Suraj Grahan aur Tohimaat - Solar Eclipse & Superstitions

Veer

Veer

Famous Pakistani
Staff member
27
 
Messages
35,541
Reaction score
45,337
Points
3,711
آج کل سوشل میڈیا پر ایک طرف جہاں کورونا وائرس آگاہی مہم کے ذریعے جنگ لڑی جارہی ہے، وہیں رنگ میں بھنگ ڈالنے والے بھی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ان لوگوں کو عوام میں سنسنی پھیلانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں اور اسی وجہ سے جیسے ہی 21 جون 2020 کے سورج گرہن کی تاریخ نزدیک آئی تو انہوں نے مشہور کردیا کہ دسمبر 2012 میں مایا کیلنڈر کے اختتام پر جو دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی تھی وہ دراصل 21 جون 2020 کو ثابت ہوجائے گی۔ سائنس کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں ایسا خوف پھیلا ہوا ہے جیسے انہیں خود پر یقین ہی نہ ہو۔

21 جون 2020 یعنی کل بروز اتوار پاکستان میں حلقہ نما سورج گرہن لگنے جارہا ہے جو کہ کسی اچھنبے کی بات نہیں۔ کیونکہ گرہن کا سلسلہ تو اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب چاند وجود میں آیا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ چاند زمین کے اور زمین سورج کے گرد گردش کررہی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار میں اسی مقام پر تقریباً 29 دنوں میں واپس آجاتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ چاند ہر ماہ سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر سال میں 12 یا 13 سورج اور چاند گرہن ہونے چاہئیں، کیونکہ چاند زمین کے گرد ایک سال میں 12 یا 13 چکر لگاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

اس سوال کا جواب چاند کے مداری جھکاؤ (جسے فلکیاتی اصطلاح میں ’’اربیٹل اِنکلینیشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے) میں ہے۔ قمری مدار زمین کے مدار کی سیدھ میں نہیں بلکہ تقریباً 5 ڈگری جھکا ہوا ہے، جس کی وجہ سے چاند کا مدار زمینی مدار کو صرف ’دو‘ مقامات پر ہی کاٹتا ہے، جنہیں فلکیاتی اصطلاح میں ’’نوڈز‘‘ یعنی ’’مقام انقطع‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چاند اپنی ابتدائی منازل میں یا مکمل چاند کی حالت میں ہونے کے ساتھ ان مقامات پر یا ان کے قریب ہوگا تو اس وقت سورج، چاند اور زمین کے ایک سیدھ میں ہونے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن وقوع پذیر ہو۔ لیکن ذرا ٹھہریے، کیونکہ یہ مدار اتنا سادہ نہیں۔

soraj-girhan-orbit-of-moon-1592578284.jpg


کائنات میں ہر چیز منظم تو ضرور ہے لیکن اگر اس کائنات کو باریکی سے دیکھا جائے تو ہر طرف بےترتیبی دیکھنے کو ملے گی، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں کسی بھی سیارے، ستارے یا چاند کا مدار مکمل دائرہ نہیں ہوتا بلکہ بیضوی شکل (یعنی انڈے کی شکل) کا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر دوربین سے چاند کا مشاہدہ کیا جائے تو اپنے ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ چاند اپنے چکر میں زمین سے دور یا قریب ہوتا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جب سورج یا چاند گرہن ہو تو چاند زمین سے ٹھیک 3 لاکھ 80 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہو, بلکہ چاند اگر گرہن کے وقت زمین سے دور ہوگا تو سورج کو مکمل ڈھانپ نہیں پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سورج گرہن کی مختلف اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔

soraj-girhan-orbit-1592578282.jpg


مکمل سورج گرہن

soraj-girhan-full-1592578270.jpg


مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے، لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے۔ مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا ’روشن کرّہ‘ یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا جسے ’’کورونا‘‘ کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے، کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کےلیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔

soraj-girhan-full-1-1592578273.jpg


حلقہ نما سورج گرہن

soraj-girhan-ring-of-fire-1592578289.jpg


حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کےلیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرّے کو ڈھانپ نہ پائے۔ اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصہ چھپ جاتا ہے، جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔ اس حالت کو عوام الناس میں ’رنگ آف فائر‘ یعنی آگ کے چھلے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ حالانکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ سورج پر آگ موجود ہی نہیں۔

soraj-girhan-ring-of-fire-1-1592578290.jpg


جزوی سورج گرہن

soraj-girhan-half-1592578277.jpg


جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو۔ اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔

21 جون 2020 کا سورج گرہن کیسا ہوگا؟

21 جون 2020 کو ہونے والا سورج گرہن حلقہ نما سورج گرہن ہوگا۔ کیونکہ چاند کا زمین سے اس وقت فاصلہ تقریباً 3 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر ہے. جس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کا کونی قطر آسمان میں سورج کے کونی قطر (اینگولر ڈایامیٹر) سے کم ہوگا۔ اس گرہن کا پاکستان میں مقیم فلکیاتی شیدائیوں کو بے حد انتظار ہے۔ کیونکہ 1995 اور 1999 کے مکمل سورج گرہن کے بعد پاکستان میں 2020 میں پہلی دفعہ حلقہ نما سورج گرہن دیکھا جائے گا اور سورج گرہن قدرت کے بہترین مناظر میں سے ایک ہے۔

اس بار کا حلقہ نما سورج گرہن پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 21 جون 2020 کی صبح 8 بجکر 45 منٹ پر شروع ہوگا اور 9 بجکر 47 منٹ پر چاند سورج کو ڈھانپنا شروع ہوجائے گا۔ 11 بج کر 40 منٹ پر گرہن کا عروج ہوگا۔ یعنی سورج حلقے کی شکل اختیار کرلے گا اور پھر دوپہر 1 بج کر 32 منٹ تک سورج مکمل طور پر نمودار ہوجائے گا جبکہ گرہن کا اختتام 2 بجکر 34 منٹ پر ہوگا۔

soraj-girhan-map-1592578280.jpg


تصویرمیں دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج گرہن جنوبی چین کے کچھ علاقوں سے ہوتا ہوا بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریب دہرادون کے اوپر سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوگا، جہاں یہ سندھ کے مشہور شہر سکھر اور لاڑکانہ سے گزرے گا۔ اس کے بعد سیریا کی ریاست سے ہوتا ہوا جنوبی افریقہ میں اس کا اختتام ہوگا۔ اس کے علاوہ تصویر میں جو علاقے ہلکے نارنجی ہیں، ان میں حلقہ نما سورج گرہن مکمل طور پر دکھائی نہیں دے گا بلکہ جزوی سورج گرہن دکھائی دے گا۔

کیا سورج گرہن روئے ارض پر موجود جانداروں پر اثرانداز ہوتا ہے؟

سورج گرہن مکمل طور پر قدرتی عمل ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب سورج اور زمین کے درمیان چاند آجائے۔ جبکہ چاند پر سال کے کچھ مہینوں میں سورج اور زمین کے درمیان آجانا کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ آج سائنسدانوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کب کون سا فلکی جسم کہاں ہوگا۔

اکثر لوگوں کا، جو سائنسی علم سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں، کہنا ہے کہ گرہن کے وقت سورج سے کچھ خاص طرح کی شعاعیں نکلتی ہے جو انسانوں پر اثرانداز ہوکر بہت سے حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے جدید سائنس کے اس دور میں رہتے ہوئے بھی ان شعاعوں کا نام نہیں بتایا۔

soraj-girhan-glasses-1592578275.jpg


حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی شعاعیں موجود نہیں جو انسانوں پر اثرانداز ہوں۔ بلکہ سائنسدان اور آنکھوں کے ماہرین گرہن کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے سے اس لیے منع کرتے ہیں کیوں کہ گرہن کے وقت جب چاند سورج کو مکمل ڈھانپ لیتا ہے تو اس وقت سورج کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی چاند سورج کے سامنے سے ہٹنے لگتا ہے تو سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں اچانک پڑنے سے آنکھوں کا پردہ یعنی ریٹینا جل سکتا ہے، جس سے آپ کی بینائی ہمیشہ کےلیے جاسکتی ہے، وہ بھی بنا تکلیف کے، کیونکہ ریٹینا میں درد محسوس کرنے والے خلیے موجود نہیں ہوتے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا صرف گرہن کے وقت ہی یہ تیز روشنی نکلتی ہے؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سورج کو کبھی بھی برہنہ آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور اگر آپ سورج گرہن کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں تو ایکس رے کا پیپر یا عام سن گلاسز استعمال کرنے کے بجائے صرف سرٹیفائیڈ شمسی عینکوں یا 13 اور 14 نمبر ویلڈنگ گلاس کا استعمال کیجئے۔

یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ حاملہ عورت اگر سورج یا چاند گرہن کے وقت لوہے کی کسی بھی تیز چیز، جس میں قینچی، چھری، وغیرہ شامل ہیں، کا استعمال کرے تو ہونے والا بچہ معذور پیدا ہوگا۔ اس بات میں رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے۔ اس چیز کو غلط ثابت کرنے کےلیے کبھی کسی عام انسان نے تجربہ بھی نہیں کیا، کیونکہ ہر کسی کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں نے یہ سب تجربات جانوروں سے لے کر انسانوں تک پر کئے ہوئے ہیں۔ معذور بچے کا پیدا ہونا صرف ایک اتفاق یا کسی اور جینیاتی بیماری کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو کہ حاملہ کو ساس یا ماں کی جانب سے شدید گھبراہٹ کا شکار کرنے کے نتیجے میں ’ہارمونز کا توازن‘ خراب ہونے سے ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک فلکیاتی عمل کا انسانی زندگی سے کسی قسم کا کوئی تعلق کبھی نہیں ہوسکتا۔

سورج گرہن کا نظارہ اور احتیاطی تدابیر

ہمارے پاس دوربین نہیں ہے، شمسی عینک بھی نہیں اور نہ ہی ویلڈنگ گلاس، پھر سورج گرہن کیسے دیکھیں؟

پاکستان میں فلکیات کا شوق رکھنے والوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ پاکستان میں فلکیاتی سامان جس میں دوربینیں، شمسی عینکیں وغیرہ شامل ہیں، بہت آسانی سے نہیں ملتیں، بلکہ انہیں امریکا یا چین سے منگوانا پڑتا ہے۔ جو کہ مہنگی ہونے کے ساتھ ایئرپورٹس پر سیکیورٹی عملے کے ساتھ ہونے والی خواری بھی ساتھ لاتی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کچھ ہزار لوگوں کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس فلکیات کا سامان نہیں لیکن وہ اس کا شوق رکھتے ہیں۔ ان شوق رکھنے والوں کےلیے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو کرکے وہ خود کو محفوظ رکھتے ہے سورج گرہن باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

سورج گرہن پروجیکٹر

اگر گرہن کی تاریخ نزدیک آگئی اور آپ کے پاس شمسی عینکیں نہیں ہیں تو فکرمند ہونے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ آپ گھر میں ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ بناسکتے ہیں۔ اس کےلیے آپ کو ایک عدد بڑا ڈبہ، ایک عدد چھوٹا ایلومینیم کا کاغذ (آپ کوئی بھی چاکلیٹ کھائیں اور اس کا غلاف ایلومینیم کا کاغذ ہوگا) اور ایک عدد سفید کاغذ۔

ڈبہ لمبائی میں زیادہ ہونا چاہیے تاکہ سورج کی تصویر بڑی اور واضح ہو۔ ڈبےکے ایک طرف دو بڑے سوراخ کریں۔ ایک سورج ڈبے کے اندر کی سورج کی تصویر دیکھنے کےلیے ہوگا اور دوسرے سوراخ پر ایلومینیم کا کاغذ لگائیں، جس طرح تصویر میں دکھایا گیا ہے۔

soraj-girhan-projector-1592578287.jpg


ڈبے کے اندر پچھلی طرف ایک سفید کاغذ لگادیں تاکہ سورج کی تصویر واضح نظر آئے۔ اب ایک عدد سوئی لے کر ان ایلومینیم کے کاغذ میں تقریباً 2 ملی میٹر بڑا سوراخ کریں۔ لیجئے، ہوگیا آپ کا سورج گرہن پروجیکٹر تیار۔ اب ڈبے کو سورج کی طرف کریں اور ڈبے کے اندر دیکھنے والے سوراخ سے جھانکیں۔ آپ کو سفید کاغذ پر سفید دائرہ دکھائی دے گا۔ جی ہاں وہ ہمارا اپنا سورج ہے۔

گھر کے برتنوں سے سورج گرہن دیکھئے

اگر آپ کو کوشش کرنے کے باوجود ایلومینیم کا کاغذ بھی نہیں ملا اور نہ شمسی عینکیں ملیں اور آپ کو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے اس گرہن کےلیے انتظار زندگی بھر انتظار ہی بن کر رہ جائے گا (کیونکہ جون کے مہینے میں حلقہ نما سورج گرہن زمین پر اسی مقام پر 300 سال میں ایک دفعہ آتا ہے) تو ایک آخری کوشش کیجئے اور گھر کے باورچی خانے میں تصویر میں دکھائے گئی ’چھلنی‘ ڈھونڈیں اور پہنچ جائیے گرہن دیکھنے۔

soraj-girhan-chhalni-1592578264.jpg


یوں سمجھئے کہ اس کا ہر سوراخ ایک ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ ہے اور ہر سوراخ سفید کاغذ پر سورج بنائے گا اور جب سورج کو گرہن لگے گا تو آپ کو اس چھلنی سے بنی سورج کی تصویروں میں گرہن زدہ سورج نظر آئے گا۔ یوں آپ اپنے گھر کی چیزوں سے سورج گرہن بحفاظت دیکھ سکتے ہیں۔

اپنی انگلیوں سے سورج گرہن دیکھئے

اگر آپ کے گھر میں چھلنی موجود نہیں تو مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس اپنی انگلیاں موجود ہوں گی۔ آپ اپنی انگلیوں کو کراس کرکے ان کے بیچ خلا سے ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ بنا سکتے ہیں، جو چھلنی کا کام ہی کریں گی۔

soraj-girhan-fingers-1592578267.jpg


آخر میں یہی کہوں گا کہ سورج یا چاند گرہن کے بارے میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اور اپنے بچوں کو بھی گھر میں سورج گرہن پروجیکٹر یا پھر دوربین (فلٹر کے ساتھ) کے ذریعے سورج اور چاند گرہن دکھائیں۔ کیونکہ جب تک پاکستان میں علم عام نہیں ہوگا، نجومی اور غیر سائنسی لوگ اسی طرح کی باتیں عوام میں پھیلاتے رہیں گے۔​
 

@Veer, جی
ماشاءاللہ
مدلل، مفصل تحقیقات پر مبنی مضمون
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
سورج گرہن کے وقت کی عبادات ..... تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل
کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں،سورج گرہن بھی ا ن میں سے ایک ہے

اللہ کی طرف سے سورج کو گرہن لگنا ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ اپنے برے اعمال سے باز آجاؤ

صلوٰۃ الکسوف کا وقت سورج گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر گرہن کے زائل ہونے تک رہتا ہے

اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے سورج اور چاند دو بڑی نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ایک حساب کے تحت طلوع و غروب کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اسی مقرر کردہ حساب کی ایک نوع یہ بھی ہے کہ ان کو مختلف اوقات میں گرہن لگتاہے
آئیے اس بارے جانتے ہیں کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کیا ہیں؟ مزید یہ کہ اس موقع پر اسلام توہمات کی کیسے تردید کرتا ہے؟ ان کے دکھلانے کا مقصد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ ذکر فرماتے ہیں:
وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا۔(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ: 59)
ترجمہ:اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو حضرت نبی کریمﷺ اٹھے کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔(صحیح البخاری، الرقم: 1059) آپﷺ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام فرمایا، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔(حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ )میں نے کبھی آپﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔(صحیح البخاری، الرقم: 1059)۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لوگو!یہ پکی بات ہے کہ تمہارا پروردگار( تمہارے گناہوں پر)تنبیہ اور سرزنش فرما رہا ہے لہٰذا اسے(نیک اعمال کر کے)راضی کر لو۔
اسی طرح یہ بات بھی نقل کی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ طیبہ میں زلزلے کے کئی جھٹکے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو تمہاری بدعملیوں کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے قسم بخدا!اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔

سورج گرہن اور نماز:

۔ نماز، دعا، ذکراللہ، استغفار اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورج گرہن کے وقت جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الکسوف کہتے ہیں۔ نماز اہم العبادات ہے، تمام عبادات میں اس کی فضیلت بلند ہے، اللہ کی رحمت کو اپنے اوپر متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، مصیبت میں دل کی تسلی کا باعث ہے، اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے، اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عام معمولات کے علاوہ جب کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا مثلاً تیز ہوا، آندھی اور طوفانی بارش وغیرہ تو آپﷺ نماز میں مشغول ہو جاتے۔ سورج گرہن بھی ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں سورج جیسا عظیم الشان جثہ بے نور ہوجاتا ہے تو اس موقع پر نماز کا حکم دیا گیا ہے۔
دعا ایسا نیک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں اپنی صفت رحمت کو صفت غضب پر غالب فرما لیتے ہیں اور مصائب سے چھٹکارا نصیب فرماتے ہیں۔ سورج گرہن کا وقت بھی انہی اوقات میں شامل ہے جس میں انسان مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،’’جو مصائب نازل ہوچکے یا ہونے والے ہوں اس میں دعا کام آتی ہے۔اس لیے اللہ کے بندو! دعاؤں کا خوب اہتمام کرو‘‘۔(جامع الترمذی، الرقم: 3548)۔اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے اصل تو یہ ہے کہ انسان کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو اس موقع پر زبان اور دل دونوں سے اللہ اللہ کی صدا سنائی دینی چاہیے۔ سورج گرہن سے خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اگر اس خوف میں اللہ کی رحمت کی آمیزش نہ کی جائے تو محض خوف مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی اللہ سے دور کرتی ہے اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ کا ذکر کرنا چاہیے کیونکہ قرآنی فیصلہ ہے کہ ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ اللہ کی طرف سے سورج کو گرہن لگنا بطور تنبیہ کے ہوتا ہے کہ اپنے برے اعمال سے باز آجاؤ اور تائب ہو کرمعافی مانگو ورنہ دیکھو کہ میں سورج جیسی عظیم الشان شے کو یوں بے نور کر سکتا ہوں تو تمہیں سزا دینا میرے لیے کیا مشکل ہے؟ لہٰذا اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔
سورج گرہن اور نماز:۔سورج گرہن کے وقت جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الکسوف کہتے ہیں جس کے چند اہم مسائل ہم انشاء اللہ آخر میں ذکر کریں گے۔ ابھی یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ سورج گرہن کے وقت نماز کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نماز اہم العبادات ہے، تمام عبادات میں اس کی فضیلت نرالی اور بلند ہے، اللہ کی رحمت کو اپنے اوپر متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، مصیبت میں دل کی تسلی کا باعث ہے، اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے، اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عام معمولات کے علاوہ جب کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا مثلاً تیز ہوا، آندھی اور طوفانی بارش وغیرہ تو آپ ﷺنماز میں مشغول ہو جاتے۔ سورج گرہن بھی ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے۔

صلوٰۃ الکسوف کے چند مسائل

:۔:1صلوٰۃ الکسوف کا وقت سورج گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر گرہن کے زائل ہونے تک رہتا ہے۔ البتہ اوقات مکروہ( جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں) میں نہیں پڑھی جاتی۔ ان اوقات مکروہ میں نماز کے علاوہ دعا، استغفار، ذکر اذکار وغیرہ کرتے رہنا چاہیے۔
۔:2صلوٰۃ الکسوف کے لیے اذان و اقامت نہیں۔
۔:3صلوٰۃ الکسوف میں خطبہ نہیں ہوتا۔
۔:4صلوٰۃ الکسوف کی دو رکعتیں ہیں۔
۔:5صلوٰۃ الکسوف باجماعت ادا کی جائے اگرچہ انفرادا بھی گنجائش ہے۔
۔:6صلوٰۃ الکسوف سری نماز ہے لیکن جہر کی گنجائش بھی موجود ہے۔
۔:7صلوٰۃ الکسوف بھی دو رکعات والی عام نماز وں کی طرح ہے یعنی ہر رکعت میں ایک رکوع ہے۔ ہاں قرات اور رکوع و سجود طویل ہونے چاہییں۔
فائدہ:جن روایات میں ایک رکعت میں ایک سے زائد رکوع کا تذکرہ ملتا ہے وہ آپﷺ کی خصوصیت تھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر دن اور ہر رات شریعت کے موافق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔آمین

سورج گرہن اور دعا

:۔دعا ایسا نیک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں اپنی صفت رحمت کو صفت غضب پر غالب فرما لیتے ہیں اور مصائب سے چھٹکارا نصیب فرماتے ہیں۔ سورج گرہن کا وقت بھی انہی اوقات میں شامل ہے جس میں انسان مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو مصائب نازل ہوچکے یا ہونے والے ہوں اس میں دعا کام آتی ہے۔اس لیے اللہ کے بندو! دعاؤں کا خوب اہتمام کرو۔(جامع الترمذی، الرقم: 3548)۔اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے اصل تو یہ ہے کہ انسان کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو اس موقع پر زبان اور دل دونوں سے اللہ اللہ کی صدا سنائی دینی چاہیے۔ سورج گرہن سے خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اگر اس خوف میں اللہ کی رحمت کی آمیزش نہ کی جائے تو محض خوف مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی اللہ سے دور کرتی ہے اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ کا ذکر کرنا چاہیے کیونکہ قرآنی فیصلہ ہے کہ ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔

سورج گرہن اور عذاب قبر سے پناہ

:۔سرسری طور پر سورج گرہن اور عذاب قبر میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان دونوں میں مناسبت موجود ہے اسی لیے اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ابن منیر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے میں مناسبت یہ ہے کہ جیسے قبر میں اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح سورج گرہن کے وقت دن میں بھی اندھیرا ہوجاتا ہے(یہ الگ بات ہے کہ قبر کا اندھیرا سورج گرہن کے اندھیرے سے کہیں زیادہ ہوگا ) اور ضابطہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے یاد کرنے کا سبب ہوتی ہے اس لیے انسان سورج گرہن کے وقت خوف زدہ ہوتا ہے جس طرح قبر کے عذاب سے خوف زدہ ہوتا ہے تو وہ آخرت کی ہولناکیوں سے نجات دینے والی چیزوں کو اختیار کر کے عبرت حاصل کرتا ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری)
سورج گرہن اور صدقہ و خیرات: ۔اللہ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کر کے مستحق افراد کی ضروریات کو پورا کرنا صدقہ وخیرات کہلاتا ہے۔صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور اعلانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔(شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 7704)

سورج گرہن اور اصلاح عقائد:

۔ساری دنیا کو اپنی روشنیوں سے روشن کرنے والے سورج کا بے نور ہونا چونکہ غیر معمولی نوعیت کا واقعہ ہوتا ہے اس لیے اس موقع پرمختلف قسم کی باتیں پھیل جاتی ہیں بعض لوگ تو اسے محض اتفاق ہی سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کو اپنے مخصوص نظریات کی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اسلام ایسے موقع پر اپنے ماننے والوں کو جہاں نیک اعمال کی تعلیم دیتا ہے اس سے پہلے اُن کے عقائد کی اصلاح کرتا ہے تاکہ اس طرح محیر العقول واقعات کو دیکھ کر توہمات میں مبتلا ہو کر اسے محض اتفاق کا کرشمہ مت سمجھیں اور نہ ہی اس بارے کسی طرح کے غیر حقیقی نظریات اپنائیں۔ حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا… اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔(صحیح مسلم، الرقم: 2044)۔ یہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں محض اتفاق کا کرشمہ نہیں جیسا کہ منکرین کا نظریہ ہے۔

سورج گرہن اور نجومیوں کا خیال

:۔نجومی یعنی سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والے اور انہی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنے والے لوگوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور چاند گرہن کے موقع پر خوف کھانا اور نماز،دعا استغفا ر وغیرہ کی تعلیم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند میں ذاتی طور پرنفع و نقصان دینے کے اختیارات موجود ہیں تبھی تو ان کے گرہن لگنے کے موقع پر ڈرا جاتا ہے۔اسلام اس کی تردید کرتا ہے۔ یہ خود رب اور اللہ نہیں کہ ذاتی طور پر کسی کو نفع یا نقصان دے سکیں بلکہ ان کی حیثیت محض قدرت باری تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر ہے اور بس۔
رسول اللہﷺ کی تعلیم:۔حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: سورج و چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، یہ تو قدرت خداوندی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز پڑھو۔(صحیح البخاری، الرقم: 1041)۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ(سورج اور چاند گرہن ) نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتاہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کا ذکر کرو ، اس سے دعا اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔( صحیح البخاری، الرقم: 1059)۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو سورج گرہن کے بارے وہ سب باتیں تعلیم کے طور پر ارشاد فرمائیں جو اللہ چاہتے تھے اور بعد میں انہیں حکم دیا کہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔(صحیح البخاری، الرقم: 1050)​
 
سورج گرہن کے وقت کی عبادات ..... تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل
کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں،سورج گرہن بھی ا ن میں سے ایک ہے

اللہ کی طرف سے سورج کو گرہن لگنا ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ اپنے برے اعمال سے باز آجاؤ

صلوٰۃ الکسوف کا وقت سورج گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر گرہن کے زائل ہونے تک رہتا ہے

اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے سورج اور چاند دو بڑی نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ایک حساب کے تحت طلوع و غروب کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اسی مقرر کردہ حساب کی ایک نوع یہ بھی ہے کہ ان کو مختلف اوقات میں گرہن لگتاہے
آئیے اس بارے جانتے ہیں کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کیا ہیں؟ مزید یہ کہ اس موقع پر اسلام توہمات کی کیسے تردید کرتا ہے؟ ان کے دکھلانے کا مقصد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ ذکر فرماتے ہیں:
وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا۔(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ: 59)
ترجمہ:اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو حضرت نبی کریمﷺ اٹھے کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔(صحیح البخاری، الرقم: 1059) آپﷺ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام فرمایا، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔(حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ )میں نے کبھی آپﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔(صحیح البخاری، الرقم: 1059)۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لوگو!یہ پکی بات ہے کہ تمہارا پروردگار( تمہارے گناہوں پر)تنبیہ اور سرزنش فرما رہا ہے لہٰذا اسے(نیک اعمال کر کے)راضی کر لو۔
اسی طرح یہ بات بھی نقل کی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ طیبہ میں زلزلے کے کئی جھٹکے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو تمہاری بدعملیوں کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے قسم بخدا!اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔

سورج گرہن اور نماز:

۔ نماز، دعا، ذکراللہ، استغفار اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورج گرہن کے وقت جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الکسوف کہتے ہیں۔ نماز اہم العبادات ہے، تمام عبادات میں اس کی فضیلت بلند ہے، اللہ کی رحمت کو اپنے اوپر متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، مصیبت میں دل کی تسلی کا باعث ہے، اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے، اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عام معمولات کے علاوہ جب کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا مثلاً تیز ہوا، آندھی اور طوفانی بارش وغیرہ تو آپﷺ نماز میں مشغول ہو جاتے۔ سورج گرہن بھی ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں سورج جیسا عظیم الشان جثہ بے نور ہوجاتا ہے تو اس موقع پر نماز کا حکم دیا گیا ہے۔
دعا ایسا نیک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں اپنی صفت رحمت کو صفت غضب پر غالب فرما لیتے ہیں اور مصائب سے چھٹکارا نصیب فرماتے ہیں۔ سورج گرہن کا وقت بھی انہی اوقات میں شامل ہے جس میں انسان مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،’’جو مصائب نازل ہوچکے یا ہونے والے ہوں اس میں دعا کام آتی ہے۔اس لیے اللہ کے بندو! دعاؤں کا خوب اہتمام کرو‘‘۔(جامع الترمذی، الرقم: 3548)۔اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے اصل تو یہ ہے کہ انسان کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو اس موقع پر زبان اور دل دونوں سے اللہ اللہ کی صدا سنائی دینی چاہیے۔ سورج گرہن سے خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اگر اس خوف میں اللہ کی رحمت کی آمیزش نہ کی جائے تو محض خوف مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی اللہ سے دور کرتی ہے اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ کا ذکر کرنا چاہیے کیونکہ قرآنی فیصلہ ہے کہ ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ اللہ کی طرف سے سورج کو گرہن لگنا بطور تنبیہ کے ہوتا ہے کہ اپنے برے اعمال سے باز آجاؤ اور تائب ہو کرمعافی مانگو ورنہ دیکھو کہ میں سورج جیسی عظیم الشان شے کو یوں بے نور کر سکتا ہوں تو تمہیں سزا دینا میرے لیے کیا مشکل ہے؟ لہٰذا اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔
سورج گرہن اور نماز:۔سورج گرہن کے وقت جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الکسوف کہتے ہیں جس کے چند اہم مسائل ہم انشاء اللہ آخر میں ذکر کریں گے۔ ابھی یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ سورج گرہن کے وقت نماز کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نماز اہم العبادات ہے، تمام عبادات میں اس کی فضیلت نرالی اور بلند ہے، اللہ کی رحمت کو اپنے اوپر متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، مصیبت میں دل کی تسلی کا باعث ہے، اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے، اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عام معمولات کے علاوہ جب کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا مثلاً تیز ہوا، آندھی اور طوفانی بارش وغیرہ تو آپ ﷺنماز میں مشغول ہو جاتے۔ سورج گرہن بھی ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے۔

صلوٰۃ الکسوف کے چند مسائل

:۔:1صلوٰۃ الکسوف کا وقت سورج گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر گرہن کے زائل ہونے تک رہتا ہے۔ البتہ اوقات مکروہ( جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں) میں نہیں پڑھی جاتی۔ ان اوقات مکروہ میں نماز کے علاوہ دعا، استغفار، ذکر اذکار وغیرہ کرتے رہنا چاہیے۔
۔:2صلوٰۃ الکسوف کے لیے اذان و اقامت نہیں۔
۔:3صلوٰۃ الکسوف میں خطبہ نہیں ہوتا۔
۔:4صلوٰۃ الکسوف کی دو رکعتیں ہیں۔
۔:5صلوٰۃ الکسوف باجماعت ادا کی جائے اگرچہ انفرادا بھی گنجائش ہے۔
۔:6صلوٰۃ الکسوف سری نماز ہے لیکن جہر کی گنجائش بھی موجود ہے۔
۔:7صلوٰۃ الکسوف بھی دو رکعات والی عام نماز وں کی طرح ہے یعنی ہر رکعت میں ایک رکوع ہے۔ ہاں قرات اور رکوع و سجود طویل ہونے چاہییں۔
فائدہ:جن روایات میں ایک رکعت میں ایک سے زائد رکوع کا تذکرہ ملتا ہے وہ آپﷺ کی خصوصیت تھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر دن اور ہر رات شریعت کے موافق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔آمین

سورج گرہن اور دعا

:۔دعا ایسا نیک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں اپنی صفت رحمت کو صفت غضب پر غالب فرما لیتے ہیں اور مصائب سے چھٹکارا نصیب فرماتے ہیں۔ سورج گرہن کا وقت بھی انہی اوقات میں شامل ہے جس میں انسان مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو مصائب نازل ہوچکے یا ہونے والے ہوں اس میں دعا کام آتی ہے۔اس لیے اللہ کے بندو! دعاؤں کا خوب اہتمام کرو۔(جامع الترمذی، الرقم: 3548)۔اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے اصل تو یہ ہے کہ انسان کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو اس موقع پر زبان اور دل دونوں سے اللہ اللہ کی صدا سنائی دینی چاہیے۔ سورج گرہن سے خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اگر اس خوف میں اللہ کی رحمت کی آمیزش نہ کی جائے تو محض خوف مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی اللہ سے دور کرتی ہے اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ کا ذکر کرنا چاہیے کیونکہ قرآنی فیصلہ ہے کہ ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔

سورج گرہن اور عذاب قبر سے پناہ

:۔سرسری طور پر سورج گرہن اور عذاب قبر میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان دونوں میں مناسبت موجود ہے اسی لیے اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ابن منیر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے میں مناسبت یہ ہے کہ جیسے قبر میں اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح سورج گرہن کے وقت دن میں بھی اندھیرا ہوجاتا ہے(یہ الگ بات ہے کہ قبر کا اندھیرا سورج گرہن کے اندھیرے سے کہیں زیادہ ہوگا ) اور ضابطہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے یاد کرنے کا سبب ہوتی ہے اس لیے انسان سورج گرہن کے وقت خوف زدہ ہوتا ہے جس طرح قبر کے عذاب سے خوف زدہ ہوتا ہے تو وہ آخرت کی ہولناکیوں سے نجات دینے والی چیزوں کو اختیار کر کے عبرت حاصل کرتا ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری)
سورج گرہن اور صدقہ و خیرات: ۔اللہ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کر کے مستحق افراد کی ضروریات کو پورا کرنا صدقہ وخیرات کہلاتا ہے۔صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور اعلانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔(شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 7704)

سورج گرہن اور اصلاح عقائد:

۔ساری دنیا کو اپنی روشنیوں سے روشن کرنے والے سورج کا بے نور ہونا چونکہ غیر معمولی نوعیت کا واقعہ ہوتا ہے اس لیے اس موقع پرمختلف قسم کی باتیں پھیل جاتی ہیں بعض لوگ تو اسے محض اتفاق ہی سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کو اپنے مخصوص نظریات کی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اسلام ایسے موقع پر اپنے ماننے والوں کو جہاں نیک اعمال کی تعلیم دیتا ہے اس سے پہلے اُن کے عقائد کی اصلاح کرتا ہے تاکہ اس طرح محیر العقول واقعات کو دیکھ کر توہمات میں مبتلا ہو کر اسے محض اتفاق کا کرشمہ مت سمجھیں اور نہ ہی اس بارے کسی طرح کے غیر حقیقی نظریات اپنائیں۔ حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا… اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔(صحیح مسلم، الرقم: 2044)۔ یہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں محض اتفاق کا کرشمہ نہیں جیسا کہ منکرین کا نظریہ ہے۔

سورج گرہن اور نجومیوں کا خیال

:۔نجومی یعنی سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والے اور انہی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنے والے لوگوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور چاند گرہن کے موقع پر خوف کھانا اور نماز،دعا استغفا ر وغیرہ کی تعلیم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند میں ذاتی طور پرنفع و نقصان دینے کے اختیارات موجود ہیں تبھی تو ان کے گرہن لگنے کے موقع پر ڈرا جاتا ہے۔اسلام اس کی تردید کرتا ہے۔ یہ خود رب اور اللہ نہیں کہ ذاتی طور پر کسی کو نفع یا نقصان دے سکیں بلکہ ان کی حیثیت محض قدرت باری تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر ہے اور بس۔
رسول اللہﷺ کی تعلیم:۔حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: سورج و چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، یہ تو قدرت خداوندی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز پڑھو۔(صحیح البخاری، الرقم: 1041)۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ(سورج اور چاند گرہن ) نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتاہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کا ذکر کرو ، اس سے دعا اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔( صحیح البخاری، الرقم: 1059)۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو سورج گرہن کے بارے وہ سب باتیں تعلیم کے طور پر ارشاد فرمائیں جو اللہ چاہتے تھے اور بعد میں انہیں حکم دیا کہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔(صحیح البخاری، الرقم: 1050)​
ماشاءاللہ
جزاک اللہ
 
Back
Top