The Life of Last Year Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah By Sohaib Marghub

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
محمد علی جناحؒ کی زندگی کا آخری برس ۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

Mukammad Ali Jinnah.jpg

۔! 1948 کا سال قتل عام کی روک تھام، مسئلہ کشمیر کے حل اور ملکی معیشت کی بہتری کی کوششوں میں گزر گیا

تقسیم ہند پلان کی منظوری کے فوراََ بعد ہندوستان بھر میں جشن کا سماں تھا، دور سے غلامی نئے دور آزادی میں داخل ہونے کا منظر دیدنی تھا، دبی ہوئی قوم کو آواز ملنے والی تھی ۔
قوموں کی زندگی میں ایسے وقت کم ہی آتے ہیں اس لئے پرچوش تقریبات کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا کہ اگلی صبح ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان کر دیا گیا۔تقسیم ہند کی سکیم کا منظر عام پر آنا تھا کہ یکدم تقریبات کو بریکیں لگ گئیں، قتل عام شروع ہو گیا۔دہلی جہاں منٹوں پہلے جشن منایا جا رہا تھا، لمحوں میںموڈ بدلنے سے گلیاں مسلمانوں کے خون سے سرخ ہونے لگیں، جگہ جگہ سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ امرتسر اور اس کے نواحی علاقوں کا کنٹرول ہندوئوں کے مسلح جتھوں نے سنبھال لیا۔انہیں جو مسلمان ملا، موت کے گھاٹ اتار دیا۔لوٹ مار ، آتش زنی کی گئی۔ لاشوں سے بھری ریل گاڑیوں کی حالت اجاڑ ، ویران کھنڈر جیسی ہو گئی تھی۔مہاجرین سے کھچا کھچ بھری ٹرینوں کوزندہ مسلمانوں کے قبرستان میں بدل دیا گیا،یہ متحرک قبرستان، آخری رسومات کی ادائیگی گھومتے پہیوں پرکی گئی۔یہ لاشیں کھلے آسمان پر منڈلاتے گدھوں کی خوراک تھیں۔ریل گاڑیوں کے اوپر آسمان گدھوں سے برائون ہو گیا تھا۔لاہور کے پانی میںخون کی آمیزش تھی، قتل عام کے بعد مسلمانوںکی لاشیں دریائوں میں بہا دی گئی تھیں۔ مغلوں کے پرشکوہ باغات مہاجرین کے مرکز میں بدل دیئے گئے تھے۔

ادھر بنگال میں قیام پاکستان کے روزگاندھی مرن بھرت پر تھے، اگر اس دوران ان کی موت واقع ہو گئی ہوتی تو کتنے لوگ سوگ منائیں گے، اس بات سے وہ واقف تھے۔کلکتہ میں خوف و دہشت کے باعث کاروباری مراکزکو تالے لگا دیئے گئے۔ہندو محاسبہ‘‘ نامی تنظیم نے ملک بھر میں سیاہ پرچم لہرائے،کلکتہ کے مسلمانوں کے لئے اس سے خوفناک دن کوئی اور نہیں تھا۔ سب گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔حتیٰ کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں بھی یہی کیفیت تھی۔

اگست میں رمضان المبار ک کا مقدس مہینہ رخصت ہوا، قائد اعظمؒ نے نمازِعیدکے بعد مسحور کن اندازمیں فرمایا،

’’آپ اپنے آپ کوایک مضبوط ومتحد تنظیم ڈھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کومزید قربانیوں کیلئے تیارکریں۔کیوںکہ مملکتِ خدادادِ پاکستان کو آپ نے نہایت شاندارجگہ اوراچھی زندگی گزارنے کاگہوارہ بناناہے۔وہ خوشی ہمیں میسرنہیں آئی جوآنی چاہیے تھی،لیکن پھربھی ہم آج دُنیاکی آزادقوموں کی صف میں آگئے ہیں‘‘۔ (بائونڈری کمیشن نے تقسیمِ ہندکے ایوارڈمیں ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے اورریڈکلف نے17اگست 1947ء کو غیر منصفانہ فیصلہ کیاہے، مترجم)

فتح کی اس گھڑی میں حضرت قائد اعظمؒ علیل تھے لیکن علالت چہرے پہ عیاں نہ تھی، نقاہت تھی مگر عزم و ہمت کے پردے میں چھپی ہوئی۔قیام پاکستان کی جدوجہد میں انہیں اپنی صحت پرتوجہ دینے کی فرصت ہی کہاںتھی، زندگی کامشن تو بس پاکستان تھا۔بھوک مٹ چکی تھی،نیند بھی کم آتی تھی۔اور اوپر سے قتل عام کی شدت،لوٹ مار، آتش زنی خواتین کا اغوا ء اور ان سے زیادتی کے بھیانک واقعات ، ان سب نے انہیں مزید نڈھال کر دیا تھا،ان کی ہر صبح مسلمانوں کے قتل عام کے ذکر سے شروع ہوتی تھی۔یہ درد ان کی آنکھوں سے جھلکنے لگتا۔

آئین سازی کی کوششیں بھی جاری تھیں ملک نو زائیدہ ملکت خداداد پاکستان کیلئے نئے آئین کی تیاری اولین تقاضا تھا۔تمام دیگر مصروفیات کے باوجود وہ آئین سازی کے عمل سے بھی غافل نہ تھے اور اکثر ہی سوچ وبچار میں ڈوبے رہتے،انہوں نے استحکام پاکستان کی خاطر دیوانہ وار کام کیا،پوری لگن اور دل چسپی سے۔اور بے شک،اس دوران انہوں نے اپنی صحت کو یکسر نظرانداز کیا۔ ان کی روزانہ ہی بڑھتی ہوئی کھانسی اور اس کے ساتھ آنے والا بلغم تشویشناک تھا۔میرے اصرا رپر انہوں نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل رحمن سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا۔ڈاکٹر نے ملیریا کے ہلکے حملے کی تصدیق کی۔قائد اعظمؒ کو ادویات پسند نہ تھیں ، کہنے لگے، ’’مجھے کونسا سا ملیریا ہوا ہے‘‘۔میں نے آرام کرنے کی التجا کی،وہ نہ مانے ۔صاف انکار کیا اور کہنے لگے۔۔۔’’ابھی بہت سے کام کرنا باقی ہیں‘‘۔

کراچی میں صبح 8:30 بجے اٹھنا معمول تھا، ایک منٹ کی تاخیرکبھی نہیں دیکھی۔ صبح بیداری کے بعد وہ بڑی سی میز پر آجاتے، فائلوں اور کاغذوں سے ڈھکی ہوئی میز پر۔ سیگریٹ اور سگار اس کڑے وقت میں ان کے ساتھی تھے، سگارکی خوشبو کمرے میں پھیلی ہوتی۔

انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پائی پائی کا خیال کیا۔انہوں نے بیگم شاہنواز کے گوش گزار کیا تھا ۔۔’’ہمیں قیام پاکستان کے بعد محض20 کروڑ روپے ملے ہیں جبکہ 40 کروڑ روپے کے بل میری میز پر ہیں،آمدنی سے دگنے!۔ پاکستان کو اس کے حصے کے فنڈز نہیں دئیے جا رہے ۔یہ رویہ نہروکی پاکستان سے نفرت کا غماز تھا۔ پاکستان کو مفلوج بنانے کے لئے فنڈز روک لئے گئے تھے۔

پاکستان کی نازک صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ، حضرت قائد اعظم ؒ سے تو بالکل بھی نہیں۔وہ اسے اپنی صحت کے پیش نظر بھی دیکھ رہے تھے، 24اگست 1947ء کو انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان اور مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام پر گہری تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام رکوانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ۔اگست کے آخر میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر نے حضرت قائد اعظم ؒکو استقبالیہ دیا۔ اپنی تقریر میںانہوں نے کراچی میں امن و آشتی کی فضاء قائم رکھنے پر شہریوں کو سراہا۔ بانی پاکستان نے فرمایا ، ’’ کتنے فخر کی بات ہے کہ کراچی کے شہری اپنے دماغوں کو ٹھنڈا رکھتے ہیں، اور برصغیر کے دوسرے حصوں میںاس قدر انتشار اور گڑبڑ کے دوران بھی اپنے ہاں بھائی چارہ قائم رکھے ہوئے ہیں‘‘۔

حضرت قائد اعظمؒ کے کراچی میں قیام کے دوران ملک کے تمام حصوں سے لوگوں نے وہاں ڈیرے ڈالنا شروع کر دیئے، سرمایہ دارو ہوںیا بیوروکریٹس، مہاجرین ہوں یا مزدور ۔۔سبھی نے کراچی کا رخ کیا۔گرد آلود فضاء اور مٹی میں اٹی ہوئی سڑکوں پر چلنے والے قافلوں کی دھول دور سے ہی نئے آنے والے مکینوں کا پتہ دے رہی تھی۔ جائیدادوں کی قیمتیں راتوں رات کئی گنا بڑھ گئیں۔اشیائے صرف کی گرانی سے مہنگائی نے جنم لیا۔(جو آج تک جاری ہے:مترجم)

حضرت قائد اعظمؒ نے اگست کے آخر میں لاہور میں ہونے والی ’’جوائنٹ انڈو پاک ڈیفنس کونسل ‘‘ کے اجلاس میں شرکت کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاورنہ ڈاکٹروں نے کئی مہینے مکمل آرام کرنے کا مشوریہ دیا تھا۔مگر وہ لاہور میں ہونے والے نقصانات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ اجلاس میں انہوں نے پنجاب بائونڈری توڑنے کی تجویز پیش کی۔ایک کمیشن مائونٹ بیٹن نے ایک ماہ پہلے ہی بنایا تھا۔ المناک واقعات کے دوران یہ کمیشن منہ تکتا رہا اور قتل عام رکوانے میں ناکام رہا۔انہوں نے پاکستان کے حصے میں آنے والے 50ہزار فوجیوں کو پاکستانی سرحد کے اندربھیجنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ان فوجیوں کی ملک کے کسی بھی حصے میں ضرورت پڑ سکتی ہے‘۔انہیں امید واثق تھی کہ کشمیر بھی آزادہونے والا ہے ۔(شائد وہ کشمیر کی آزادی کے لئے ہی فوج مانگ رہے ہوں :مترجم)

مہاراجہ الگ ہی کھیل کھیل رہے تھے لیکن اس کے نتائج ان کی 30لاکھ بے آواز رعایا کی خطرے میںبھی ڈال سکتے تھے ۔حیدر آباد کے نظام بھی ہندوستان میں شمولیت کی تجویز مسترد کر چکے تھے۔کانگریس کو خفیہ ذرائع سے ایسی اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ نظام آف حیدر آباد چیکو سلاواکیہ سے ہتھیاروں کی خریداری کا معاہدہ کرنے والے ہیں۔ (اگر ایسا ہو جاتاتو وہ بھارت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل ہو سکتے ہتھے:مترجم)محمد علی جناحؒکو بھی انہیں اپنے اتحاد میں شامل کرنے کی امید تھی۔نظام آف حیدر آباد کے انتہائی قریبی ساتھی میر لائق علی حضرت قائد اعظمؒ کے بھی گہرے دوست تھے، وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے معاملات پر ایک سے زائد مرتبہ بات چیت ہوئی ہے۔ اس موقع پر ’’پاکستان پلان‘‘ بھی زیر بحث آیا تھا۔

ان دنوں پاکستان کو پیسے کی شدید کمی کا سامنا تھا ،حضرت قائد اعظم ؒامریکہ اور یورپ سے مدد کے لئے کام کر رہے تھے ۔انہوں نے ہر جائز شرط پر فنڈز حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

میں اکتوبر1947ء میں حضرت قائد اعظم ؒ بستر علالت پر تھے، نقاہت بڑھتی جا رہی تھی، ڈاکٹروں نے ملاقات سے روکنے کو شش کی لیکن قائد اعظم ؒکی مداخلت پر آدھا گھنٹہ مل گیا۔ تقسیم کے طے شدہ معاہدے کے مطابق فنڈز نہ دیئے جانے پر وہ کافی فکرمند تھے۔ کیش بیلنس 55 کروڑ روپے تھا،جو یومیہ اخراجات پورے کرنے کیلئے بھی ناکافی تھے۔ انڈیا کا خیال تھا کہ اس ایک چوٹ سے پاکستان ٹوٹ جائے گا،لیکن نظام آف حیدر آبادنے پاکستان کو 20کروڑ روپے کا قرضہ جاری کر دیا۔ میں نے اس وقت سے زیادہ جذباتی انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جس پر ہندوستانی لیڈروں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ سیخ پاء تھے۔ حضرت قائد اعظمؒ اصفہانی کو امریکہ میں سفیر بنا دیا۔ انہوںنے ایک بڑی امریکی کارسازکمپنی کے کرتا دھرتائوں سے بھی ملاقاتیں کیں ،وہ ایک قیمتی کار خریدنا چاہتے تھے ۔ 6ہزار ڈالر پر بات رکی۔کمپنی نے تمام آرڈرز روک کر کراچی میں کار کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کر دی مگرقیمتی کار مسترد کرتے ہوئے حضرت قائد اعظمؒ نے اپنے لئے سستی کار خریدنے کا حکم دیا۔

حضرت قائد اعظم ؒنے مہاجرین کی بہتر آبادکاری اور مسائل کے حل کے لئے لیاقت علی خان کو اپنا سیکریٹریٹ لاہور منتقل کرنے کابھی حکم دیا ۔

کاٹھیا وار کے ساحلی علاقے پر واقع جونا گڑھ نامی چھوٹی ریاست کے مسلمان نواب نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا ، لیکن انڈین فوج کے محاصرے نے یہ کوشش ناکام بنا دی ۔ نواب آٖ جونا گڑھ کے قریبی ساتھی سندھی رہنما سر شاہنواز بھٹو تھے۔الحاق کی دستاویزات بھی انہوںنے ہی تیار کیں۔ نہرو اور سردار پٹیل غصے سے لال پیلے ہو گئے اور نومبر میں بذریعہ فوج فتح کرکے ہی دم لیا۔

ابھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہ مسئلہ کشمیر نے منظر نامے پر چھا گیا۔ ہندوئوں نے کشمیر میں بھی مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا، جس سے مزید آتش بھڑکی،حضرت قائد اعظمؒ نے ستمبر کے آخر میں اپنے حلیف دولت مشترکہ کے ممالک سے مددکی اپیل کی۔ پاکستانی حکومت پرجوابی کارروائی کے لئے دبائو بڑھتا جا رہا تھا۔ قائد اعظمؒ کی اپیل پر دولت مشترکہ کے مستقل انڈر سیکرٹری آڑچی بالڈ کارٹر کراچی پہنچے۔ پاک بھارت جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے۔

چنانچہ لیاقت علی خان نے دہلی کا دورہ کیا۔وہ کئی روز گورنمنٹ ہائوس میں مائونٹ بیٹن کے مہمان رہے۔ لاہور واپسی سے پہلے انہوںنے اسمے کو وارننگ بھی دی۔’’انڈیا کو جنگ کرنے دو، دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے‘‘۔احتیاط کے پردوں میں لپٹی ہوئی لیاقت علی خان کی دھمکی اسمے خوب اچھی طرح سمجھ گئے۔مائونٹ بیٹن کے چیف آف سٹاف لندن میں تھے، اوائل اکتوبر میں واپسی پر وہ حضرت قائد اعظمؒ سے بھی ملے، ہندوستان میں 2 اکتوبر کو گاندھی سے ملاقات کی۔انہی دنوں ہری سنگھ نے کشمیر کو تیل کی مصنوعات اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے ساتھ ایک ’سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ‘ کر لیا۔ کشمیر کے جنوبی حصے کے مسلمانوں نے سب سے پہلے آزادی کا مطالبہ کیا اور تحریک شروع کر دی۔ تحریک آزادی کو کچلنے ہری سنگھ کی فوج میدان میں اتری۔وہاں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد سے پاکستانی مسلمانوں میں اشتعال پھیلا اورمسلمانوں کے جتھوں نے مظفر آباد کے راستے کشمیر پر دھاوا بول دیا۔ 23 اکتوبر1947ء کو برٹش ٹرکوں پر 5ہزار مسلمان کشمیر پہنچ گئے ۔ مظفر آباد بارہ مولا روڈ پر نقل حمل روکنے سے ہری سنگھ کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ پاکستانی حکام نے بھارتی حکام کو مطلع کیا کہ ’’کچھ قبائلی جوان اپنے بھائیوں پر ہونے والے ظلم کی روک تھام کے لئے کشمیرمیں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔ وہ سرینگر سے کوئی 30سے 40کلومیٹر دور ہوں گے کہ مائونٹ بیٹن نے ہنگامی اجلاس بلا لیا۔ ہری سنگھ سے ایک دستاویز سائن کرانے وی پی مینن ہنگامی دورے پر کشمیر پرواز کر گئے ۔

26اکتوبر کو مینن نے نہرو، مائونٹ بیٹن اور پٹیل کو رپورٹ دی کہ ’’ ہری سنگھ مکمل طور پربکھر چکے ہیں،وہ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ‘‘۔ تاہم ان کے وزیر اعظم ایم سی مہاجن (جو بعد میں انڈیا کے چیف جسٹس بنے ) اس معاملے پر کچھ کرسکتے ہیں۔وہ بھی مینن کے ہمراہ دہلی پہنچے۔ مہاجن نے انڈیا سے فوری عسکری امداد کامطالبہ کیا۔

27اکتوبرکو انڈین فوج کے کشمیر میں اترنے کی خبر سنتے ہی حضرت قائد اعظم ؒ برٹش کمانڈڑ انچیف جنرل گریسی کو دو بریگیڈ روانہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے دو محاذ کھولنے کا حکم دیا۔ سیالکوٹ کی فوج نے جموں کی جانب پیش رفت کرنا تھی۔اس کا مقصد ہری سنگھ کو جنگی قیدی بنانا تھا۔ راولپنڈی کی فوج کو سرینگر پر قبضہ کرنے کا حکم ملا تھا۔اس فیصلے سے کشمیر محفوظ ہو جاتا۔ اس سے سرینگر میں قبائلی کشمکش روکنے میں بھی مدد ملتی ۔ مگر جنرل گریسی نے صاف انکار کیا۔بقول گریسی، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک برٹش جنرل دوسرے برٹش جنرل کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو۔ سر موڈی گریسی کے بیان پر کافی برہم ہوئے۔ حضرت قائد اعظمؒ اپنے احکامات پر عمل درآمد پرمصر رہے۔گریسی نہ مانا۔آپ ؒنے واضح کیا کہ ’’انڈین فوج نے فراڈ اورتشدد سے کشمیر پر تسلط قائم کیا ہے ، وہ اسے نہیں مانتے‘‘۔

اس صورتحال نے حضرت قائد اعظم ؒ کو غمگین کر دیا۔کشمیر ی ٹھنڈی فضائوں کو پر امن دیکھنے کے خواہش مند جناحؒ کو روزانہ ہی جنگ و جدل کی خبریں مل رہی تھیں،ان کی طبیعت میں ملال بڑھتا جا رہا تھا۔ اندرون ملک اور بیرون ملک پس پردہ ہاتھ الگ کھیل کھیل رہے تھے ۔وہ نحیف و نزار سے جسم سے بھی جان چھڑانے کے درپے تھے ۔

ہندوستان مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا، قائد اعظمؒ میں نیو یارک جانے کی سکت نہ تھی، پاکستان نے سکیورٹی کونسل سے کئی اہم مطالبات کئے ،ایک یہ کہ وہ ہندوستان کو پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھے۔دوم، اقوام متحدہ اپنی نگرانی میںتمام معاملات کی تحقیقات کرائے۔ اور اقوام متحدہ اپنی نگرانی میں وہاں استصواب رائے کا بندوبست کرے۔سکیورٹی کونسل نے سیز فائر کرانے میں کامیاب رہی۔

اسی دوران دہلی کے گرد و نواح میں مسلمانوں کی املاک کی لوٹ مار جاری تھی،قائد اعظمؒ روک تھام کی ہرممکن کوشش کرتے رہے ۔ ایک دن ہندوئوں نے سیاہ پرچموں کے ساتھ برلا ہائوس کو گھیر لیا۔’’ گاندھی مردہ باد‘‘ کے نعروں سے دہلی گونج رہا تھا، وہ گاندھی کی جان کے درپے تھے ،بلکہ ہجوم نعرے لگا رہاتھا کہ ’’گاندھی ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہیں ،ان کا نام تو محمد گاندھی ہونا چاہئے‘‘۔گاندھی اپنے اجلاسوں میں قرآن پاک کے حوالے اورمسلمانوں کے حق میں دلائل بھی دیتے تھے ۔20جنوری کوبرلا ہائوس میں بم دھماکہ بھی ہوا لیکن گاندھی محفوظ رہے لیکن 10ہی دن بعد گاڈسے نامی آر ایس ایس کا کارندہ ان کی جان لینے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد ’’ہندو محاسبہ ‘‘ اور ’’آرا یس ایس‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

حضرت قائد اعظمؒ نے دوران علالت میاں ممتاز خان دولتانہ کوپنجاب سنبھالنے کا حکم دیا لیکن دولتانہ نے معذرت کر لی۔ان کی نظر شائد وزارت عظمیٰ پر تھی۔جون میں محترمہ فاطمہ جناحؒ اور حضرت قائد اعظم ؒ کوئٹہ چلے گئے ،وہاں آمد کے چند ہی دنوں میں ان کی طبیعت سنبھلنے لگی،نیند اور خوراک بھی بہتر ہو گئی۔انہوں نے اپنی سرکاری مصروفیات میں ذرا بھی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دی۔ یکم جولائی کوانہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تقریب سے خطاب کیا۔کمزوری کی پرواہ کئے بغیروہ تقریب میں شریک ہوئے۔ انہوں نے 21جولائی کو سابق ڈاکٹر کرنل الہٰی بخش نے لاہور سے کوئٹہ پہنچنے کی ہدایت کی۔’’ ان کی طبیعت پریشان کن تھی‘‘۔کرنل الہٰی بخش نے کہا۔

’’کیا تم نے یہ بات مس فاطمہ کے گوش گزار کر دی ہے ‘‘۔ انہوں نے سوال کیا

’’میں نے ا نہیں اعتماد میں لے لیا ہے‘‘۔ کرنل الہٰی بخش کی بات پر انہوںنے ٹوکا۔۔ ’’آپ کو یہ بات (بیماری کی شدت )مس جناحؒ سے نہیں کرنا چاہئے تھی۔وہ ایک عورت بھی تو ہیں،نرم دل خاتون۔‘‘ خاتون کے دل کو پہنچنے والی تکلیف پر معذرت کے سوا کیا ہوسکتا تھا۔تاہم وہ فرمانے لگے ، اب افسو س کرنے سے فرق نہیں پڑتاجو ہو گیا سو ہو گیا۔ اصفہانی بھی نیو ہارک سے پاکستان پہنچ گئے اورہر ممکن طبی امداد کی پیش کش کی لیکن امریکی ڈاکٹر ایسا کیا کر سکتے تھے جو کرنل الہٰی بخش نے نہیں کیا ، انہوںنے حضرت قائد اعظمؒ ؒکے لئے ہر ممکن کوشش کر لی تھی۔یہاں سے وہ واپس کراچی چلے گئے تھے۔

۔13اگست 1948ء کو بھی وہ پورے جوش سے کام میں مگن تھے۔اس روزساڑھے تین بجے نئے سوٹ اورمیچنگ ٹائی میں وہ نہایت پروقار لگ رہے تھے۔ کوٹ کی جیب میں حسب معمول رومال بھی خوبصورت لگ رہاتھا۔ محترمہ فاطمہ جناح ؒنے سڑیچر پرنیچے لانے میں مدد کی۔اور کار میں بٹھا دیا گیا ۔ایک بار پھر ان کی منزل کوئٹہ تھی ۔ روانگی کو خفیہ رکھنے کے باوجودایک جھلک دیکھنے کیلئے جم غفیر جمع تھا۔انہوں نے ہاتھ ہلا کر سب کو جواب دیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ کرنل الہٰی بخش کہتے ہیں کہ راستے میںانہوں نے ایک جگہ چائے پی۔ قریب ہی کچھ لوگ بیٹھے تھے اور قائدنہیںچاہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کی کمزوری کی خبر ہو۔

زیارت کی فضاء ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں ان کی صحت قدرے بہتر ہونے لگی۔ محترمہ فاطمہؒ نے ہر موڑ پر رہنمائی کی۔جس سے خوراک بھی بڑھنے لگی۔ڈاکٹروں نے کچھ دیر ٹہلنے کا بھی مشورہ دیا۔ڈاکٹر اس وقت حیران رہ گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ مریض کا وزن محض 80پائونڈ تھا جو بعد میں70پائونڈ رہ گیا تھا۔

اس بیماری میں بھی انہیں سیگریٹ کی چاہت تھی ،ڈاکٹروں نے ایک سیگریٹ روزانہ پینے کی اجازت دے دی، لیکن اگلے ہی روز ایش ٹرے میں چار سیگریٹوںکے ٹکڑے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔

اگست کے آخر میں اس عالمی لیڈر کو ٹی بی اور پھیپڑوں کا سرطان لاحق تو ہوا لیکن بے بس نہ کر سکا۔اسی ہفتے میں کشمیر کمیشن کے ساتھ مذاکرات طے تھے۔وہ میٹنگ سے الگ کیسے رہ سکتے تھے ۔ 11 ستمبر 1948ء کی دوپہر دو بجے کوئٹہ ایئر پورٹ پر وائکنگ اوردو ڈکوٹا جہاز تیار کھڑے تھے۔ عملے نے سیلوٹ کیا،حضرت قائد اعظمؒ نے نقاہت کے باوجودہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ آکسیجن سلینڈر اور گیس ماسک بھی تیار تھے۔دو گھنٹے کے سفر کے بعد طیارہ وائکنگ اور ڈکوٹا ماڑی پور کی ایئر بیس پر اتر گئے۔یہاں سے آگے ایمبولیس کا سفر تھا۔ چار یا پانچ میل کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک ہلکے سے شور کے ساتھ ایمبولینس اچانک رک گئی۔ یہ کیا ہو رہا تھا ،سبھی ہکا بکا رہ گئے۔ دوسری کار میں منتقل کرنا بھی مشکل تھا سیٹ چھوٹی تھی۔اس پسماندہ سے علاقے میں ارد گرد مہاجرین کی سیکڑوں جھگیاں تھیں،انہیں گھر دینے والا کس قدر بے بسی کے عالم میں ہے، مہاجرین ناواقف تھے۔ یہیں ، اسی علاقے میں ،اسی کیفیت میں رات 10بج کر 20منٹ پر بانی پاکستان نے آخری سانس لی۔ (سٹنلے وولپرٹ کی کتاب ’جناح ؒ آف پاکستان‘ سے اقتباسات )



 

Back
Top