Tajziya Braye Aurat March

تجزیہ برائے عورت مارچ، (میرا جسم میری مرضی)۔۔۔​

ڈاکٹر ماریہ نقاش​

PicsArt_03-09-08.04.41.jpg?resize=410%2C273&ssl=1?ver=1.jpg


فیمینزم لفظ جب نگاہوں سے ٹکراتا ہے،یا سماعت کے دریچوں میں سرایت کرتا ہے،تو ایک نہایت ناخوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے،واضح رہے کہ ماڈرنزم مذہب اسلام سے زیادہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں،لیکن یہاں معاملہ عجیب ہے۔اگر ماڈرنزم نام دیا جاتا ہے بے حیائی کو ،اسلامی اور انسانی قدروں کی پامالی کو.،تو ہاں میرا مذہب ماڈرن نہیں ہے۔
اگر لفظ ماڈرنزم اور فیمینزم کا صحیح ترجمہ کیا جائے اسکا مفہوم دیکھا جائے تو اصل تحفظات ،قدریں اور اور عزتیں مذہب اسلام نے دی ہیں عورت کو۔۔اسلام سے زیادہ کوئی مذہب ماڈرن نہیں۔
کسی مذہب میں عورت کے تحفظ عزت جائیداد اور رتبے پر بحث نہیں کی گئی۔۔سوائے اسلام کے۔
آئیے قارئین کرام ہم ماڈرنزم اور فیمینزم کے نام پر فحاشی اور بے حیائی میں قرق کرتے چلیں۔اسلام عورت کو انفرادیت بخشتا ہے،عزت بخشتا ہے،لیکن یہ یورپین کلچر کی متعارف کردہ فیمینزم ٹرم عورت کو بے حیائی ،خود مختاری اور فحاشی پر اکساتی ہے۔اپنے سے منسلک رشتوں کو پامال کرتے ہوئے میرا جسم میری مرضی جیسے جملوں پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
یاد رہے کسی بھی ملک کسی بھی زبان میں انسان کی مونث کو عورت ہی بولا جاتا ہے۔۔اور عورت کا معنی چھپی ہوئی، پوشیدہ۔۔آنکھوں سے اوجھل، پردہ کے پیچھے ،غائب، یا نہ نظر آنے والی چیز کا نام ہے۔تو قارئین یہاں میں آپکی رائے لیتے ہوئے آگے بڑھوں گی۔جب عورت کے نام کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے تو کیایہ احمقانہ حرکت نہیں کہ ایک عورت ہی اٹھ کر اپنے متعلق بولے کہ میرا جسم میری مرضی اور مزید یہ کہ ہر چھپی ہوئی چیز کو پوشیدہ رکھنے والا کوئی ذی روح ہوتا ہے،جو اس چیز کو آنکھوں سے اوجھل رکھتا ہے،اس تک کسی کی رسائی نہیں ہونے دیتا،اسی طرح عورت کو پوشیدہ رکھنے والی ذات مرد ہے.۔
تو جس نے تمہیں چھپا کے، سنبھال کے رکھنا ہے،تم اسی کے خلاف نعرہ بازی اور احتجاج کر رہی ہو،اسی کے ماتحت ہونے سے انکار کر رہی ہو۔ذرا ہوش کے ناخن لو،تم نہ صرف اپنے کردار اور اپنے نام کی نفی کر رہی ہو ،بلکہ صدیوں سے جو خواتین عورت نام کی پاسداری کرتی آ رہی ہیں تم انکی بھی کردار کشی کر رہی ہو۔
نا صرف عورت لفظ کے مطالبات کے برعکس چل رہی ہو بلکہ اپنے آباؤاجداد کی روایت بھی توڑ رہی ہو،عورت کسی بھی دور کی کیوں نہ ہو،کسی بھی ملک کی کیوں نہ ہو،کسی بھی رنگ نسل ذات یا مذہب کی کیوں نہ ہو،عورت ہمیشہ مرد کے ماتحت تھی،ہے اور رہے گی۔۔
قارئیں میں اپنی اس بات کو یہاں واضح کیے دیتی ہوں ۔ذرا غور کیجییے ماڈرنزم کے اس پہلو پر ۔۔
کیا اس سے زیادہ ماڈرنزم اور فیمنزم کوئی ہو سکتی ہے جب تہذیب جیسے لفظ سے بھی کوئی انسان متعارف نہیں تھا، مگر اس جہالت کے دور میں بھی اس وقت کی خواتین نے بے حیائی نہیں پھیلائی،جب لباس جیسی چیز کا تصور نہیں تھا تو ان مردوں نے اپنی عورتوں کو درخت کے پتے مہیا کیے اور ان خواتین نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا جسم ہماری مرضی، انہوں نےپتوں کو بطور لباس استعمال.کیا،یہ بات تو تھی زمانہ جاہلیت کی ،جب مرد کہیں بھی پڑ کر سو جاگ لیتے تھے۔۔مگر انکو گھر بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
کبھی لکڑیوں اور کبھی پتھروں کے گھر کیوں بنائے گئے؟
کبھی غاروں میں بسیرا کیوں کیا گیا؟
کیونکہ اس دور میں بھی بغیر تہذیب کے بھی ان لوگوں میں یہ تصور بیدار تھا کہ عورت چھپائی جانے والی چیز ہے،اور اسے سنبھال کر رکھنا ہے،عورت کو ہمیشہ ڈھک کے چار دیواری کے اندر رکھا گیا مگر اس نے کبھی یہ نہیں کہا میرا جسم میری مرضی۔
آج کے دور میں بھی عورت اپنی زندگی کے ہر دوراہے پر مرد کے سہارے اور حفاظت کی محتاج ہے۔
میں حیران ہوں کہ ماروی سرمد یہ انقلابی جملہ کیسے بول سکتی ہے اور احتجاج کیسے کر سکتی ہے،جبکہ وہ خود کسی باپ کی بیٹی ہے،اور باپ بھی ایک مرد ہوتا ہے،پیدا ہونے کے بعد اگر اسکے والد اسے گھر مہیا نہیں کرتے،کھانے کو پینے پہننے اوڑھنے اور زندگی بسر کرنے کو اشیا میسر نہیں کرتے تو کیا یہ معاشرہ اسے جینے دیتا،اسے معاشرے کے لوگ کچل کر گزر نہ جاتے؟
پڑھائی کیلئے پیسہ اور رہنے کیلئے سٹیٹس,دینے والا باپ بھی مرد ہی تھا،بچپن سے جوانی تک جس باپ کے حکم پر چلی وہ بھی مرد ہی تھا،سکول و کالج کے رزلٹ کارڈ پر جسکا نام لکھا وہ باپ بھی مرد ہی تھا،غرضیکہ اپنی زندگی کے ہر دور میں کامیابی کا ہر زینہ چڑھتے ہوئے جس کے کندھے پر پاؤں رکھ کر یہ اوپر آئی وہ کندھا بھی ایک باپ ایک مرد کا ہی تھا۔
جب یہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ مرد کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے تو،یہ ماروی سرمد کون ہوتی ہے مرد کے ماتحت ہو کر زندگی گزارنے سے منع کرنے والی؟
کیا یہ باپ کا اپنی زندگی میں کردار بھول گئی؟مرد دن بھر ان تھک محنت کرتا ہے,تا کہ انکی عورتوں کو باہر نکل کر کمانا نہ پڑے،معاشرے کی نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے،یہ مرد ہی ہے جو عورت کو چھپا کر خود زمانے کی دھوپ چھاؤں کو برداشت کرتا ہے۔
کبھی سنا ہے بن باپ کی بیٹی کا حال؟
کبھی سنا ہے بن بھائی کے بہن کا سسرال؟
کبھی دیکھی ہے بن بیٹے کی تڑپتی ماں؟
اگر ن سب رشتون پر تم غور کرو تو تمہیں سمجھ آئے یہ سب مرد ہی ہیں جو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی روپ میں ہماری زندگی میں بہار لاتے ہیں اور خزاں سے بچاتے ہیں۔یہ سب باتیں اگر تمہیں سمجھ آ جائیں تو شاید عورت مارچ سے پہلے تمہارا نظریہ بدل جائے۔
کیا دیکھا ہے تم نے کبھی غیرت کے نام پر بھائی کٹتے اور لڑتے؟
کبھی حفاظت کے نام پر سائیکل چلاتے ہوئے بوڑھے باپ کی ناتواں شل ٹانگوں کاتصور کیا ہے جو سائیکل پر بیگ ٹانگے سکول و کالج سے بیٹی کو لینے چھوڑنے جاتا ہے۔
میرا جسم میری مرضی بول کر اور مرد کی دسترس سے آزاد ہو کر جسم و لباس کی نمائش کرنے والی فیمینزم کو فروغ دینے والی ایک لڑکی, ایک عورت بن کر ماں کے روپ میں کیسا کردار ادا کرے گی؟کیسی نسل تیار ہو گی؟کیسی قوم تشکیل پائے گی؟
یہ اپنی ذات کی حد تک نعرہ بازی تو کر سکتی ہیں ۔ا حتجاج تو کر سکتی ہیں،دوسروں کو دعوت تو دے سکتی ہیں فیمنزم کی،مگر ان خواتین سے اگر پوچھا جائے کہ یہ اپنی بیٹیوں کو کتنے فیصد آزادی دیں گی کہ وہ میرا جسم میری مرضی کے مقولے پر عمل درآمد ہوں تو یقیناً ان کا جواب نفی میں ہو گا۔
مختصرا ًیہ کہ ماروی صاحبہ اگر آپ یورپین کلچر کو بھی فالو کر رہی ہیں تو،انکے کلچر میں بھی یہ کیس اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ باپ اور ماں کی باز پُرس پر بچوں نے پولیس بلا لی،وہ بھی میرا جسم میری مرضی جیسے جملے پر عمل پیرا نہیں ہیں ان میں بھی غیرت باقی ہے،وہ بھی اپنے بچوں کو میرا جسم میری مرضی پر عمل کرنے نہیں دیتے ،تو ہم تو پھر اسلامی ملک کے باشندے ہیں، ہمارا مذہب ہمیں ہمارا جسم ہماری مرضی کے مقولے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ایسا نہ ہو کہ انکی یہ اسلام دشمن سر گرمیاں کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوں،جس کے نتیجے میں ملک پاکستان کا امن و سکون تہ و بالا ہو کر رہ جائے۔​
 

میرا جسم میری مرضی بول کر اور مرد کی دسترس سے آزاد ہو کر جسم و لباس کی نمائش کرنے والی فیمینزم کو فروغ دینے والی ایک لڑکی, ایک عورت بن کر ماں کے روپ میں کیسا کردار ادا کرے گی؟کیسی نسل تیار ہو گی؟کیسی قوم تشکیل پائے گی؟
یہ اپنی ذات کی حد تک نعرہ بازی تو کر سکتی ہیں ۔ا حتجاج تو کر سکتی ہیں،دوسروں کو دعوت تو دے سکتی ہیں فیمنزم کی،مگر ان خواتین سے اگر پوچھا جائے کہ یہ اپنی بیٹیوں کو کتنے فیصد آزادی دیں گی کہ وہ میرا جسم میری مرضی کے مقولے پر عمل درآمد ہوں تو یقیناً ان کا جواب نفی میں ہو گا۔
مختصرا ًیہ کہ ماروی صاحبہ اگر آپ یورپین کلچر کو بھی فالو کر رہی ہیں تو،انکے کلچر میں بھی یہ کیس اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ باپ اور ماں کی باز پُرس پر بچوں نے پولیس بلا لی،وہ بھی میرا جسم میری مرضی جیسے جملے پر عمل پیرا نہیں ہیں ان میں بھی غیرت باقی ہے،وہ بھی اپنے بچوں کو میرا جسم میری مرضی پر عمل کرنے نہیں دیتے ،تو ہم تو پھر اسلامی ملک کے باشندے ہیں، ہمارا مذہب ہمیں ہمارا جسم ہماری مرضی کے مقولے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ایسا نہ ہو کہ انکی یہ اسلام دشمن سر گرمیاں کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوں،جس کے نتیجے میں ملک پاکستان کا امن و سکون تہ و بالا ہو کر رہ جائے۔
حاصل بحث۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Back
Top