Taqreerein Bohat Sunn Cuhukey By Rasool Baksh Raees

تقریریں بہت سن چکے۔۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

بیس سال میدانِ سیاست میں گزار کر کپتان صاحب تقریر فی البدیہہ کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ زیادہ طبع آزمائی 2013 کے انتخابات کے بعد دھرنے کے دوران کی۔ روزانہ تقریر پہ تقریر۔ کافی عرصہ ہو چلا ہے کہ اپنے محترم سیاسی قائدین کی تقاریر نہیں دیکھ پایا‘ نہ سن سکا۔ ہو سکتا ہے آپ کی طبیعت سیاسی تقریریں سننے کی جانب مائل ہو‘ اس خاکسار کا تو جی اکتا چکا ہے۔ اب وہ زمانہ تو گزر چکا جب ہم ایوب خان کے خلاف تحریک میں شامل تھے‘ اور ہر سیاسی جماعت کے جلسے میں جاتے تھے۔ جلسے رات کو ہوا کرتے تھے۔ تقریباً ہر شہر میں۔ نواب زادہ نصراللہ خان‘ مفتی محمود کے جلسوں میں تو بہت شرکت کی۔ دونوں کمال کے مقرر تھے۔ بات کرنے کا سلیقہ‘ زبان ایسی کہ دل پہ اثر چھوڑے اور لہجے میں گھن گرج۔ کامیابی کا یقین اور جمہوریت کی بحالی کی نوید۔ بھٹو صاحب کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت کی۔ ان کی تقاریر میں ڈرامہ‘ فنکاری‘ عوامیت اور مساوات کا پیغام ہم جیسے غریبوں کو مسحور کر دیتا تھا۔ جب ان کے خلاف تحریک چلی تو تب بھی یہ خاکسار لاہور کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتا تھا؛ اگرچہ اس وقت جامعہ پنجاب میں استاد کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اصغر خان کی تقاریر میں سچائی‘ سنجیدگی‘ متانت کے ساتھ مقابلے کا جذبہ ہوتا تھا اور ملک و ملت کا درد ان کی گفتگو سے جھلکتا تھا۔
وہ دور ختم ہوا‘ اس زمانے کے میرے جیسے لوگ عملی زندگی میں ایسے کھو گئے کہ عملی سیاست کی طرف سے دھیان ہی نہ گیا۔ اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ایک استاد ہونے کی حیثیت سے صرف استاد ہی بننا چاہئے‘ تدریس‘ تحقیق اور کالم نگاری۔ ضیاالحق صاحب کے دس سال جامعات میں آزاد رو لوگوں کے لئے ذرا مشکل تھے۔ احتیاط سے چلنا پڑا اور پھر جب جمہوریت بحال ہوئی تو پھر تماشہ ہی تماشہ تھا۔ رونق ہی رونق‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ انتخابات پہ انتخابات‘ جلسے جلوس اور باریاں‘ ایک پارٹی جا رہی ہے دوسری آ رہی ہے۔ کرداروں اور کردار کے بارے میں اب کیا بات کرنا‘ عوام جانیں اور ان کے محبوب رہنما اور ان کی پیاری جماعتیں جانیں۔ بس سب تقریریں دو چار لفظوں میں بیان کر سکتے ہیں۔ ایک طرف جمہوریت کے لئے قربانیوں اور شہیدوں کے لہو کی باتیں اور دوسری طرف وطن دشمنوں‘ بدعنوانوں اور غداروں کی بات۔ یہ سب سنتے سنتے کان پک گئے۔ کوئی منشور‘ کوئی پروگرام‘ کوئی مثبت تبدیلی۔ ہاں ایک طرف ترقی‘ موٹر وے اور صنعتوں کے جال کی باتیں بھی ہوتیں اور احتساب کی بھی‘ تو دوسری طرف غریبوں کی پارٹی‘ شہیدوں کی پارٹی اور عوام کی پارٹی پر زبان و بیان کا زور رہا۔ کہاں تک سنتے اور کہاں تک علم و دانش کی یہ باتیں ہم دامن میں سمیٹتے تھے۔ بس یہ جو دیکھا‘ اس کے بارے میں ہفتہ وار کالم لکھ ڈالا۔ اتنا اچھا سیاسی تماشہ ہو رہا ہو اور تواتر کے ساتھ اور ہم خاموش رہیں‘ ایسا تو نہیں ہو سکتا تھا۔
عمران خان صاحب میدان میں اترے تو نہ عوام نے اور نہ مبصرین نے انہیں پذیرائی بخشی۔ اوائل میں ان کے لئے ایک' جلسی‘ منعقد کرانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ محترم آغا شاہی مرحوم اسلام آباد کونسل آف ورلڈ افیئرز کے بانی صدر اور میں اس کا بانی سیکرٹری تھا۔ حکم دیا گیا کہ اسلام آباد کلب میں اپنے اراکین کے لئے‘ جن کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ تھی‘ خان صاحب کے سیمینار کا انتظام کروں۔ خان صاحب کے ساتھ محترمہ نسیم زہرا تھیں اور انہوں نے پہلے چند جملے کہہ کر خان صاحب کا ہماری کونسل کے ساتھ تعارف کرایا۔ سب ان کی تقریر سننے کے لئے بیتاب تھے۔ اچھی باتیں کیں۔ تیسری طاقت کے ابھرنے کا عزم واضح تھا اور یہ بھی کہ وہ اس میدان میں اتر چکے ہیں اور اب جو بھی ہو‘ وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پُر عزم‘ سنجیدہ اور طویل جدوجہد کے لئے تیار تھے۔ ایک عرصہ بعد‘ دو مرتبہ لمز میں طالب علموں کی ایک سوسائٹی کے سینئر کی حیثیت سے کپتان کو دعوت دی۔ دوسری مرتبہ وہ اس دن آئے جس دن پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ اب کپتان کی تقریر سننے کے لئے ہزاروں طلبہ آئے۔ جامعات سے باہر جہاں کہیں بھی جاتے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان جلسوں میں شریک ہوتے۔ ان کی تقاریر کا خلاصہ بھی چند جملوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ چوروں‘ ڈاکوئوں‘ لٹیروں کو میں کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑوں گا۔ احتساب کے بغیر یہ ملک آگے نہیں چل سکتا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت ان سے ہر صورت میں نکلوائوں گا۔ کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا کینسر ہے۔ اور جب دھرنے کی شاموں کو وہ اپنے کچھ پُرانے اور زیادہ تر نئے پارٹی کے اہم لوگوں کے درمیان گھرے رہتے اور تقریر کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے ''تبدیلی آ نہیں رہی‘ تبدیلی آ گئی ہے‘‘ اور پھر ''لٹیروں‘‘ کو ہمیشہ کی طرح للکارتے۔ غالباً دو یا تین مرتبہ میں نے ان شاموں کو مجمع کے درمیان مٹر گشت کیا۔ تقاریر سنیں‘ لوگوں کا‘ خصوصاً نوجوانوں کا جذبہ دیکھا‘ تو واقعی یقین ہو گیا کہ عمران خان کے سامنے روایتی سیاسی جماعتیں نہیں ٹھہر سکیں گی۔
لوٹ مار‘ احتساب اور تبدیلی کا بیانیہ پاکستان میں اپنی تاریخ رقم کر گیا۔ تحریکِ انصاف تیسری طاقت کے طور پر ابھری۔ یہ صرف عوام میں ان کے پیغام کا اثر نہیں تھا‘ بلکہ سیاسی گھرانوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر ان کی طرف پلٹا کھایا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی اکثریت کے ساتھ حکومت میں نہ آ سکے۔ کچھ غیبی طاقت‘ کچھ اپنا قد و قامت اور کچھ اقتدار کی کشتی کی نئی سواریاں‘ یہ عوامل ہیں جو ان کے سیاسی خواب کی تعبیر بننے میں مددگار ثابت ہوئے۔ ان کے خلاف محاذ تو انتخابات کے نتائج مکمل ہونے سے پہلے ہی تشکیل دیا جا چکا تھا۔ کھیل تو وہی ہے‘ جو چھانگا مانگا اور مری کے مہمان خانوں میں تھا‘ مگر اس کھیل کے کھلاڑی اب ایک ہی ٹیم میں شامل ہیں‘ مگر وردیاں اپنی اپنی‘ اوپر سے آدھی راضی آدھی ناراض اتحادی جماعتیں اور دوسری طرف پُرانے کھلاڑی‘ مگر سیاسی رنگ چالیس سالہ سیاسی محاذ آرائی کا غالب نظر آتا۔
کپتان ابھی تک ''تبدیلی‘‘ لانے کی تیاری میں ہیں۔ تقریروں میں مکالمہ بھی وہی پُرانا ہے۔ لب و لہجہ بھی وہی اور ان کے بیانیے اور مکالمے کا ہدف بھی وہی سیاسی گھرانے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ اپنے منشور پر عمل کرنا شروع کر دیں گے۔ انتظامی اصلاحات‘ حکومت میں کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کا شفاف عمل۔ دو سال گزر گئے‘ رفتار سست‘ مشکل فیصلے التوا کا شکار‘ نوکر شاہی پر گرفت نرم اور اس کے ہر حلقے میں کرپشن کا بازار حسبِ روایت گرم۔ درست ہے کہ خان صاحب کے خلاف ایسا کوئی الزام نہیں مگر کیا یہ کم ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے بہت کچھ ہو رہا ہو‘ اور وہ کچھ نہ کر سکیں۔ کیا کیا مثالیں دیں‘ کون کون سی بات کریں؟
اب بھی تقریریں اچھی ہیں‘ مگر کیا کریں ان تقریروں کو؟ اب نہ ملک کے لئے‘ نہ خود ان کے لئے ان تقریروں میں کوئی افادیت ہے۔ کیا فائدہ ایک جیسی گھسی پٹی باتیں دھرانے کا؟ سٹیل ملز کے بارے میں اچھا فیصلہ کیا ہے۔ جان چھڑائیں۔ پی آئی اے کو کس لئے رکھا ہوا ہے؟ ریلوے کو خسارے سے نکالنے کی کیا حکمتِ عملی ہے؟ پاور سیکٹر میں اصلاحات کیوں نہیں؟ خود کہتے ہیں کہ ایف بی آر میں کرپشن ہے۔ ابھی تک کیا کیا ہے اس کرپشن کے خاتمے کے لئے؟ ریاست کی تحویل میں ایسے اداروں کا خسارہ دو کھرب سے بھی زیادہ ہے۔ تبدیلی کا پھر مطلب کیا ہے؟ یہی کہ پُرانے لوگ نہیں‘ کپتان اقتدار میں ہے۔ ہم تو بس گزر ہی جائیں گے‘ بہت سفر کر لیا‘ جلسے بھی دیکھے‘ تقریریں بھی سنیں۔ نوجوانوں کو مایوس نہ کریں۔ اگر کپتان صاحب آپ تبدیلی نہ لا سکے تو نئی نسل کا اعتماد سیاست پر پہلے ہی بہت کمزور ہے‘ کمزور تر ہو جائے گا اور آپ بنی گالہ کے ہی ہو کر رہ جائیں گے۔​
 
Columnist
Rasul Bakhsh Rais
Column date
Jul 7, 2020

Back
Top