Tabahi se bachna hai to be careful, Corona is no one's Friend

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
تباہی سے بچنا ہے تو احتیاط کریں کورونا کسی کا دوست نہیں ۔۔۔۔۔ طیبہ بخاری


corona.jpg

جولائی کے آخر ، اگست میں کورونا کیسز عروج پر ہونگے ،فرنٹ لائن پر حالات
تسلی بخش نہیں،بے احتیاطی کی تو سب کی زندگی اور ملک کو خطرے میں ڈالیں گے

ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو یورپ اور امریکہ جیسا حال ہوگا

دنیا بھر میں اب تک 70 لاکھ سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 4لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ ہے جہاں متاثرین کی تعداد 19 لاکھ سے زائد ہے جبکہ1 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ برازیل دنیا میں متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے جبکہ برطانیہ اموات کی تعداد کے اعتبار سے دوسرا سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔نیوزی لینڈ’’ کورونا فری ‘‘ہو چکا جبکہ بھارت کی صرف ایک ریاست مہاراشٹر میں ہی چین سے زیادہ متاثرین ہیں ، پاکستان میں متاثرین کی تعداد1 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ2ہزار سے زائد افراد اس مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرین اور ہلاکتیں صوبہ پنجاب میں ہیں۔
وزیر اعظم بار بار عوام کو اعتماد میں لے رہے ہیں ، اپیل کر رہے ہیں ۔۔۔بہت مشکل وقت آنیوالا ہے ۔۔۔بے احتیاطی کی تو سب کی زندگی اور ملک کو خطرے میں ڈالیں گے ۔۔۔جولائی کے آخر یا اگست میں کورونا کیسز عروج پر ہونگے ۔۔۔ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو یورپ اور امریکہ جیسا حال ہو گا ۔۔حکومت ملک میں رواں ماہ 1ہزار آکسیجن بیڈز فراہم کریگی ۔۔2بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ کے آئسولیشن وارڈز بھر چکے ۔۔اب پوچھا جا رہا ہے ۔۔۔ہسپتالوں میں کتنی جگہ باقی ہے ؟ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی دستیابی کی معلومات کیلئے ایپ لانچ کر دی گئی ۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کہہ رہے ہیں آنیوالے دنوں میں مزید وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑیگی۔۔۔فرنٹ لائن پر حالات تسلی بخش نہیں تیزی سے بدل رہے ہیں۔۔۔ سندھ سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کورونا سے بچائو کا واحد حل کرفیو ہے ۔۔۔۔۔
آخر کیوں ہم اس بحث میں مبتلا ہیں کہ کورونا ہے بھی یا نہیں ۔ یہ وائرس شروع کہاں سے ہوا؟کورونا اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟ ویکسین کب تک بن جائے گی؟ اور ویکسین میں کس ملک یا شخصیت کا کتنا فائدہ ہو گا اور کون کتنا کمائے گا۔۔۔؟

اگر ہم صرف یہ طے کر لیں کہ ہمیں کورونا سے ہر حال میں بچنا ہے اور حکومت کے فراہم کردہ ایس او پیز کے مطابق کاروبار زندگی کو چلانا ہے تو ہم نہ صرف خود کو بلکہ اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ ان گنت مسائل سے جان بھی چھڑا سکتے ہیں،سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب زندگی سے دور ہونا نہیں بلکہ اپنی اور سب کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے ۔ ۔ لیکن جس تیزی سے کورونا ملک میں پھیل رہا ہے اور شرح اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے دنیا کی حالت زار سے کچھ نہیں سیکھا اور غفلت اور لاپروہی کے باعث بہتری کی جانب اب تک سفر شروع نہیں کیا ۔ جن لوگوں کو اب تک کورونا کے وجود اور انتہائی موذی ہونے کا یقین نہیں آ رہا انکی خدمت میں صرف فرنٹ لائن پر لڑنے والوں یعنی ڈاکٹرز اور طبی عملے کے حالات بیان کریں تو شاید انکی آنکھیں کھل سکیں ۔ ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کورونا دنیا بھر میں کووڈ 19 کیخلاف برسر پیکار فرنٹ لائن پر موجود طبی عملہ بری طرح متاثر ہوا اور بڑی تعداد میں ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر عملہ اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔فرنٹ لائن پر موجود عملے میں ڈاکٹرز نرسز اور دیگر طبی عملہ زیادہ وقت مریضوں کے ساتھ گزارتے ہیں جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہوتی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں کورونا سے اب تک 1904 ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد متاثر ہوئے ہیں

جن میں سے کم از کم 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔اس وائرس سے وہ ڈاکٹر بھی متاثر ہوئے جو نجی کلینکس پر مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور وہ طبی عملہ بھی جو ہسپتالوں میں علاج کیلئے موجود رہتے ہیں۔ مئی تک وزارت صحت کے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کوروناسے 1035 ڈاکٹرز، 299 نرسیں اور دیگر صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے 570 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرین میں سے بیشتر کو اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ کیا گیا ۔ روزانہ کی بنیاد پر جیسے جیسے کورونا سے متاثرہ مریضوں اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، طبی عملے کے افراد بھی اسی رفتار سے متاثر ہورہے ہیں اور ان کی اموات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔صوبہ سندھ میں کورونا سے متاثر ہونیوالے طبی عملے کی تعداد 538 ہے ان میں 411 ڈاکٹرز اور 44 نرسیں شامل ہیں، اب تک8 ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد جانیں گنوا چکے ہیں۔خیبر پختونخوا میںینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق اب تک 325 ڈاکٹرز متاثر ہوئے۔ مئی کے آخر تک وزارت صحت کے مطابق صوبے میں 249 ڈاکٹروں اور 97 نرسوں سمیت کل 552 ہیلتھ کیئر ورکزر اس وائرس سے متاثر ہوئے ۔ کل 326 ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہوئے جن میں 100 خواتین ڈاکٹرز شامل ہیں اور ان میں 80 ڈاکٹرز وہ ہیں

جو گائنی وارڈ میں تعینات ہیں۔ صرف پشاور میں 153 ڈاکٹروں میں وائرس پایا گیا جبکہ صوے کے دیگر تمام شہروں میں 173 ڈاکٹرز اس وائرس کا نشانہ بنے ۔کورونا کے وار صوبہ پنجاب کے طبی عملے پر بھی جاری ہیں ۔ وزارت صحت کے مطابق 108 ڈاکٹروں اور 108 نرسوں سمیت 341 طبی عملے پر وائرس نے حملہ کیا ان میں 117 ہسپتالوں میں قرنطینہ میں ہیں اور سب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔محکمہ صحت کے مطابق پنجاب میں ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت طبی عملے کا کوئی ایک بھی فرد ہلاک نہیں ہوا جبکہ پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ صوبے میں6 ڈاکٹر زاور 2 نرسوں کی شہادت ہوئی سب سے زیادہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ لاہور اور ملتان میں متاثر ہوئے ۔ بلوچستان میں 173 ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کے 237 افراد متاثر ہوئے اور ان سب نے اپنے اپنے گھروں میں ہی خود کو قرنطینہ کر لیا تھا ۔

وزارت صحت کے مطابق بلوچستان میں 2 ڈاکٹر شہید ہوئے ۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز( پمز) اسلام آباد میں بڑی تعداد میں مریض پہنچنے کے بعد وفاقی دارالحکومت کے ڈاکٹر بھی وائرس سے محفوظ نہ رہ سکے۔وزارت صحت کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں 84 ڈاکٹروں اور 46 نرسوں سمیت طبی عملے کے 185 افراد متاثر ہوئے ۔گلگت بلتستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 6 ڈاکٹرز اور 2 نرسوں سمیت طبی عملے کے 42 افراد متاثر ہوئے۔ آزاد کشمیر میں متاثرہ طبی عملے کی تعداد سب سے کم رہی ۔
کیا اب بھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کورونا کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے، غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنیوالے اپنے اور دوسروں کی جان کے دشمن ہیں، عوام ایسے ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر یں گے تو کورونا کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ہمارا ملک امریکہ اور جرمنی جیسے حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا، بچائو کا واحد راستہ ایس او پیز پر عمل کرنا ہے۔ یاد رکھیں کورونا کیخلاف جنگ کسی جماعت یا حکومت کی نہیں بلکہ 22کروڑ پاکستانیوں کی ہے۔ حکومت عوام کو کورونا سے بچانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے، عوام کو بس اتنا کرنا ہے کہ اس موذی مرض سے بچائو کیلئے گھروں میں رہیں۔

ہپاٹائٹس بھی تیزی سے پنجے گاڑنے لگا: گیلپ سروے

۔2018ء میں ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں تپ دق کی شرح میں سرفہرست جبکہ ہیپاٹائٹس کے پھیلائو میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2019ء میں گورنر پنجاب چودھری سرور نے انکشاف کیا تھا کہ پنجاب میں 1 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ رواں سال فروری میں سندھ کے ضلع ٹنڈو الہ یار کے گائوں سارنگ ہکڑو کے 20 فیصد افراد میں کالے یرقان (ہیپاٹائٹس بی اورسی) کی تصدیق ہوئی تھی۔ اور اب گیلپ پاکستان کی سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وائرل ہیپاٹائٹس پاکستان میں تیزی سے پنچے گاڑنے لگا ہے۔ گذشتہ سال 64 لاکھ افراد نے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ کروایا جس میں سے 26 لاکھ یعنی 41 فیصد افراد میں ہیپاٹائٹس بی اور سی مثبت آیا۔ 88 فیصد افراد اِس بیماری سے بچائو کیلئے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے جبکہ صرف 8 فیصد احتیاطی تدابیراختیار کررہے ہیں۔ گذشتہ سال 42 لاکھ پاکستانی ملیریا جبکہ 21 لاکھ افراد ٹی بی کا شکار ہوئے۔

کورونا سے بچوں میں دل کے امراض جنم لینے لگے

طبی ماہرین کے مطابق کورونا عمر رسیدہ افراد کیلئے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوا کیونکہ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔لیکن اب حال ہی میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں کوروناسے متاثر درمیانی عمر کے لوگوں میں فالج کے واقعات دیکھنے میں آئے ۔امریکی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس درمیانی عمر کے چند ایسے مریض آئے ہیں جنہیں فالج کا دورہ پڑا اور جب ان کی تشخیص کی گئی تو ان میں کورونا پایا گیا۔ کورونا جسم میں داخل ہونے کے بعد دماغ میں خون پہنچانے والی شریانوں کو متاثر کرتا ہے اور کچھ دنوں بعد یہ صورتحال بگڑ جاتی ہے اور مریض فالج کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔محققین نے شبہ ظاہر کیا کہ کورونا کے مریضوں میں فالج کی وجہ خون کی شریانیں متاثر ہونا ہے۔ جب کورونا وائرس انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو ہمارا جسم اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتا ہے جس سے وائرس پھیپھڑوں میں داخل نہیں ہو پاتا تو وہ دماغ کی جانب بڑھتا ہے اور خون آگے پہنچانے والی رگوں میں قیام پذیر ہوجاتا ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان کی ماہر امراض قلب ڈاکٹر شازیہ نے انکشاف کیاہے کہ سندھ میں بچوں میں دل کے امراض پر تحقیق کی گئی جس کے مطابق سندھ میں 5 بچوں کی کورونا کے باعث دل کی شریانیں متاثر ہوئیں۔صوبے میں دل کی شریانوں کے متاثرہ 15 بچوں کی نشاندہی کی گئی تھی 15 میں سے 5 بچوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، متاثرہ بچوں کی عمریں 10 ماہ سے 16 سال کے درمیان ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں 2 ماہ میں کورونا سے اب تک ایسے 10 بچے سامنے آئے ہیں۔دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے صورتحال تیزی سے خراب ہورہی ہے، اللہ پاک ہم سب پر خصوصی کرم فرمائے۔ صوبائی حکومت نے کراچی میں ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ (ایچ ڈی یو) بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ایکسپو سینٹر، لیاری جنرل ہسپتال، قطر ہسپتال، کورنگی نمبر 5 اور سائٹ ایریا میں ایچ ڈی یو بنائے جارہے ہیں۔ ایکسپو سینٹر میں 150 بستروں کا ایچ ڈی یو اور 6 وینٹی لیٹرز کی سہولت فراہم کی جائیگی،جناح ہسپتال میں بھی 100 بستروں کا ایچ ڈی یو بنایا جا رہا ہے۔ قطر ہسپتال میں 100 بستروں پر مشتمل ایچ ڈی یو بنایا جارہا ہے، لیاری جنرل ہسپتال میں مزید 40 بستروں کا ایچ ڈی یو بنارہے ہیں۔کورنگی نمبر 5 کے ہسپتال میں 100 بستروں پر مشتمل ایچ ڈی یو بنایا جارہا ہے جبکہ سائٹ ایریا میں 50 بستروں پر مشتمل ایچ ڈی یو بنایا جارہا ہے۔ تمام منصوبے جون کے اختتام تک مکمل کر لیے جائیں گے، شہر میں بڑھتے ہوئے کورونا کے کیسز کے باعث فوری طور پر منصوبوں پر کام جاری ہے۔

کورونا سے سماجی مسائل نے بھی جنم لیا
آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات میں 189 فیصد اضافہ

عالمگیر وبا کورونا سے نا صرف ملکی معیشت اور صحت کا نظام متاثر ہوا بلکہ متعدد سماجی و دیگر مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ ملک میں گذشتہ 2 ماہ میں آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات میں 189 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ ڈیٹا سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کے ذریعے سے اکٹھا کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مارچ اور اپریل کے مہینے میں آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات میں 189 فیصد اضافہ ہوا، 74 فیصد خواتین جبکہ 19 فیصد مردوں کی جانب سے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ ان واقعات میں تصاویر، ویڈیوز اور دیگر ذاتی معلومات کے ذریعے بلیک میل کرنے کی شکایات شامل ہیں۔ ۔۔۔2ماہ قبل اپریل میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے خبردار کیا تھا کہ کورونا کی آڑ میں سائبر حملوں کا بھی خطرہ ہے۔شہریوں کو ان حملوں سے بچنے کیلئے پی ٹی اے نے چند اہم ہدایات جاری کیں اور کورونا کے نام پربھیجے گئے پیغامات سے محتاط رہنے کا کہا۔پی ٹی اے کے مطابق آن لائن جرائم کرنے والے عناصر وباء کے نام سے فائدہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں، ہیکرز یہ کام مالی فوائد کے حصول کیلئے کر رہے ہیں۔ سائبر حملوں سے بچنے کیلئے عوامی مقامات پر اوپن وائی فائی استعمال کرنے اور حساس معلومات، پاس ورڈز یاکریڈٹ کارڈ کی معلومات آئن لائن دینے سے گریز کیا جائے جبکہ انٹرنیٹ سروس فراہم کونے والے ادارے بھی کورونا کے نام کے سائبر حملوں سے محتاط رہیں۔


 

@intelligent086
کوئی احتیاط نہیں ہے
بد پرہیزی عروج پر ہماری سوسائٹی سے تین تین جنازے اٹھائے جا رہے ہیں لوگوں کو پھر بھی خوف نہیں
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@intelligent086
کوئی احتیاط نہیں ہے
بد پرہیزی عروج پر ہماری سوسائٹی سے تین تین جنازے اٹھائے جا رہے ہیں لوگوں کو پھر بھی خوف نہیں
شیئر کرنے کا شکریہ
یہ تو گردونواح کی بات کر رہی ہے حالات اس سے بھی برے ہوتے جا رہے ہیں ہمارے کئی ساتھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، اب سٹیرائیڈز سے بہلایا جارہا ہے سٹاف مریض کے پاس جانے سے گھبرانا شروع ہو گیا ہے یہی سمجھ لو عوام کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔
 
Back
Top