Quran Surah Al Baqra, Ayat 282

Maria-Noor

Maria-Noor

New Member
I Love Reading
Invalid Email
11
 
Messages
6,575
Reaction score
11,924
Points
731
2 Ayat 282

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

اے ایمان والو! جب تم کسی معین میعاد کیلئے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو، لکھنے سے انکار نہ کرے ۔ جب اﷲ نے اسے یہ علم دیا ہے تو اسے لکھنا چاہیئے ۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہورہا ہو، اور اسے چاہیئے کہ وہ اﷲ سے ڈرے اور اس (حق) میں کوئی کمی نہ کرے ۔ ہاں اگر وہ شخص جس کے ذمے حق واجب ہو رہا ہے ناسمجھ یا کمزور ہو یا (کسی اور وجہ سے) تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا سرپرست انصاف کے ساتھ لکھوائے ۔ اوراپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنالو، ہاں اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہو جائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے ۔ اور جب گواہوں کو (گواہی دینے کیلئے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے سے اکتا ؤ نہیں ۔ یہ بات اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑو گے ۔ ہاں اگر تمہارے درمیان کوئی نقد لین دین کا سودا ہو تو اس کو نہ لکھنے میں تمہارے لئے کچھ حرج نہیں ہے ۔ اور جب خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ لکھنے والے کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے، نہ گواہ کو ۔ اور اگر ایسا کروگے تو یہ تمہاری طرف سے نا فرمانی ہوگی ۔ اور اﷲ کا خوف دل میں رکھو۔ اﷲ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اور اﷲ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

آیت 282‘ جوزیر مطالعہ ہے‘ قرآن حکیم کی طویل ترین آیت ہے اور اسے «آیت ِدَین» یا «آیت مُدَایَـنَـۃ » کا نام دیا گیا ہے۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی قرض کا باہم لین دین ہو یا آپس میں کاروباری معاملہ ہو تو اسے باقاعدہ طور پر لکھ لیا جائے اور اس پر دو گواہ مقرر کیے جائیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس قرآنی ہدایت کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور کسی بھائی‘ دوست یا عزیز کو قرض دیتے ہوئے یا کوئی کاروباری معاملہ کرتے ہوئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کیا لکھوانا ہے‘ وہ کہے گا کہ انہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔ چنانچہ تمام معاملات زبانی طے کر لیے جاتے ہیں‘ اور بعد میں جب معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے توپھر لوگ شکو ہ وشکایت اور چیخ و پکار کرتے ہیں۔ اگر شروع ہی میں قرآنی ہدایات کے مطابق مالی معاملات کو تحریر کر لیا جائے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچے گی۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ جو شخص قرض دیتے ہوئے یا کوئی مالی معاملہ کرتے ہوئے لکھواتا نہیں ہے‘ اگر اس کا مال ضائع ہوجاتا ہے تو اسے اس پر کوئی اجر نہیں ملتا‘ اور اگر وہ مقروض کے حق میں بددعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی فریاد نہیں سنتا‘ کیونکہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔

آیت 282: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ : «اے اہل ِایمان! جب بھی تم قرض کا کوئی معاملہ کرو ایک وقت معین ّتک کے لیے تو اس کو لکھ لیا کرو۔ »

آیت کے اس ٹکڑے سے دو حکم معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قرض کا وقت معین ّہونا چاہیے کہ یہ کب واپس ہو گا اور دوسرے یہ کہ اسے لکھ لیا جائے۔ فَاکْتُـبُوْہُ فعل امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتاہے۔

وَلْیَکْتُبْ بَّـیْنَـکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ : «اور چاہیے کہ اس کو لکھے کوئی لکھنے والا تمہارے مابین عدل کے ساتھ۔ »
لکھنے والا کوئی ڈنڈی نہ مار جائے‘ اسے چاہیے کہ وہ صحیح صحیح لکھے۔
وَلاَ یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّــکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ : «اور جو لکھنا جانتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے‘ جس طرح اللہ نے اس کو سکھایا ہے‘ پس چاہیے کہ وہ لکھ دے۔ »
یہ ہدایت تاکید کے ساتھ کی گئی‘ اس لیے کہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوتے تھے۔ اب بھی مالی معاملات اور معاہدات بالعموم وثیقہ نویس تحریر کرتے ہیں۔
وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ : «اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے»
یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ دستاویز لکھوائے کہ میں کیا ذمہ ّداری لے رہا ہوں‘ جس کا مال ہے وہ نہ لکھوائے۔
وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّـہ : «اور وہ اللہ سے ڈرتا رہے اپنے ربّ سے»
وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا : «اور (لکھواتے ہوئے) اس میں سے کوئی شے کم نہ کر دے ۔ »
فَاِنْ کَانَ الَّذِیْْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْ ضَعِیْفًا : «پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے ‘ ناسمجھ یا ضعیف ہو»
اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ہُوَ : «یااس کے اندر اتنی صلاحیت نہ ہو کہ اِملا کرواسکے »
فَلْیُمْلِلْ وَلِـیُّـہ بِالْعَدْلِ : «تو جو اُس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ »
اگر قرض لینے والا ناسمجھ ہو‘ ضعیف ہو یا دستاویز نہ لکھوا سکتا ہو تو اُس کا کوئی ولی ‘ کوئی وکیل یا مختار (attorney) اُس کی طرف سے انصاف کے ساتھ دستاویز تحریر کرائے۔ یہاں «اِملال» اِملا کے معنی میں آیا ہے۔
وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ : «اور اس پر گواہ بنا لیا کرو اپنے َمردوں میں سے دو آدمیوں کو۔ »
فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ : «پھراگر دو مرد دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں ہوں»
مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ : «یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں»
جن کی گواہی ہر دو فریق کے نزدیک مقبول ہو اور ان پر دونوں کو اعتماد ہو۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد دستیاب نہ ہو سکیں تو گواہی کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کر لیا جائے۔ یعنی گواہوں میں ایک مرد کا ہونا لازم ہے‘ محض عورت کی گواہی نہیں چلے گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر قسم کے معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یا یہ معاملہ صرف قرض اور مالی معاملات میں دستاویز تحریر کرتے وقت کا ہے‘ اس کی تفصیل فقہاء کے ہاں ملتی ہے۔
اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٹہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٹہُمَا الْاُخْرٰی : «تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری یاد کروا دے۔ »
یہاں عقلی سوال پیدا ہو گیا کہ کیا مرد نہیں بھول سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واقعتا اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر نسیان کا مادّہ زیادہ رکھا ہے ۔ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ : (الملک) «کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ وہ بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے»۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کس میں کون سا مادّہ زیادہ ہے۔ عورت میں نسیان کا مادّہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے ‘ یہ بھی سمجھ لیجیے۔ یہ بڑی عقلی اور منطقی بات ہے ۔ دراصل عورت کو مرد کے تابع رہنا ہوتا ہے‘ لہٰذا اُس کے احساسات کو کبھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے‘ اُس کے جذبات کے اوپر کبھی کوئی کدورت آتی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بھول جانے کا مادہ «سیفٹی والو» کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ورنہ تو ان کا معاملہ اس شعر کے مصداق ہو جائے

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے اب مجھ سے حافظہ میرا!

چنانچہ یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ ورنہ تو کوئی صدمہ دل سے اترنے ہی نہ پائے‘ کوئی غصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ بہرحال خواہ کسی حکم کی علت ّیا حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ اللہ کا حکم تو بہرصورت ماننا ہے۔

وَلاَ یَاْبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا : «اورنہ انکار کریں گواہ جبکہ ان کو بلایا جائے ۔ »
گواہوں کو جب گواہی کے لیے بلایا جائے تو آکر گواہی دیں‘ اس سے انکار نہ کریں۔ اسی سورئہ مبارکہ کی (آیت: 140) میں ہم پڑھ آئے ہیں: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہ مِنَ اللّٰہِ : «اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک شہادت موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟»

وَلَا تَسْئَمُوْٓا اَنْ تَـکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہ : «اور تساہل مت کرو اس کے لکھنے میں‘ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس کی معین ّمدت کے لیے۔ »

قرض خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس کی دستاویز تحریر ہونی چاہیے کہ میں اتنی رقم لے رہا ہوں اور اتنے وقت میں اسے لوٹا دوں گا۔ اس کے بعد قرض خواہ اس مدت کو بڑھا بھی سکتا ہے‘ مزید مہلت دے سکتا ہے‘ بلکہ معاف بھی کر سکتا ہے۔ لیکن قرض دیتے وقت اس کی مدت معین ّہونی چاہیے۔

ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ : «یہ اللہ کے نزدیک بھی زیادہ ‘مبنی بر انصاف ہے»
وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ : «اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے»
معاملہ ضبط تحریر میں آ جائے گا تو بہت واضح رہے گا‘ ورنہ زبانی یاد داشت کے اندر تو کہیں تعبیر ہی میں فرق ہو جاتا ہے۔
وَاَدْنٰٓی اَلاَّ تَرْتَابُوْا : «اور یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ تم شبہ میں نہیں پڑو گے»
اِلَّآ اَنْ تَـکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَہَا بَیْنَـکُمْ : «الا یہ کہ کوئی تجارتی لین دین ہو جو تم دست بدست کرتے ہو» ّ
مثلاً آپ کسی دکاندار سے کوئی شے خریدتے ہیں اور نقد پیسے ادا کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ اس کا کیش میمو بھی لیں۔ اگر آپ چاہیں تو دکاندار سے کیش میمو طلب کر سکتے ہیں۔
فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلاَّ تَـکْتُبُوْہَا : «تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اسے نہ لکھو۔ »
وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَــبَایَعْتُمْ : «اور گواہ بنا لیا کرو جب کوئی (مستقبل کا) سودا کرو۔ »
«بیع َسلم» جو ہوتی ہے یہ مستقبل کا سودا ہے‘ اور یہ بھی ایک طرح کا قرض ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی زمیندار سے طے کرتے ہیں کہ آئندہ فصل کے موقع پر آپ اس سے اتنے روپے فی من کے حساب سے پانچ سو من گندم خریدیں گے۔ یہ بیع سلم کہلاتی ہے اور اس میں لازم ہے کہ آپ پوری قیمت ابھی ادا کردیں اور آپ کو گندم فصل کے موقع پر ملے گی۔ اس طرح کا لین دین بھی باقاعدہ تحریر میں آجانا چاہیے اور اس پر دو گواہ مقرر ہونے چاہئیں۔
وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلاَ شَہِیْدٌ : «اورنہ نقصان پہنچایا جائے کسی لکھنے والے کو اور گواہ کو۔ اور نہ نقصان پہنچائے کوئی لکھنے والا اور گواہ۔ »
«یُضَآرَّ» میں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں۔ اس لیے کہ یہ معروف بھی ہے اور مجہول بھی۔
وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّـہ فُسُوْقٌ بِکُمْ : «اور اگر تم ایسا کرو گے (نقصان پہنچاؤ گے) تو یہ تمہارے حق میں گناہ کی بات ہو گی۔ »
وَاتَّقُوا اللّٰہَ : «اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ »
وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ : «اوراللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔ »
وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : «اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ »
یہ ایک آیت مکمل ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آخری پارے کی چار پانچ چھوٹی سورتیں جمع کر لیں تو ان کا حجم اس ایک آیت کے برابر ہو گا۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ آیات کی تعیین توقیفی ہے۔ اس کا ہمارے حساب کتاب سے ‘ گرامر سے‘ منطق سے اور علمِ بیان سے کوئی تعلق نہیں۔​
 
یہ بڑی عقلی اور منطقی بات ہے ۔ دراصل عورت کو مرد کے تابع رہنا ہوتا ہے‘ لہٰذا اُس کے احساسات کو کبھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے‘ اُس کے جذبات کے اوپر کبھی کوئی کدورت آتی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بھول جانے کا مادہ «سیفٹی والو» کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ورنہ تو ان کا معاملہ اس شعر کے مصداق ہو جائے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے اب مجھ سے حافظہ میرا!
چنانچہ یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ ورنہ تو کوئی صدمہ دل سے اترنے ہی نہ پائے‘ کوئی غصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ بہرحال خواہ کسی حکم کی علت ّیا حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ اللہ کا حکم تو بہرصورت ماننا ہے۔
Ahaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaan beshakkkkkkkkk yeh bat drust hai :thumbs up:
 

@Angelaa
Maria-Noor said:
یہ بڑی عقلی اور منطقی بات ہے ۔ دراصل عورت کو مرد کے تابع رہنا ہوتا ہے‘ لہٰذا اُس کے احساسات کو کبھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے‘ اُس کے جذبات کے اوپر کبھی کوئی کدورت آتی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بھول جانے کا مادہ «سیفٹی والو» کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ورنہ تو ان کا معاملہ اس شعر کے مصداق ہو جائے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے اب مجھ سے حافظہ میرا!
چنانچہ یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ ورنہ تو کوئی صدمہ دل سے اترنے ہی نہ پائے‘ کوئی غصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ بہرحال خواہ کسی حکم کی علت ّیا حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ اللہ کا حکم تو بہرصورت ماننا ہے۔
Click to expand...???​
 
Back
Top