Soya hua Mehal

Falak

Falak

Super Star Pakistani
I Love Reading
15
 
Messages
11,349
Reaction score
19,975
Points
1,236
1894504-soyahowamehal-1574685938-953-640x480.jpg

کاش آج پھر کوئی شہزادہ ہوتا جو اس سوئی ہوئی قوم کے دل ودماغ میں سوئی چبھا کر جگا دیتا۔




ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شہزادہ شکار کےلیے نکلا اور ایک ہرن کا تعاقب کرتے کرتے راستہ کھو بیٹھا۔ راستے کی تلاش میں چلتے چلتے وہ ایک جنگل کے بیچوں بیچ محل تک جاپہنچا، جس کے چاروں طرف قد آدم گھاس اگی ہوئی تھی اور کسی ذی روح کی موجودگی کے آثار نہیں تھے۔ شہزادہ جب اس محل کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس محل کے مکین، کیا شہزادی، کیا رعایا، سب کے سب غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔

ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہزادے کی ملاقات ایک بڑھیا سے ہوئی جس نے شہزادے کو بتایا کہ اس محل کی شہزادی کو کسی جادوگر نے پورے محل سمیت سلا دیا ہے اور یہ سب لوگ تبھی جاگیں گے جب شہزادہ اس جادوگر سے ایک سوئی لے کر شہزادی کے پاؤں میں چبھوئے گا۔ یہ سن کر شہزادہ اونچی اونچی چوٹیاں عبور کرتا، جنوں اور جادوگروں سے لڑتا بالآخر وہ سوئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور جیسے ہی وہ سوئی شہزادی کے پاؤں میں چبھوئی تو ’سویا ہوا محل‘ یکایک بیدار ہوگیا۔ اس کے بعد شہزادے اور شہزادی کی شادی ہوگئی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

جب میں اپنی قوم کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے یہ قوم بھی اسی جادوگر کا شکار لگتی ہے جس نے اسے ایک لامتناہی عرصے کےلیے غفلت کی نیند سلا دیا ہے اور ساتھ ہی اس شہزادے کو بھی مار دیا ہے جو اس قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کرسکتا تھا۔ اب نہ تو 11 ستمبر کا واقعہ اس کو خواب غفلت سے بیدار کرسکتا ہے، نہ ہی افغانستان، تورا بورا اور گوانتاناموبے میں مرنے والے بے بس مسلمانوں کی اذیت ناک موت اور نہ ہی ابو غریب جیل میں ہونے والے عراقی مسلمان لڑکیوں پر امریکی درندوں کے مظالم ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ یہ قوم اب زندہ انسانوں کے بجائے ایسے بے زبان جانوروں کی طرح ہوگئی ہے جس کو اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ نہ تو کسی چیز سے سروکار ہے اور نہ ہی یہ پتہ کہ اس کا مالک کون ہے۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے، وہ اپنی مرضی سے جس طرف چاہتا ہے ان کو ہانک کر لے جاتا ہے۔

یہ لاٹھی جب بے نظیر اور ان کے شوہر نامدار کے ہاتھ میں تھی تو اس قوم نے کبھی نہ پوچھا کہ سرے محل کس کے پیسوں سے خریدا، کتے اور گھوڑے کہاں سے اور کن کے پیسوں سے منگوائے گئے اور لاکھوں روپے فقط وزیراعظم ہاؤس کے منرل واٹر پر کیوں خرچ کیے، جب کہ یہاں کے عوام کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔

یہی لاٹھی جب نوازشریف کے ہاتھ میں آئی تو اس قوم نے بھاری مینڈیٹ کے بوجھ تلے دبے شیر سے کبھی نہ پوچھا کہ کشکول توڑنے والے ہاتھوں نے اربوں روپے ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ کے نام پر سمیٹ کر کس کے پیٹ میں بھرے۔ جب کارگل کی چوٹیوں سے اترنا ہی تھا تو یہ پنگا کس کے اشارے پر لیا۔

اور جب یہ لاٹھی پرویز مشرف کے ہاتھ میں آئی تو کسی نے نہ پوچھا کہ یہ جو آپ بارگین کا ماورائے قانون نظام متعارف کروا رہے ہیں اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ جس نے اربوں روپیہ کھایا ہو وہ چند لاکھ بارگین کے نام پر گورنمنٹ کو دے کر اپنا نام شرفا میں لکھ سکتا ہے تو غریب لوگ کیا کریں گے۔ جب وہ اپنے لیول کا جرم کرکے اپنے لیول کے آدمیوں سے مک مکا کرتے ہیں تو اسے کیوں جرم قرار دیا جاتا ہے اور اگر یہ کلچر اتنا عام ہوجائے کہ ہر سطح پر مجرم بارگین کرسکے تو پھر جرم کی سزا کیا رہ جائے گی؟
برسوں پر پھیلی ہوئی اور ہزاروں انسانوں کے خون سے سینچی ہوئی افغان پالیسی فقط ایک فون کال کی مزاحمت کی بھی متحمل نہ ہوسکتی تھی تو اس ملک میں لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری اور اس کے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر متعارف کرانے کی کیا ضرورت تھی؟​

جب یہ طے تھا کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے ہی بننا ہے تو تھر میں نام نہاد انتخابات کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ پیسہ وہاں کے غریب لوگوں کو ویسے ہی دے دیتے تاکہ ان بے چارے غریبوں کی کچھ دن تو زندگی آسان ہوجاتی۔
لیکن یہ سب کون پوچھے؟ یہ سوئی ہوئی قوم ہر کڑوی سے کڑوی گولی آرام سے نگل لیتی ہے۔ بڑے سے بڑا سانحہ اس قوم کو غفلت سے بیدار نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی اتنی بڑی سوئی ہے کہ وہ اس قوم کے بدن میں شگاف اور روح میں بیداری ڈال سکے۔ اب کسی کا گھر جلے یا پورے ملک کو آگ لگے، ایک عام آدمی کو فقط اپنا پیٹ بھرنے سے سروکار ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ہو یا عمران خان، فضل الرحمن کا دھرنا حلال ہے یا حرام، ان باتوں سے اس قوم کو کیا لینا دینا؟ انہیں تو بس دو وقت کی روٹی میسر آجائے تو بھی غنیمت ہے۔

مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ یہ قوم ہر قسم کے ملکی اور غیر ملکی معاملات سے اتنی لاتعلق کیوں ہوتی جارہی ہے۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ جن حکمرانوں نے ان بے چارے غریب لوگوں کو روٹی کے چکر میں ڈال کر ملکی معاملات سے دور کردیا ہے، جب ان کے اپنے گھروں کو آگ لگے گی تو یہ اسی قوم کی طرف دیکھیں گے کہ کون آکر اسے بجھاتا ہے۔ ہمارے عمر رسیدہ شیر نے حال ہی میں اس کا نظارہ کرلیا ہے کہ تین بار وزارت عظمیٰ کے مزے لینے کے باوجود جب اس پر برا وقت آیا تو عوام ان معاملات سے اتنی لاتعلق تھی کہ یہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ لوگ جوق در جوق آکر اس کی خاطر ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے، لیکن قوم حسب معمول اپنی روزی روٹی میں مشغول رہی۔

صدر ایوب سے لے کر صدر ضیا تک اور ذوالفقار بھٹو سے لے کر نواز شریف تک روشن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ نواز شریف نے صدر مشرف کو برخاست کردیا تھا۔ اس موڑ پر صدر پرویز مشرف کامیاب نہ ہوتے تو پھر ملکی صورتحال کیا ہوتی؟
یہ غریب لوگ شاید دوسرے دن ہی یہ بات بھول جاتے اور مشرف کسی جیل کی کوٹھڑی میں یاس و امید کے درمیان لٹکے انتظار کر رہے ہوتے کہ یہ لوگ اس لاقانونیت پر احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ اور نواز شریف جیسے عوامی لیڈر کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیا گیا تو نہ ان کی پارٹی میں سے، نہ ہی عوام کی طرف سے کوئی احتجاجی آواز بلند ہوئی۔

عوام کو ان حکمرانوں کے قانونی تحفظ سے زیادہ اپنی روٹی روزی کی فکر ہے، سو وہ اپنی دنیا میں مگن اس بات سے لاتعلق ہیں کہ ان کا حکمران ووٹوں کے زور سے آتا ہے یا بوٹوں کے زور سے۔ جہاں کے عوام کی فکری سطح روٹی سے آگے نہ بڑھ سکی ہو، وہاں ایسے ہی حکمران آیا کرتے ہیں۔ پھر چاہے وہ ایل ایف او نافذ کردیں، چاہیں آئی ایم ایف کے ملازم کو اسٹیٹ بینک کا گورنر لگادیں یا ایک مجرم کو علاج کےلیے بیرون ملک بھیج دیں۔ غریب عوام اپنی روٹی کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے، کیونکہ یہ سوئی ہوئی ایسی قوم ہے جس کی فکری سطح فقط پیٹ بھرنے اور اپنے ہر نئے مالک کے آگے سر تسلیم خم کردینے تک ہی محدود ہے۔

کاش آج پھر کوئی شہزادہ ہوتا جو اس سوئی ہوئی قوم کے دل ودماغ میں ایک سوئی چبھا دیتا اور ہم بھی اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکتے کہ یا ظل سبحانی یہ جو کچھ آپ کررہے ہیں یہ کس قاعدے قانون کے تحت کر رہے ہیں۔ اور کل کو جب آپ نہ ہوں گے تو اگلا حکمران اس کی کیا قانونی حیثیت کرے گا؟ لیکن افسوس آج کوئی ایسا شہزادہ نہیں، جس کے پاس ایسی سوئی ہو جو اس سوئی ہوئی قوم کو جگاسکے۔


@Recently Active Users
 

Back
Top