Thori Cee Takheer By Sohail Ahmad Qaisar

تھوڑی سی تاخیر ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

آفت سی آفت ہے کہ ٹڈی دل کی صورت میں گویا عذاب آچکا ہو۔ملک بھر کے 61سے زائد اضلاع اس عذاب کو بھگت چکے ہیں یا بھگت رہے ہیں۔ بات آگے بڑھا نے سے پہلے اس آفت کی بابت دنیا پور کے ایک کاشتکار محمد مرتضیٰ کی کچھ باتیں سن لیجئے؛اُن سے براہِ راست تو ملاقات نہ ہوسکی‘ لیکن فون پر انہوں نے جو کچھ بتایا‘ وہ آپ بھی پڑھ لیجئے: ''یہ کوئی دس‘ بارہ دن پہلے کی بات ہوگی ‘جب میں صبح نو بجے کے قریب اپنے کھیتوں پر پہنچا‘ابھی میں نے کام بھی شروع نہیں کیا تھا کہ اچانک آسمان پر اندھیرا سا چھانے لگا‘ اوپر نظر کی تو ٹدی دل کا تقریباً پانچ کلومیٹر طویل اور ڈیڑھ کلومیٹر چوڑا لشکر دکھائی دیا‘ آناً فاناً وہ نیچے اُترا اور میری فصل کو چٹ کرنا شروع کردیااور جب صرف 30منٹ بعد اُس نے وہاں سے پرواز کی تو بس اتنا اندازہ ہورہا تھا کہ کھیتوں میں کبھی کوئی فصل رہی ہوگی ‘ باقی وہ سب کچھ چٹ کر گیا تھا ‘اس دوران میں خود کو اتنا بے بس محسوس کررہا تھا کہ شاید پوری زندگی میں میری یہ کیفیت نہیں ہوئی ہوگی۔ بس‘ میں یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا۔‘‘محمد مرتضی نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ اُن کے علاقے میں ٹڈی دل کے اس سے بھی بڑے لشکروں نے ہلہ بولا اور سب کچھ چٹ کر گئیں۔ میں اُن کی باتیں سن رہا تھا اور چشم تصور سے یہ منظر دیکھ بھی رہا تھا۔ خود کو محمد مرتضیٰ کی جگہ پر رکھ کر سوچ بھی رہا تھا کہ اگر میں نے سو ایکڑ میں کپاس بوئی ہوتی اور اس طرح کوئی لشکر آکر وہ آناً فاناً یہ سب کچھ چٹ کرجاتا تو میری کیا کیفیت ہوتی۔ اس سوچ کا جواب ملا کہ شاید میں اپنے حواس ہی کھودیتا‘تو بس جان رکھیے کہ ملک کے کم از کم 61اضلاع کے کاشتکار کچھ ایسی ہی کیفیات سے گزر رہے ہیں ‘جہاں پر ٹڈی دل کا حملہ ہوچکا ہے یا ابھی تک جاری ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر نے تنبیہ کی ہے کہ 20جون سے 20جولائی تک ٹڈی دل کے نئے اور موجودہ حملوں سے زیادہ شدید حملے متوقع ہیں۔ گویا مصیبت میں مزید اضافے کے بھرپور خدشات موجود ہیں۔
یہ سوچ کر ہی دل ہول رہا ہے کہ اگر یہ وارننگ سچ ثابت ہوگئی‘ تو میرے دیس کا پہلے سے ہی پسا ہوا کاشتکار بالکل تباہ ہوجائے گا‘ اسی خدشے کو لے کرپنجاب کے وزیرزراعت نعمان احمد لنگڑیال سے رابطہ کیا تو وہ بھی کافی متوحش دکھائی دئیے۔ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھا تو اُنہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے حالات بہت ہی سنگین ہیں اور تین چار ماہ سے اُن کے محکمے کے تمام افسران اور اہلکار ایک پاؤں پر کھڑے ہیں کہ کسی طرح اس عفریت سے نجات مل سکے۔ اُن سے ٹڈی دل کے حوالے سے کچھ معلومات چاہیں تو بتانے لگے کہ بس یہ جان لیجئے کہ ٹڈی دل ایک آندھی اور طوفان کی طرح آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ چٹ کرکے اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے‘ کسی کے بس میں کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ کرسکے ۔ آجا کہ ایک سپرے کا طریقہ ہی بچتا ہے اور محکمہ بھی اسی کا سہارا لے رہا ۔اِس کے باعث اتنا ضرورہوا ہے کہ ہم اسے کسی حد تک ایک مخصوص رقبے میں محدود کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نعمان لنگڑیال صاحب کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھا تو انہوں نے بہت حیرت انگیز بات بتائی یا کم از کم میرے لیے تو وہ سچ میں حیران کن تھی۔ بتانے لگے کہ ٹڈی دل کے جھنڈ کی طوالت تیس ‘ چالیس کلومیٹریا پھراس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے اور ایک کلومیٹر میں 4سے 8کروڑ ٹڈیاں ہوسکتی ہیں۔ سچی بات ہے یہ سن کر ہمارا تو حساب کتاب ہی جواب دے گیا۔ خدا کی پناہ !جب اتنی بڑی تعداد میں یہ ٹڈیاں کسی جگہ پرحملہ کرتی ہوں گی‘ تو پھر باقی کیا بچتا ہوگا؟۔اس بات کی تصدیق محکمہ زراعت توسیع پنجاب کے ڈی جی ڈاکٹر محمد انجم علی صاحب نے بھی ہے کہ اکثر ٹڈی دل کے حملوں کا نشانہ بہت وسیع و عریض رقبہ بنتا ہے اور ایک بڑا لشکر ایک دن میں تیس ‘ چالیس ہزار انسانوں کی خوراک چٹ کرسکتا ہے۔محکمہ زراعت توسیع پنجاب کے ڈی جی کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ پنجاب کے کم از کم بارہ اضلاع اس آفت کی زد میں ہیں۔
اس گفتگو سے لگا کہ اس عفریت کے بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرنی چاہئیں کہ یہ بلا ہم پر نازل کہاں سے ہوئی ہے؟ ہم تو پہلے ہی آفتوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ کوئی پل سکون کا میسر ہی نہیں آتا۔کچھ کچھ شک تھا کہ شاید نئی حکومت آنے کے بعد حالات میں کچھ بہتری آجائے ‘لیکن یہ شک آج تک یقین میں کہاں بدل سکا ہے ۔ خیر بات کسی اور طرف نکل جائے گی۔ کچھ مزید صاحبانِ علم سے اس آفت کے بارے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے پہلے سے ہی اوپر نیچے ہوتے ہوئے دل کو مزید دہلا دیا۔ بتایا گیا کہ میاں کسی خوش فہمی میں نہ رہنا۔ بس‘ پندرہ ‘ بیس دن گزرتے ہیں کہ ٹڈی دل کے نئے حملے بھی شروع ہوسکتے ہیں۔ ماضی کی طرح نئے لشکر بھی ہارن آف افریقا سے ہی ہمارے خطے پر وارد ہوں گے اور ایران میں موجود کچھ لشکر تو ایک دوہفتوں کے دوران ہی پاکستان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ گویا کئی ماہ سے جاری مصیبت ٹلنے کے آثار کہاں کہ ابھی تو اس میں مزید شدت آنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ ہاں‘ ایک بات اور بھی بتائی گئی کہ گزشتہ سالوں کے دوران جن لشکروں نے حملہ کیا تھا‘ وہ تو اسی فیصد ہارن آف افریقا کے ممالک سے ہی آئے تھے۔ پاکستان آتے آتے راستے میں پڑنے والے ممالک میں بھی اپنی نشانیاں چھوڑتے آئے تھے۔ اب کے جن لشکروں نے ہلہ بولاہے ‘ان میں سے اسی فیصد کی افزائش مقامی طور پر ہوئی ہے۔
گویا پہلے آنے والے جھنڈوں نے یہاں جو انڈے دئیے تھے۔ اب‘ اُن میں سے نکلنے والی ٹڈیاں حملہ آور ہیں‘جو صرف پنجاب کے مجموعی ‘ 31ملین ایکٹر زرعی رقبے میں سے چارلاکھ ایکڑ رقبے پر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا چکی ہیں۔ کیا کیا جائے کہ ہم جیسے محدود وسائل اور وسیع بدنیتی کے حامل ممالک میں یہ سب کچھ چلتا ہی رہتا ہے ۔ یوں بھی ہم نے کون سا کسی مسئلے کو آغاز میں سنجیدگی کے ساتھ لینا ہوتا جب تک کہ پانی سر سے نہ گزر جائے۔ اب یہ بتایا تو جارہا ہے کہ آئندہ ڈیڑھ ماہ کے دوران سپرے کرنے والے ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی مجموعی تعداد 17 تک پہنچ جائے گی ‘جس سے صورتحال بھی قابو پانے میں بہت مدد ملے گی۔وزیر زراعت پنجاب کے مطابق ‘صورت حال سے نمٹنے کیلئے بھاری فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں۔
اللہ کرے کہ ایسا ہی کہ کسی طرح سے ٹڈی دل کے جاری اور متوقع نئے حملوں سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کرلی جائے ‘ورنہ جو کچھ ہم کورونا کے حوالے سے کررہے ہیں‘ وہ سبھی کے سامنے ہے۔ اب‘ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اصل میں کورونا کی آفت سے نمٹتے نمٹتے ٹڈی دل کی طرف دھیان دینے میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی۔ معلوم نہیں تھوڑی سی تاخیر کتنے عرصے پر محیط تھی۔ اس تاخیر کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی کہ بڑے شہروں سے ہٹ کر آنے والی افتاد ‘ ارباب ِاختیار کی توجہ قدرے تاخیر سے حاصل کرپاتی ہیں۔ ٹڈی دل کے حملے تو ویسے بھی خالصتاًدیہاتوں اور وہاں کی زرعی زمینوں پر ہورہے تھے تو اس طرف دھیان دینے میں تھوڑی سی تاخیر تو بنتی تھی۔کاشتکار البتہ اس تھوڑی سی تاخیر پر بہت سیخ پا دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ جس تاخیر کو حکومت تھوڑی سی تاخیر قرار دے رہی ہے‘ وہ تھوڑی نہیں اتنی زیادہ تھی کہ حکومت کے حرکت میں آنے سے پہلے ٹڈی دل کے لشکر اپنے قدم خوب جما چکے تھے۔چلیں ‘اب جو وقت گزر گیا ‘ وہ تو واپس نہیں آسکتا اور یوں بھی اب کے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ہمارے ہمسایہ ممالک ایران اور بھارت بھی بری طرح سے ہانپ رہے ہیں۔ بھارت تو اس کے لیے حسب ِعادت ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے کہ جہاں ریٹنگ کے چکر میں بھارتی ٹی وی چینلوں پر اس حوالے سے نت نئے زاویے سامنے لائے جارہے ہیں۔ ان پر بھی کسی وقت بات کریں گے‘ تاکہ پڑھنے والوں کو بھی لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔ ہم اور ہمارے ہمسایہ ممالک کورونا کے باعث پہلے ہی مشکل میں تھے‘ جس میں اب ٹڈی دل کی وجہ سے کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور ممکنہ طور پر تینوں ممالک نے ہی حرکت میں آنے میں تھوڑی سی تاخیر کی تھی۔
 
Columnist
Sohail Ahmed Qaisar
Column date
Jun 5, 2020
ٹڈی دل کے حوالے سے کچھ معلومات چاہیں تو بتانے لگے کہ بس یہ جان لیجئے کہ ٹڈی دل ایک آندھی اور طوفان کی طرح آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ چٹ کرکے اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے‘ کسی کے بس میں کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ کرسکے ۔ آجا کہ ایک سپرے کا طریقہ ہی بچتا ہے اور محکمہ بھی اسی کا سہارا لے رہا ۔اِس کے باعث اتنا ضرورہوا ہے کہ ہم اسے کسی حد تک ایک مخصوص رقبے میں محدود کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اللہ تعالٰی اس آفت سے محفوظ رکھے پہلے ہی ملک بہت سے بحرانوں کا شکار ہے
 

Back
Top