی کا ہاتھ نہیں گویا اس کی سانسیں مانگ لی گئیں تھیں۔
احمد علی منزل کے نچلے پورشن میں حارث علی اپنی بیوی عارفہ اور دو بچوں خبیر اور علوینہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے جبکہ دوسرے پوشن میں سلیمان علی اپنی بیوی زرینہ اور اکلوتی بیٹی آئش کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی ایک ہی بہن تھی نوین جس کی شادی یہیں لاہور ہی میں ہوئی تھی۔ نوین کے دو بچے تھے بڑا بیٹا عماز اور چھوٹی بیٹی منال۔ ویک اینڈ پر جب نوین بچوں کے ساتھ اپنے مائیکے آتیں تو خوب رونق لگتی۔ آئش دو سال کی تھی جب سلیمان علی ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے۔ ان کی فیملی کے نام پر اب صرف زرینہ بیگم اور آئش رہ گئ تھیں۔ دوسرے پورشن پر یک دم سناٹا چھا گیا تھا پہلے جو آئش کی کلکاریاں اور شور پورے گھر میں رقصاں تھا تو اب وہ معدوم ہو گئی تھیں۔ آئش نے چپ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ چونکہ ان کا گھرانہ نمازی پرہیزی اور اللہ سے ڈرنے والا تھا اس لیے یتیموں کا مال کھانا یا اکیلی بھابی کو دیکھ کر ان کا جینا حرام کر دینا اس گھر کے لوگواں کا خاصہ نہ تھا۔ سو حارث علی نے کوئی مداخلت نہ کی۔ سلیمان علی کے نام گھر اور دوکان کا جو حصہ تھا وہ زرینہ کے پاس ہی رہا۔ دوکانوں ںسے آنے والا کرایہ اتنا تھا کہ ان کا گزربسر با آسانی ہو رہا تھا۔ لیکن آئش باپ کی کمی کو واضح محسوس کرتی تھی۔ البتہ عماز اور منال کے آجانے پر پورے گھر میں بچوں کا شور ہوتا یوں آئش کا دل بھی بہل جاتا۔ پھولے گالوں والی چھوٹی سی آئش عماز کو بہت اچھی لگتی تھی۔ وقت گزرتا رہا آئش اور عماز اچھے دوست بن گئے تھے وجہ یہ تھی کہ عماز آئش کے کے لیے چاکلیٹ اور کاٹن کینڈی لایا کرتا تھا۔ علوینہ سے اکثر اس کی لڑائی ہو جایا کرتی تھی۔ علوینہ کی نسبت آئش کم گو تھی۔ آئش کے پھولے پھولے گال اور معصوم چہرہ عماز کو بھا گیا تھا۔ آئش کو بھی عماز کا دوستانہ رویہ بڑا خوش کن محسوس ہوتا تھا اب وہ ہر ویک اینڈ کا بے صبری سے انتظار کرتی تھی اور ساتھ ہی ان تحائف کا جو عماز اس کے لیے لاتا تھا۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا نتیجتاً اپنے سے تین سال بڑا عماز حیدر، آئش سلیمان علی کی پسند بن گیا اور جلد ہی یہ پسند چاہت میں بدل گئی۔
خبیر حارث علی تو اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا تھا بس پورشنز الگ تھے لیکن آئش زیادہ تر نچلی منزل میں ہی پائی جاتی تھی،کبھی خبیر سے کھلونے لیتے ہوئے کبھی علوینہ سے کھیلتے ہوئے کبھی تایا جی سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے ہوئے تو کبھی تائی اماں سے دو پونیاں بنواتے ہوئے۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ہمہ وقت خبیر کی موجودگی کی وجہ سے آئش کے نزدیک اس کی پسندیدگی ماند پڑ گئی اور کبھی کبھی آنے والے عماز کا وہ اکثر انتظار کرنے لگی۔
یہ ایسی ہی ایک سرمئی شام تھی۔ ہفتے کی شام، عماز اور منال نوین کے ساتھ آئے تھے۔ سارے بچے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے کا ارادہ رکھتے تھے جبکہ خبیر کو ہمیشہ سے فٹ بال کھیلنا پسند رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا آئش اس کی ٹیم میں رہے۔ وہ آئش پر ایسے حق جماتا تھا جسے آئش اس کا خود کا خریدا ہوا کھلونا ہو۔ وہ ہمیشہ یہی گمان کرتا کہ وہ اور آئش ایک گھر میں ہی رہتے ہیں تو آئش پر صرف اس کا ہی حق ہے۔ وہ بھاگتا ہوا گراؤنڈ میں آیا تھا۔ آؤ آئش! فٹ بال کھیلیں۔ نہیں، میں تو عماز کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جا رہی ہوں۔ آئش کا جواب آیا تھا۔ لیکن تمہیں میرے ساتھ آنا چاہیئے۔ خبیر نے مضبوط لہجے میں کہا۔ اچھا! آئش نے کچھ سوچا۔ لیکن عماز نے مجھے چاکلیٹ بھی دی ہے خبیر بھائی۔ وہ خبیر کے ساتھ بھائی لگانے کی عادی تھی۔ علوینہ کو بھائی کہتا سن کر وہ بھی اسے بھائی ہی کہا کرتی تھی۔ لیکن فی الوقت خبیر اس بات پر دھیان نہیں دیتا تھا۔ اور فی الحال چودہ سال کی عمر میں اپنے سے پانچ سال چھوٹی بچی سے خبیر کو اس طرح کا مسئلہ نہیں تھا۔
"اور اگر میں تمہیں دو چاکلیٹ دوں تو"۔ خبیر نے بازی پلٹنا چاہی۔ "ٹھیک ہے!!!" خبیر بھائی۔ آئش نے اتنی زور سے کہا کہ اس کی پونی ٹیل بھی آگے کو جھول گئی۔ اب وہ بازی پلٹ چکا تھا۔ لیکن اس سب سے آئش اور عماز کی دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا کیونکہ اس شام عماز نے بھی ان سب کے ساتھ فٹبال کھلینے کو ترجیح دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور وہ بچے اپنا بچپن چھوڑ کر جوانی کی دہلیز پر آ کھڑے ہوئے۔ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہوا خبیر حارث علی آج ایک بزنس مین تھا۔ آئش اور علوینہ جی۔سی یونیورسٹی لاہور سے فیشن ڈیزائننگ میں ماسٹرز کر رہی تھیں۔ وہ "راوین" کہلاتی تھیں (جی۔سی یونیورسٹی لاہور میں پڑھنے والے "راوین" کہلاتے ہیں کیونکہ دریائے راوی، یونیورسٹی سے چند میل کے فاصلے پر ہی بہتا ہے)۔ عماز البتہ فائنل ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا اسے ابھی اپنا کیریئر بنانا تھا۔
سب اچھا چل رہا تھا۔ زندگی اپنی منزل پہ رواں دواں تھی۔ عماز ، آئش کے گھر بھی آتا تھا اور ہر بار اس کے لیے کچھ نہ کچھ خرید لاتا، اس کے بدلے اسے صرف آئش کی مسکراہٹ درکار تھی۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور آئش وہ تو اس کے تصور سے ہی خوش ہو جایا کرتی تھی کجا کہ عماز کا گھر آنا اور آئش سے باتیں کرنا۔ ان دونوں نے کبھی اپنے منہ سے اظہارِ الفت نہیں کیا تھا لیکن وہ دونوں ہی جانتے تھے وہ ایک دوسرے کے لیے کس طرح لازم ہیں۔ کس کے دل کی دھڑکن کس کو دیکھ کر کون سا ساز چھیڑتی ہے اور کب دھن بجاتی ہے وہ دونوں ہی اس بات سے آشنا تھے۔ جانتا تو خبیر بھی بہت کچھ تھا لیکن اس کے جاننے میں صرف یہی چیز اہم تھی کہ آئش ان کے ساتھ رہتی ہے، وہ ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ ایک ہی کھلونے سے کھیلے ہیں تو پھر آئش کے اتنے نزدیک ہوتے ہوئے وہ اس سے دور کیسے ہو سکتی ہے۔ آئش پر صرف اس کا حق ہے۔ وہ صرف اسی کی ہے، خبیر حارث علی کی۔ وہ تو دن رات آئش کے ساتھ رہا۔ اس کی پڑھائی میں مدد کرتا۔ گھر آتے ہوئے اس کے لیے گول گپے لاتا، دل کرتا تو وہ، آئش اور علوینہ باہر آئسکریم کھانے بھی چلے جاتے۔ یوں تو سب مطمئن تھے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں سارے معاملات طے ہوتے گئے اور پھر اچانک سب اچھا ہوتے ہوتے بہت کچھ برا ہو گیا جو کہ گھر کے بڑوں کے نزدیک خالصتاً اچھا ہی تھا۔ مگر آئش کے لیے تو یہ سزائے موت کے فیصلے کے مترادف تھا۔ بہت مشکل ہو جاتا ہے ایک ان چاہے فرد کو اپنانا حتیٰ کہ اپنا کہنا ہی اگر دوسری طرف "وہ" کھڑا ہو جس سے آپ کی سانسوں کی ڈوری بندھی ہو۔ خبیر حارث علی نے بالآخر آئش کے لیے شادی کا عندیہ دے دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئش بہت خوبصورت نہ تھی لیکن اس کے پھولے ہوئے گال اس کے چہرے کی دل کشی کا باعث تھے۔ جب وہ ہنستی تو دائیں اور بائیں گال پر پڑنے والے گڑھے اس کی مسکراہٹ کا ساتھ دیتے۔ عماز کی رنگت بھی سانولی سی تھی لیکن مرد ہمیشہ دلکش ہی لگتا ہے خاص کر وہ مرد جس سے آپ محبت کرتے ہوں، سوٹڈ بوٹڈ رکھ رکھاؤ والا اور پھر یونیورسٹیوں میں پڑھتے ٹشن تو آ ہی جاتا ہے۔ عماز بھی انہیں خوبیوں کے ساتھ خوبصورت تھا۔ نہ بھی ہوتا تو بھی آئش کو اس سے محبت تھی جو ان سب چیزوں کی محتاج نہ تھی اور لاہور کے ایک پوش علاقے میں بنے اس دو منزلہ خوبصورت سے گھر میں رہنے والی ایک پھولے گالوں والی پیاری سی لڑکی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ مرد تو صرف وہ اچھا لگتا ہے جو من چاہا ہو، نہ کہ ان چاہا۔ عماز بھی آئش کا من چاہا تھا۔ کھیل میں بھی وہ ہمیشہ عماز کی پارٹنر بنتی۔ وہ اس کے ساتھ ہی جچتا تھا تو اب کیسے ممکن تھا کہ اصل زندگی میں وہ کسی اور کو پارٹنر بنا لیتی۔ وہ مر نہ جاتی۔ وہ شخص تو اس کی روح میں بستا تھا۔ وہ "ٹین۔ایج کا لو" نہیں جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا۔ وہ تو بچپن سے لے کر اب تک آہستہ آہستہ پھیلنے والی امربیل کی طرح تھا جس نے اس کے وجود میں اپنی جڑوں کو مضبوط کر لیا تھا۔
خبیر حارث علی ایک نام جو اس گھر کے مکینوں کی شان تھا۔ ایک کامیاب انسان۔ شہزادہ تو "وہ" تھا سب کے نزدیک، ہاں وہ وہی تھا خبیر حارث علی خوبصورتی کا شاہکار، کھڑی ناک اور کشادہ پیشانی کے ساتھ کسی سلطنت کا شہزادہ۔ مسکراتا تو ایسا لگتا لوگوں کو اپنی مسکراہٹ سے زیر کر لے گا اور پھر ایسے میں اگر اسے آئش سلیمان علی سے محبت ہو گئی تھی تو یہ سب کے لیے خوش آئند بات تھی یہ جانے بنا کہ آئش کو وہ پسند بھی ہے یا نہیں اور اس بات پر غور ہی کب کیا جاتا ہے بس احسان کیا جاتا ہے رضامندی پوچھ کر لیکن فیصلہ تو وہ خود ہی کریں گے وہ جو گھر کے بڑے ہیں پھر چاہے آپ ایڑیاں رگڑ لیں۔ کیا اسلام نے اجازت نہیں دی کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو پسند کا اختیار دیا جائے؟ پر یہاں صرف لڑکے کی پسند ہی ہے جو فوقیت لے جاتی ہے اور پھر سب تو تھا اس کے پاس اچھی شکل، اچھی نوکری، اچھا گھر اور اب وہ اچھی لڑکی کو بھی پانا چاہتا تھا تو بلاشبہ اس کے لیے اس اچھی لڑکی کی خواہش جاننا ضروری نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کے لیے لان میں آ گئی۔ رات کے آسمان پر ابر کی سیاہی تھی۔ کہیں اکادکا ستارے بھی نظر آ جاتے۔ چاند کبھی بادل کی اوٹ میں چھپ جاتا تو کبھی سامنے آ کر اپنی چاندنی بکھیرتا۔ وہ ٹھنڈی گھاس پر جوتے اتار کر چلنے لگی۔ گاہے بگاہے آسمان پر ٹمتماتے ستاروں کو بھی دیکھ لیتی لیکن ذہن ماں کی باتوں میں اٹکا ہوا تھا۔ "خبیر اچھا لڑکا ہے گھر کا دیکھا بھالا، اچھا کماتا اور کھاتا ہے۔ سب کچھ تو ہے اس کے پاس تمہیں اور کیا چاہیئے"۔
"مجھے اور کیا چاہیئے"، وہ خود کلام ہوئی ۔ خبیر کے پاس سب کچھ ہے لیکن اس کے پاس آئش نہیں ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔ جس کے لیے وہ اپنا سب کچھ ببیچ سکتا ہے۔ چاند اس کی بات پر مسکرانے لگا، ستاروں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ اس کے پاس نوکری ہے زیادہ پیسہ ہے لیکن اس کے پاس آئش کی محبت نہیں ہے تو بتاؤ کون امیر ہوا؟۔ بادلوں نے اپنے کان لگائے اور ساتھ ایک ستارے نے پوچھا کون؟ عماز!!! ہاں وہی سب سے زیادہ امیر ہے کیوں کے اس کے پاس آئش ہے۔ "وہ" جس کے لیے خبیر اپنا سب کچھ ببیچ سکتا ہے۔ بادل، چاند اور ستارے اس کی بات زور سے ہنسنے لگے۔ شاید خبیر کی بیچارگی پر یا عماز کی بد نصیبی پر جو "امیر ترین غریب" تھا۔ ہوائیں تو خبیر کے ساتھ تھیں۔ وہ اسی کے رخ پر چل رہی تھیں تو ہواؤں کو ان کی باتیں بری لگیں۔ یک دم تیز ہوا چلنے لگی۔ بارش کے پہلے قطرے نےاس کے گال کو چوما۔ آندھی بھی چل رہی تھی اور تیز بارش کے امکان تھے۔ وہ جلدی سے اندر کی طرف بھاگی۔اندر آئی تو لاؤنج میں عارفہ بیگم نکاح کا جوڑا پھیلائے بیٹھی تھیں۔ بلڈ ریڈ کلر پر نفیس گولڈن کام بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ وہ نظر بچاتی اپنے کمرے میں آ گئی۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ ریک مں پڑی کتابیں دیھکنے لگی پھر ایک کتاب نکال کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھی جب زرینہ اسے آوازیں لگاتیں کمرےمیں آ گئیں۔ زرینہ ساتھ ہی آ کر بیٹھ گئیں۔ اس نے کتاب سے نظریں نہ ہٹائیں جیسے یہ سب سے اہم کام ہو۔ بیٹا اس بڑی عید کے بعد تمہارا خبیر کے ساتھ نکاح ہے۔ بمشکل ایک ہفتہ ہی رہتا ہے۔ وہ ایسے بتا رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں "لو بیٹا! چائے پی لو"۔ آئش ان کی بات سن کر برف کی گڑیا بن گئی تھی جو آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی لیکن منجمد تھی۔ آئش نے ہنوز نظریں نہ اٹھائیں۔ آئش میں تم سے بات کر رہی ہوں۔ زرینہ نے ایک دفعہ پھر کہنا شروع کیا۔ تم علوینہ کے ساتھ کل بازار چلی جانا جو لینا ہو لے لینا اور پھر دن ہی۔۔۔۔ امی میں خبیر سے شادی نہیں کروں گی۔ اس نے زرینہ کی بات کاٹ کر کہا۔ میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکی ہوں کچھ میرا بھی خیال کریں۔ وہ رو دینے کو تھی۔ کیا خیال کروں میں ہاں کیا خیال کروں۔ زرینہ گویا بھڑک اٹھیں۔ تیرے خیال کو بھائی جی کے خیال پر ترجیح دے دوں۔ کیا تو نہیں جانتیں انہوں نے ایک باپ کی طرح تیرا خیال رکھا ہے۔
جانتی ہوں سب جانتی ہوں میں۔ آئش کے ذہن میں آج بھی سب نقش تھا۔ تاریخ کے جھروکوں سے ایک دریچہ وا کر کے دیکھا تو منظر واضح ہوتا چلا گیا۔ امی امی۔۔۔ آئش اور وہ دونوں بہن بھائی ٹی۔وی لاؤنج میں بھاگے بھاگے آئے تھے۔ آئش کی آواز سب سے اونچی تھی۔امی دیکھیں! میں فرسٹ آئی ہوں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹرافی دکھائی لیکن زرینہ بیگم نے مسکراتے ہوئے رزلٹ کارڈ پکڑ لیا تو اسے یاد آیا کہ اس پر سگنیچر بھی کروانے ہیں۔ امی اس پر سائن بھی کر دیں لیکن ٹیچر نے بولا ہے بابا اور ماما دونوں کے سائن۔ آئش نے نا سمجھی سے کہا۔ کوئی بات نہیں بیٹا میں دونوں جگہ کر دیتی ہوں۔ لیکن ماما آپ دونوں جگہ کیسے کر سکتی ہیں۔ آئش میں آپ کی ٹیچر سے بات کر لوں گی۔ زرینہ نے جیسے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
لاؤ میں اپنی بیٹی کے رپورٹ کارڈ پر سائن کر دوں۔ تایا ابا نے آئش کو اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔ واؤ! تایا ابا یو آر گریٹ۔ میرے تایا ابا سب سے اچھے ہیں۔
آئش کن سوچوں میں گم ہو۔ زرینہ کی آواز نے آئش کو ماضی کی یادوں سے نکالا۔ کیوں میری عزت کا جنازہ نکالنا چاہتی ہو۔
کیوں کہ میں عماز سے ہی۔۔۔۔۔۔ بات اس کے منہ میں ہی رہ گئی تھی جب زرینہ کا ہاتھ اٹھا تھا اور آئش کا گال لال کر گیا تھا۔ اب یہ بات زبان سے مت نکالنا۔ اس کمرے کے باہر تمہاری آواز گئی تو مجھے اپنی ماں مت کہنا۔ سمجھی تم۔ زرینہ کہہ کر کمرے سے نکل گئیں۔ اور آئش کا دل چاہا وہ چیخ چیخ کر بتائے سب کو کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ یہ کہ وہ خبیر کو کسی صورت اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
میرے باہر جنگل تھا
اور میرے اندر آگ
آگ نکالوں سب جل جائے
آگ چپھالوں خود جل جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔ رات کے بعد دن ایسے چڑھتا جیسے کوئی پھرتیلا مزدور ایک کے بعد ایک اینٹ تیزی سے اٹھا کر رکھ رہا ہو۔ وہ دن بھی آ گیا جس کے لیے آئش کی دعا تھی کہ کاش وہ تاریخ سے حذف ہو جائے۔ عید بھی اداس گزری تھی۔ اس بار وہ تینوں کہیں باہر گھومنے بھی نہیں گیے تھے۔ تایا تائی نے بھی یہں سمجھا کہ اب وہ شرما رہی ہے خبیر کے ساتھ جانے میں۔ جب کہ وہ تو اپنی خوشیوں کا ماتم منا رہی تھی ایسے میں عید کہاں مناتی۔
تائی امی اور علوینہ نکاح کا جوڑا دینے آئی تھیں۔ زرینہ بھی ساتھ ہی کھڑی تھیں۔ تائی امی نے آئش کے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا دیتے ہوئے جوڑا اس کی طرف بڑھا دیا۔ آئش یہ تمہارے نکاح کا جوڑا ہے۔ امید کرتے ہیں تمہیں پسند آئے گا۔ علوینہ تمہیں تیار ہونے میں مدد کرے گی اور بیوٹیشن کو بھی بلوایا ہے ہم نے۔ سدا خوش رہو۔ آئش سر جھکا کے بیٹھی ہوئی تھی۔ تائی امی اس کی بلائیں لیتی جانے لگیں۔ اچھا زرینہ ہم کام دیکھ لیں۔ شادی والے گھر میں تو کام آخری دن تک ختم نہیں ہوتے۔ آہستہ آہستہ سب کمرے سے نکل گیے۔ اسے محسوس ہوا وہ اکیلی رہ گئی ہے۔ اکیلی اور کمرہ نشین۔ اسی وقت اس کے فون پر رنگ ہوئی۔ کوئی غیر شناسا نمبر تھا۔ اس نے کال پک کی اور جو آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی وہ اس کے ضبط کیے ہوئے آنسو چھلکا گئی۔ وہ بلاشبہ عماز کی آواز تھی۔ اس نے کئی بار اسے کال کرنے کوشش کی تھی لیکن اس کا نمبر بند ملتا اور اب نکاح والے روز اس کی کال آئش کے جذبات اور ضبط پر پانی پھیر گئی تھی۔
عماز!!!!۔۔۔۔ آئش نے سسکیوں اور ہچکیوں میں اس کا نام لیا تھا۔ کیسی ہو؟ وہ معمول کی طرح پوچھتا اس کے دل کو کچوکے لگا رہا تھا۔
سلام دعا نہ ہی حالِ دل پوچھا
شاید یہ آخری مظالم تھے۔۔۔۔۔۔۔
بتاؤ! کیا تحفہ لاؤں تمہارے لیے۔ تمہیں کاٹن کینڈی بہت پسند ہے نا۔ آئش کے رونے میں اضافہ ہوا تھا۔
اچھا رونا نہیں! میں آؤں گا آئش۔ میں جانتا تم کس کرب سے گزر رہی ہو لیکن آئش میں بھی اسی تکلیف اور کرب سے گزر رہا ہوں۔ تم یہ مت سمجھنا میں بے وفا ہوں۔ ہمارے درمیان کبھی
بھی چاہت کی بات نہیں ہوئی میں سمجھتا ہوں یہ لفظ بہت چھوٹے ہیں، بہت عام۔ تمہارے اور میرے درمیان جو ان مٹ رشتہ ہے اسے بیان کرنے کے لیے۔ میں جانتا ہوں تمہاری آنکھوں میں چمکتے ستارے صرف میرے لیے ہیں۔ آج میں تم سے کہتا ہوں آئش جو میں نے کبھی نہیں کہا۔ "تم صرف میری ہو۔ صرف میری ہو آئش"۔ میں پورے خاندان میں بدنام سہی۔ مجھے اپنی عزت کی پروہ بھی نہیں لیکن میں تمہاری عزت نیلام نہیں کرنا چاہتا۔ میں تم سے یہ کبھی نہیں کہوں گا کہ میرے ساتھ بھاگ چلو۔ میں تم سے صرف محبت ہی نہیں کرتا۔ میں تمہیں عزت بھی دینا چاہتا ہوں آئش۔ یہ پہلی بار تھا جب ان کے درمیان لفظِ محبت" استعمال ہوا تھا۔ اس سے پہلے وہ احساسات تک ہی اس جذبے کو قائم کیے ہوئے تھے۔ تم بڑے ماموں کو اس نکاح کے لیے انکار کر دو آئش۔ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ میں مامی سے تمہارا ہاتھ مانگ لوں گا۔ میں ان کے آگے ہاتھ جوڑ دوں گا۔ تمہارا نکاح میرے ساتھ ہی ہوگا۔ وہ ایسے کہی رہا تھا جیسے "مستقبل قریب" کا حال جانتا ہو۔
میں کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی۔ کہتے ہوئے وہ مسلسل رو رہی تھی لیکن میں اتنی ہمت کہاں سے لاؤں۔ میں تایا ابا سے کیسے کہہ دوں میں ان کے بیٹے سے شادی نہیںں کرنا چاہتی۔ جنہوں نے مجھے باپ جیسی شفقت دی۔ میں کیا کروں عماز، مجھے لگتا ہے جیسے کوئی آہستہ آہستہ چھری سے میرا دل کاٹ رہا ہو۔ اور جلد ہی سانسیں بند ہو جائیں گی۔ مجھے اندھے کنویں میں پھینک دیں گے سب۔ سسکیوں میں اس کی آواز گھٹ رہی تھی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی شاید زرینہ تھیں۔ آئش نے فون ڈسکنیکٹ کر دیا۔
ایک شام آ جاؤ، کھل کے حالِ دل کہہ لیں
کون جانے سانسوں کی مہلتیں کہاں تک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہمان آنا شروع ہوگیے تھے۔ دور پار کے رشتہ دار دور دن پہلے ہی آ گئے تھے۔ قرب جوار کے دوپہر سے آنا شروع ہوئے تھے۔ نکاح کی تقریب کے انتظامات لان میں کیے گئے تھے۔ لان کو برقی قمقموں اور آرائشی لائٹوں سے سجایا گیا تھا۔ اسٹیج کی سجاوٹ سب سے اعلیٰ تھی جہاں گلابوں اور کلیوں کے گلدستے لگائے گئے تھے۔
بیوٹیشن آئش کو تیار کر کے جا چکی تھی۔ لال گال، روئی روئی آنکھیاں اور متورم ناک پر میک اپ اور جیولری نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ وہ آج سے پہلے اتنی خوبصورت نہیں لگی تھی۔ یہی وہ خاص دن ہے جو ایک "عروس" کے چہرے کو "نور" بخش دیتا ہے۔ علوینہ اس کا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔ درمیان میں خبیر بھی آواز لگا لیتا۔ اسے کبھی جوتے نہ ملتے تو کبھی کف لنک۔ علوینہ سہی معنوں میں گھن چکر بنی ہوئی تھی۔ وہ اس گھر کی واحد لڑکی تھی جس پر کافی ذمہ داریاں تھیں کیونکہ دوسری کی تو شادی تھی۔ سب مہمان آچکے تھے یہاں تک کہ پھوپو کی فیملی بھی۔ اسے خیال آیا کہ وہ دشمنِ جاں بھی آیا ہوگا۔
خاندان میں عماز کو جس رسوائی کا سامنا تھا اس کے پیشِ نظر وہ کبھی نہ آتا لیکن یہاں بات اس کی "جان" کی تھی۔ وہ اس کی جان ہی تو تھی۔ سوچ کر ہی اس کی سانسوں کی مالا ٹوٹنے لگتی۔ وہ بھلا کیسے دیکھ سکتا تھا اسے کسی اور کا ہوتے ہوئے۔
آئش کا دوپٹہ سرک گیا تھا۔ علوینہ اسے پنز کے ساتھ سیٹ کر رہی تھی لیکن آئش تو کہیں اور ہی گم تھی۔ عماز کی یادوں میں۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھی عماز لوگ گھر آئے ہوئے تھے اور وہاں ان کا بادشاہی مسجد جانے کا پلان بنا تھا۔ وہ پانچوں وزٹ کرنے گئے تھے۔ آئش ہر مینار کے گرد گھوم گھوم کر خوش ہو رہی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا دوپٹہ سر سے سرک کر گلے میں آ گیا تھا۔ عماز نے فوراً آگے بڑھ کر دوپٹہ اس کے سر پر ٹکا دیا تھا۔ اسے پسند نہیں تھا کہ اس کے بالوں پر کسی غیر کی نظر پڑے۔ آئش نے اسے دیکھا اور پھر دوپٹے پر ایک سائیڈ سے گرفت مضبوط کر لی۔ وہ دوبارہ دوپٹے کو سر سے گرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ آئش ان ہی یادوں میں گھری تھی جب زرینہ بیگم اندر آئیں اور اسے دیکھتے ہی اس کی نظر اتارنے لگیں۔ میری بیٹی آج بہت پیاری لگ رہی ہے۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔ چلو بیٹا! باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔ ایک آنسو تھا جو ٹوٹ کر گال پر پھسل گیا تھا، آئش نے بہت مشکل سے آنسوؤں پر بند باندھا۔ زرینہ بیگم اور علوینہ آئش کو اسٹیج تک لے کر آئیں۔ آئش نے گھونگٹ نکالا ہوا تھا۔ اسے خبیر کے برابر بٹھا دیا گیا۔ خبیر ہمیشہ کی طرح بہت پیارا لگ رہا تھا۔ آف وائٹ شیروانی جس پر گولڈن دھاگے کی کڑھائی تھی اس پر بہت چج رہی تھی سر پہ رکھا ہوا کلا اس کی شان میں اضافہ کر رہا تھا۔ وہ بلا کا خوبصورت تھا۔ کلین شیو میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ایک الوہی چمک تھی جو اس وقت اس کے چہرے پر تھی، آئش کو پا لینے کی چمک جو اس کے چہرے پر روشنی بکھیرے ہوئی تھی۔ اسی اثنا میں مولوی صاحب آ گئے۔ انہوں نے نکاح کے کلمات بولنا شروع کیے۔ آئش کو لگا یہ آخری لمحہ اس کے بعد وہ مر جائے گی۔ اس کے کان میں لاوا انڈیلا جا رہا تھا۔ "آئش سلیمان علی ولد سلیمان احمد علی کیا آپ کو خبیر حارث علی ولد حارث احمد علی سے بعوض حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے"۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔ مولوی صاحب نے سوال دہرایا۔ وہ سوال ایسا تھا جس کا جواب آئش کو آتا تھا نہ وہ دینا چاہتی تھی۔ سامنے کھڑے عماز کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ گھونگٹ کے نیچے سے صرف اس کے جوتے نظر آ رہے تھے۔ وہ آئش کے عین سامنے تھا۔ مولوی صاحب نے سوال دہرایا دوسری بار پھر تیسری بار لیکن کوئی جواب نہ آیا تو زرینہ آگے بڑھیں۔ بولو بیٹا! مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں۔ اس کے ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے۔ پھر جیسے اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک بار پھر پوچھا، کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟۔ "نہیں!" آواز میں تیزی تھی۔ کتنی ہمت مجتمع کرنی پڑی تھی اس ایک لفظ کو کہنے کے لیے۔ خبیر اپنی جگہ پتھر کی سل بن گیا تھا۔ وہ کچھ کہہ ہی نہیں سکا کہ ایسا کیوں؟۔۔۔ اسے تو پورا یقین تھا کہ وہ آج آئش سلیمان علی سے آئش خبیر حارث علی بن جائے گی لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مولوی صاحب حارث علی کا منہ دیکھنے لگے۔ مہمانوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ زرینہ فوراً سے آش کے قریب ہوئیں۔ آئش کیا کہہ رہی ہو یہ۔
مامی آئش، خبیر سے شادی نہیں کرے گی۔ میں آپ سے آئش کا ہاتھ مانگتا ہوں۔ یہ عماز کی آواز تھی۔ اسے ابھی آئش کو حوصلہ دینا تھا کہ وہ آئش کے ساتھ ہے اس کا ہم نوا۔
عماز!!!۔۔۔۔۔ خبیر کی آواز بلند ہوئی تھی۔ وہ عماز کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کو تیار تھا۔ حارث علی نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ لمحوں میں منظر تبدیل ہو گیا۔ سب ایسے دیکھ رہے تھے جیسے یہ آئش کا سنو پلے ہو اور وہ ابھی اٹھ کے کہے گی۔۔ تایا ابا میں نے اچھی ایکٹنگ کی نا۔ سب ہی اپنی جگہ حیران تھے۔ محفل برخاست ہوگئی لوگ گھروں کو جانے لگے۔ ادھر کس نے کیا بات کی، کس نے کونسا الزام لگایا اور اسے کونسا طعنہ دیا آئش کو کوئی علم نہ تھا۔ اس نے کان بند کر لیے تھے۔ ذہن میں بس ایک ہی لفظ تھا۔۔۔ "نہیں!"۔
بیٹھک گویا کمرہ عدالت بنی ہوئی تھی اور تایا ابا جج۔سزا آئش کو سنائی جانی تھی اور سولی پر عماز لٹکا ہوا تھا۔ تایا ابا ساری حقیقت جان چکے تھے۔ تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا زرینہ اگر بچی نہ مانتی تھی تو؟ زرینہ شرمندگی سے زمین میں گڑ گئیں۔ کیسے بتاتی بھائی جی، آپ کے احسانات کم ہیں کیا۔ کیسے آپ کا مان توڑ دیتی جس مان سے آپ نے آئش کا ہاتھ مانگا۔ خبیر چپ چاپ ہاتھوں میں ہاتھ پھنسائے بیٹھا تھا۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
ماموں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ پلیز آئش کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دی دیں۔ تم چپ رہو عماز! نوین آگے بڑھیں۔ اسے بولنے دو نوین۔ حارث علی نے گویا اسے اجازت دی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ماموں میں آئش کو خوش رکھوں گا۔ وہ یہ نہ کہہ سکا کہ میں آئش کے بغیر مر جاؤں گا۔ بھائی جان میں آپ سے معافی مانگتی ہوں اس لڑکے نے مجھے دکھی کیا ہوا۔ کدھر جاؤں میں اپنی قسمت کا رونا لے کر۔ نوین رو دینے کو تھیں۔
امی پلیز! عماز نے انہیں التجائی نظروں سے دیکھا۔
نوین تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں عماز کا مطالبہ قبول ہے۔ آئش نے بے یقینی سے تایا ابا کو دیکھا۔
لیکن اس شرط پر کہ آئش دوبارہ اس گھر میں داخل نہیں ہو سکے گی۔ انہوں نے جملے کی دوسری کڑی جوڑی۔ کیوں آئش بیٹا یہی چاہتی تھی نا تم۔ آئش نے پھٹی پھٹی نظروں سے تایا ابا کو دیکھا۔
نکاح اگلے ہفتے ہوگا اور اسی دن ہوگا لیکن اب فیصلہ آئش کو کرنا ہے۔ عماز کے ساتھ جائے گی تو ہم سے کسی تعلق کی امید نہ رکھے۔ تایا ابا نے اٹھتے ہوئے کہا۔ عماز ایک جھٹکے سے اٹھا اور کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے باہر نکل گیا۔ آئش ماتم کناں تھی۔ اپنے کمرے میں آ کر اس نے چٹخنی چڑھا لی۔ اب وہ ایک ایک چیز اتار کر پھینک رہی تھی پھر دیوار کے ساتھ لگ کر نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ اب وہ رو نہیں رہی تھی بس آنسو تھے جو آنکھ کا پردہ ہٹا کر بہتے چلے جا رہے تھے۔ وحشت سی تھی جو اس کے اندر بھر گئی تھی۔ کبھی کبھی قسمت بہت قریب آ کے آپ کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ اس میں قصور قسمت کا نہیں ہوتا۔ اس میں قصور سراسر آپ کا ہوتا ہے کیوں کہ اپنی قسمت سے امیدیں لگانے والے آپ خود ہوتے۔ اچھا گمان ضرور کرنا چاہیئے لیکن برا ہونے پر کنارہ کر لینا کوئی عقلمندی نہیں۔ اسے اپنی ڈائری پر لکھی نصیحت یاد آ رہی تھی وہ نصیحت بھی اسے تایا ابا نے کی تھی اور شاید اسی دن کے لیے کی تھی۔ آئش دروازہ کھولو بیٹا! زرینہ نے دروازہ بجایا۔ اس نے چپ چاپ دروازہ کھول دیا۔ زرینہ اس کی حالت دیکھ کر اسے اپنے ساتھ لگا کر رو دیں۔
تایا ابا نے میری خوشیاں چھین لیں امی۔ آئش سپاٹ لہجے میں بولی تھی۔ انہوں نے آخر بتا دیا کہ وہ مجھے باپ جیسی شفقت دے سکتے ہیں لیکن چونکہ وہ میرے باپ نہیں ہیں اس لیے وہ مجھ سے پہلے خبیر کا سوچیں گے اور ٹھیک ہے کیا غلط کیا انہوں نے ہر ماں باپ اپنے بچوں کا سوچتے ہیں۔ میرے بابا ہوتے تو وہ بھی میرا خیال کرتے، پھر مجھے خبیر سے شادی نہیں کرنا پڑتی۔ زرینہ اس کی حالت دیکھ کر کانپ اٹھیں۔ وہ جیسے صدمے میں تھی۔ آپ تایا ابا کو کہہ دیں میں خبیر سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ وہ اسے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کی تقریب اب سادگی سے ہونا تھی۔ صرف گھر کے لوگ ہی شامل ہونا تھے۔ سب اپنے اپنے کام کرنے میں مصروف تھے۔ آئش کو اب بھوک پیاس تو کیا لگتی اسے اب دن اور رات کا بھی احساس نہیں تھا۔ وہ ایسے مریض کی طرح ہو گئی تھی جو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ نکاح میں دو دن باقی تھے۔
آئش اپنے کمرے میں ڈریسنگ مرر کے آگے بیٹھی مسلسل اپنے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر کرب اور وحشت کے آثار تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونکی۔ اندر آجائیں۔ اسے احساس نہیں تھا وہ خبیر ہوگا۔
میں تمہارے لیے مہندی کا جوڑا لایا تھا۔ خبیر کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔
ادھر رکھ دیں۔ آئش نے مرر سے نظریں ہٹاٹے بغیر کہا۔ خبیر جانتا تھا تو وہ مزید کوئی بات نہیں کرے گی اس لیے جوڑا بیڈ پر رکھ کر جانے لگا۔
"بہت بڑی قیمت لے لی آپ نے مجھ سے اس جوڑے کی"۔ آئش نے وہیں بیٹھے ہوئے کہا نظریں ہنوز آئینے کی جانب تھیں۔ آئش اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔
واقعی آپ کی کوئی غلطی نہیں۔ غلطی تو میری ہے اور میری غلطی یہ ہے کہ میرا باپ نہیں ہے۔ وہ نوحہ کناں تھی۔
رہنے دیں خبیر صاحب! یہ معافی تلافی کا سلسلہ کیوں کہ اس سے نہ تو وہ کرب مٹے گا اور نہ وہ اذیت جو میری اندر زہر کی مانند اتر گئی ہے۔ آپ بس خوشیاں منائیں اپنی جیت پر یا چاہیں تو میری ہار پر۔
وہ چپ چاپ کمرے سے نکل گیا۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئش اپنے کمرے میں وضو کر کے بیٹھی تھی۔ نکاح میں ابھی وقت تھا۔ علوینہ آئش کے کپڑے نکال رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ علوینہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا لیکن باہر کوئی نہیں تھا۔ وہ واپس مڑنے لگی جب نچلے پورشن سے عارفہ بیگم کی آواز آئی تھی۔ ارے بیٹا زرا نیچے آؤ ہمیں الماری کی چابیاں نہیں مل رہیں۔ پتا نہیں کہاں رکھ کر بھول گئی۔
جی امی آئی۔ علوینہ کہہ کر واپس مڑ گئی۔ آئش تم یہ چینج کر لو میں ابھی آتی ہوں۔ اس نے سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی کمرے سے نکل گئی۔
آئش واش روم کی طرف جانے لگی تھی جب دروازہ کھل کر بند ہونے کی آواز آئی۔ وہ یکلخت پیچھے مڑی تھی۔
عماز!۔۔۔۔۔ اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ برامد ہوئی۔ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ تایا ابا کو پتا تو نہیں چلا۔ وہ کسی خدشے کے تحت بولی۔ نہیں، کسی نے نہیں دیکھا سوائے تمہارے۔
پھر بھی کیوں آئے ہو۔ کیوں اپنے اور میرے لئے مشکلات بڑھا رہے ہو۔
چلا جاتا ہوں بس یہ تمہارا تحفہ دینے آیا تھا۔ اس دن دے ہی نہیں سکا۔ وہ بہت عام لہجے میں کہہ رہا تھا جیسے سب کچھ نارمل ہو اور آئش کو لگا اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اور تبھی آگے بڑھ کر عماز نے ہاتھ میں موجود مخملی ڈبیا کھول دی۔ اس میں بہت ہی نفیس اور خوبصورت چاندی کی پازیب کا جوڑا تھا۔ آئش نے ان پر اپنا گداز ہاتھ پھیرا۔ بہت خوبصورت ہیں۔
تم سے زیادہ نہیں۔ خبیر بولا۔
آئئش کو یک دم احساس ہوا کہ کوئی بھی کبھی بھی آ سکتا ہے لیکن وہ اسے جانے کے لیے نہیں کہہ پا رہی تھی۔ عماز خود ہی واپس چلا گیا تھا۔
کچھ دیر بعد مولوی صاحب تشریف لائے۔ نکاح کے پھر وہی کلمات لیکن اب آئش کو کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں تھا۔ ایک قیامت تھی جو آ کر چلی گئی تھی۔ مولوی صاحب نے کہنا شروع کیا۔
"آئش سلیمان علی ولد سلیمان احمد علی کیا آپ کو عمازحیدر ولد حیدر عباس سے بعوض حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے"۔ آئش کو لگا اسےسننے میں غلطی ہوئی ہے لیکن وہی سوال دہرایا گیا تو اس نے جھٹکے سے گھونگٹ ہٹا کر تایا ابا کو دیکھا۔
یہ تمہاری اطاعت کا انعام ہے بیٹا۔ تایا ابا بولے۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میں تھی اگر یہ خواب تھا وہ کبھی اپنی آنکھیں نہیں کھولنا چاہتی تھی۔
ہاں کہہ دو آئش اب تو سوال بھی تمہاری پسند کا ہے۔ پیچھے کھڑی منال نے مسکرا کے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ یہ واقعی خواب نہیں تھا۔ یہ تو وہ حقیقت تھی جس کے لیے آئش نے اپنا آپ کانٹوں پر گھسیٹا تھا۔
قسمت نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ وہ وقت کا فاتح نکلا تھا۔ وہ جو سنو وائٹ کا شہزادہ تھا عماز حیدر۔ زندگی چند ہی پلوں میں بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔ تارے زمین پر آ گئے تھے۔ جگنوؤں نے ان کے ساتھ رقص کیا۔ عماز نے آئش کی طرف دیکھا۔ آئش نے مسکرا کر نظریں جھکا لیں۔ گلابی پھولے گالوں والی شہزادی اور کاٹن کینڈی لانے والے شہزادے کی محبت اور چاہت کی داستان کبھی نہ بھلائے جانے کے لیے امر ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Back
Top