Tiger Force Ya Siasi Jatha ? By Tariq Habib Column

ٹائیگر فورس یا سیاسی جتھا؟ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

کراچی کی مختلف پہچانوں میں سے ایک خون ریزی بھی رہی ہے اور یہ پہچان اس شہر کو اس کے خود ساختہ دعویداروں نے دی تھی۔ کامیاب آپریشن کے ذریعے شہر کی بدامنی کو کسی حد تک ختم تو کردیا گیاہے‘ مگر تاریخ کے اوراق اور لوگوں کے ذہنوں سے ان خونیں دہائیوں کوکبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسی ہی ایک دہائی تھی‘ جب ملک پر جنرل پرویز مشرف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی۔ انہیں اتحادیوں میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی‘ جو پرویزمشرف کی حمایت سے وفاق اور صوبے میں اپنی گرپ مضبوط سے مضبوط تر کرتی جارہی تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے ''زیرومیٹر‘‘ ہونے کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مساجد نہیں بنائیں تھیں۔ شہر پر ''مشترکہ ایم کیو ایم‘‘ کا طوطی بولتا تھا اور'' قائد کے غدار موت کے حقدار‘‘ ٹھہرتے تھے ‘ایم کیو ایم کی جانب سے اٹھائے گئے کسی قدم کی مخالفت کرنے کی ہمت نہ تو حکومت کرتی تھی اور نہ ''کوئی اور‘‘ پھر جب مشرف حکومت کی سسکیاں جاری تھیں تو عین اسی وقت کراچی میں ایک فورس قائم کی گئی‘ جسے ''کمیونٹی پولیس‘‘ کا نام دیا گیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ شہری حکومت کے اثاثوں کی حفاظت اور زمینوں پر قبضے روکنے کیلئے یہ فورس بنائی گئی ہے؛ اگرچہ عوام کے دل میں تھا کہ قبضے کرنے اور قبضے روکنے کے لیے الگ الگ فورس بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ایک سے ہی کام چلا لو‘ مگر اس وقت ایسی باتیں زبانوں پر نہیں لائی جاتی تھیں۔اس فورس میں اس وقت کے ایم کیو ایم کے ''تربیت یافتہ‘‘ رضاکار کثرت سے بھرتی کیے گئے ‘انہیں کراچی پولیس سے مشابہہ وردی دی گئی اور میدان عمل میں اتار دیا گیا۔ سندھ پولیس کی جانب سے فورس کے نام ''کمیونٹی پولیس‘‘ اور اس کے یونیفارم پر اعتراض کے بعد ایم کیو ایم کی اس فورس کا نام ''کمیونٹی وارڈن‘‘ رکھ کر وردی بھی تبدیل کردی گئی تھی۔سرکاری خرچ پر ایک پوری فورس قائم کی گئی‘ جس میں اکثریت خصوصی رضاکاروں کی تھی۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ شہر میں خوںریزی میں اضافہ ہوگیا ۔وفاق میں پیپلز پارٹی حکومت بناچکی تھی اوراس دور حکومت میں صرف کراچی میں 24ہزار سے زائد لوگ مارے گئے ۔ اس دوران جو تحقیقات ہوئیں ‘ان میں ایم کیو ایم کی سٹی وارڈن کے اہلکاروں پر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے‘ اہم شخصیات کی ریکی کرنے‘ سرکاری تنصیبات کی نگرانی اور مخصوص مشکوک اہلکاروں کے گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے۔سب کچھ ہوتا رہا‘ مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس فورس کے خلاف کارروائی کرسکے‘اسی دوران اس فورس کو باقاعدہ کراچی پولیس میں شامل کرانے کیلئے بہت دبائو ڈالا گیا‘ مگر اللہ بھلا کرے پی پی پی کی صوبائی حکومت کا کہ غلطی سے صیح فیصلہ کرلیا اور ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ نوبت کراچی آپریشن تک آئی تو سامنے آیا کہ اسی سٹی وارڈن کے کئی اہلکار روپوش ہوگئے‘بیرون ملک فرار ہوگئے یا کروادئیے گئے اور کئی تو دنیا میں نہ رہے؛18اہلکار مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کی اس فورس کی صورت ِ حال اس قدر بگڑی کہ لگ بھگ 400افراد کی کمی ہوگئی ‘جسے مزید بھرتیوں سے پورا کیا گیا ‘مگر اس بار ایم کیوایم کے تربیت یافتہ رضاکار ہونے کی غیر اعلانیہ شرط ختم کردی گئی تھی۔یہی وجہ رہی ہے کہ موجودہ سٹی وارڈن کراچی انتہائی شریف اور سلجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی فورس تھی‘ جو ایک سیاسی قوت کے رضاکاروں پر مشتمل تھی اور شہر کو کنٹرول کرتی تھی‘ جس کا جنم وعروج سب سرکاری خرچ پر ہوا۔ اب‘ سنا ہے کہ ایک اور فورس بننے جارہی ہے؛ٹائیگر فورس۔ایم کیو ایم کی سٹی وارڈن کے بعد یہ دوسری فورس ہوگی‘ جس کی ابتدا ایک سیاسی قوت کے ذریعے کی جارہی ہے۔ اس فورس میں بھی ویب سائٹ کے ذریعے رضاکاروں کی بھرتی شروع کی گئی ہے اور مقصد بتایا گیا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران متاثرہ علاقوں میں راشن پہنچانے کا کام لیا جائے گا۔
یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں‘ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ آتا ہے کہ رضاکاروں کے اس گروہ کا نام ٹائیگر فورس رکھا گیا ہے ۔ اب یہ ٹائیگر کا لفظ عمومی طور پر اپنے کارکنوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو کیا ٹائیگر فورس صرف اور صرف ایک سیاسی قوت کے رضاکاروں پر مشتمل جتھے کا نام ہوگااور وہ جتھا سرکاری امداد کی تقسیم کے نام پر پارٹی پروجیکشن کا فریضہ انجام دے گا؟اگر ایسا ہے تو اس جتھے سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فریق مخالف کے متاثر افراد کے گھروں میں بھی حکومتی امداد کی ترسیل کریں گے ؟ کیا ان رضاکاروں کی چھان بین کا بھی کوئی طریقہ کار طے کیا گیا ہے ؟کیونکہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جو ویب سائٹ پر اندراج کرے گا‘ وہ فورس میں شامل ہوجائے گا۔یہ کیسے جانچا جائے گاکہ رضاکاروں میں شامل ہونے والے افراد جرائم پیشہ نہیں یا ان کے مقاصد غلط نہیں ۔تھانوں سے ان کے کردار کے حوالے سے تصدیق یا کسی سرکاری افسر کی جانب سے تصدیق شدہ کریکٹر سرٹیفکیٹ جیسی کوئی شرط رکھی گئی ہے؟آخر کو عوام کے نام پر اعلان کیا جانے والے ''اتنا بڑا پیکیج‘‘ ان کے حوالے کرنا ہے تو اس کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کی بھی تو ضرورت ہوگی‘پھر یہ بھی اہم نقطہ ہے کہ کورونا کی خطرناک وبا کے دوران مختلف علاقوں میں نقل و حرکت کرنے والے ان رضاکاروں کی تربیت کا کوئی انتظام کیا جائے گا یا ان نوجوانوں کو بغیر تربیت کے ہی وبا کا چارہ بننے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا؟اور کیا ان رضاکاروں کو حفاظتی لباس فراہم کیے جائیں گے؟یہ سوال اس لیے جنم لیتا ہے کہ جو حکومت اپنے ڈاکٹروں کو تاحال ماسک اور حفاظتی لباس فراہم نہ کرسکی‘ وہ ان رضاکاروں کو کیسے فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھنا تو یہ بھی پڑے گا کہ جن نوجوانوں کو تعصب کی ڈوز اس حد تک دے دی گئی ہے کہ وہ اختلاف رائے کو برداشت ہی نہ کرسکیں اور اختلاف کرنے والوں کے گھروں کی عزتیں اچھالنے سے گریز نہ کریں ‘ایسے رضاکاروں پر مشتمل فورس کس طرح مخالف پارٹی کے کسی متاثر خاندان کو راشن دے گی۔متاثرین میں یقینی طور پرعام عوام کے ساتھ ساتھ ''پٹواری‘جیالے‘جماعتی‘جمعیتی‘‘بھی شامل ہوں گے تو ان کے گھروں پر کیسے حکومتی امداد پہنچے گی؟پھر جس طرح چین سے آنے والے امدادی سامان کے ایک نجی اسپتال میں پہنچ جانے اور وینڈرز کے ذریعے بلیک میں فروخت کے الزامات لگے اسی طرح ٹائیگرز کے ذریعے تقسیم ہونے والا حکومتی پیکیج پر کسی وینڈر کے ذریعے بلیک میں فروخت ہونے کا الزام نہیں لگے گا اور معاملہ شفاف رہے گا؟۔اب‘ آخری اور اہم سوال یہ کہ اس بات کو کس حد تک یقینی بنایا گیا ہے کہ مستقبل میں ٹائیگر ریلیف فورس نامی یہ جتھا‘ ایم کیو ایم کے سٹی وارڈن سے مشابہہ نہیں ہوجائے گا؟
وزیراعظم عمران خان کو چاہیے تو یہ کہ سرکاری امداد کی ترسیل و تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے بلدیاتی نظام کو فوری بحال کرکے بلدیاتی نمائندوں سے کام لیں ‘تاکہ امداد کی بروقت اور شفاف تقسیم کو یقینی بنایاجاسکے؛ اگرچہ معطل شدہ بلدیاتی نظام میں اکثریت مسلم لیگ ن کے نمائندوں کی ہے ‘مگر ان نمائندوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے بہتر انداز میں کام لیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سیاسی تعصب کا خاتمہ ضروری ہے اور اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ غیر تربیت یافتہ ٹائیگرز بھی وبا کا چارہ بننے سے بچ جائیں گے۔​
 

ٹائیگر فورس یا سیاسی جتھا؟ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

کراچی کی مختلف پہچانوں میں سے ایک خون ریزی بھی رہی ہے اور یہ پہچان اس شہر کو اس کے خود ساختہ دعویداروں نے دی تھی۔ کامیاب آپریشن کے ذریعے شہر کی بدامنی کو کسی حد تک ختم تو کردیا گیاہے‘ مگر تاریخ کے اوراق اور لوگوں کے ذہنوں سے ان خونیں دہائیوں کوکبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسی ہی ایک دہائی تھی‘ جب ملک پر جنرل پرویز مشرف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی۔ انہیں اتحادیوں میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی‘ جو پرویزمشرف کی حمایت سے وفاق اور صوبے میں اپنی گرپ مضبوط سے مضبوط تر کرتی جارہی تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے ''زیرومیٹر‘‘ ہونے کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مساجد نہیں بنائیں تھیں۔ شہر پر ''مشترکہ ایم کیو ایم‘‘ کا طوطی بولتا تھا اور'' قائد کے غدار موت کے حقدار‘‘ ٹھہرتے تھے ‘ایم کیو ایم کی جانب سے اٹھائے گئے کسی قدم کی مخالفت کرنے کی ہمت نہ تو حکومت کرتی تھی اور نہ ''کوئی اور‘‘ پھر جب مشرف حکومت کی سسکیاں جاری تھیں تو عین اسی وقت کراچی میں ایک فورس قائم کی گئی‘ جسے ''کمیونٹی پولیس‘‘ کا نام دیا گیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ شہری حکومت کے اثاثوں کی حفاظت اور زمینوں پر قبضے روکنے کیلئے یہ فورس بنائی گئی ہے؛ اگرچہ عوام کے دل میں تھا کہ قبضے کرنے اور قبضے روکنے کے لیے الگ الگ فورس بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ایک سے ہی کام چلا لو‘ مگر اس وقت ایسی باتیں زبانوں پر نہیں لائی جاتی تھیں۔اس فورس میں اس وقت کے ایم کیو ایم کے ''تربیت یافتہ‘‘ رضاکار کثرت سے بھرتی کیے گئے ‘انہیں کراچی پولیس سے مشابہہ وردی دی گئی اور میدان عمل میں اتار دیا گیا۔ سندھ پولیس کی جانب سے فورس کے نام ''کمیونٹی پولیس‘‘ اور اس کے یونیفارم پر اعتراض کے بعد ایم کیو ایم کی اس فورس کا نام ''کمیونٹی وارڈن‘‘ رکھ کر وردی بھی تبدیل کردی گئی تھی۔سرکاری خرچ پر ایک پوری فورس قائم کی گئی‘ جس میں اکثریت خصوصی رضاکاروں کی تھی۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ شہر میں خوںریزی میں اضافہ ہوگیا ۔وفاق میں پیپلز پارٹی حکومت بناچکی تھی اوراس دور حکومت میں صرف کراچی میں 24ہزار سے زائد لوگ مارے گئے ۔ اس دوران جو تحقیقات ہوئیں ‘ان میں ایم کیو ایم کی سٹی وارڈن کے اہلکاروں پر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے‘ اہم شخصیات کی ریکی کرنے‘ سرکاری تنصیبات کی نگرانی اور مخصوص مشکوک اہلکاروں کے گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے۔سب کچھ ہوتا رہا‘ مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس فورس کے خلاف کارروائی کرسکے‘اسی دوران اس فورس کو باقاعدہ کراچی پولیس میں شامل کرانے کیلئے بہت دبائو ڈالا گیا‘ مگر اللہ بھلا کرے پی پی پی کی صوبائی حکومت کا کہ غلطی سے صیح فیصلہ کرلیا اور ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ نوبت کراچی آپریشن تک آئی تو سامنے آیا کہ اسی سٹی وارڈن کے کئی اہلکار روپوش ہوگئے‘بیرون ملک فرار ہوگئے یا کروادئیے گئے اور کئی تو دنیا میں نہ رہے؛18اہلکار مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کی اس فورس کی صورت ِ حال اس قدر بگڑی کہ لگ بھگ 400افراد کی کمی ہوگئی ‘جسے مزید بھرتیوں سے پورا کیا گیا ‘مگر اس بار ایم کیوایم کے تربیت یافتہ رضاکار ہونے کی غیر اعلانیہ شرط ختم کردی گئی تھی۔یہی وجہ رہی ہے کہ موجودہ سٹی وارڈن کراچی انتہائی شریف اور سلجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی فورس تھی‘ جو ایک سیاسی قوت کے رضاکاروں پر مشتمل تھی اور شہر کو کنٹرول کرتی تھی‘ جس کا جنم وعروج سب سرکاری خرچ پر ہوا۔ اب‘ سنا ہے کہ ایک اور فورس بننے جارہی ہے؛ٹائیگر فورس۔ایم کیو ایم کی سٹی وارڈن کے بعد یہ دوسری فورس ہوگی‘ جس کی ابتدا ایک سیاسی قوت کے ذریعے کی جارہی ہے۔ اس فورس میں بھی ویب سائٹ کے ذریعے رضاکاروں کی بھرتی شروع کی گئی ہے اور مقصد بتایا گیا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران متاثرہ علاقوں میں راشن پہنچانے کا کام لیا جائے گا۔
یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں‘ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ آتا ہے کہ رضاکاروں کے اس گروہ کا نام ٹائیگر فورس رکھا گیا ہے ۔ اب یہ ٹائیگر کا لفظ عمومی طور پر اپنے کارکنوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو کیا ٹائیگر فورس صرف اور صرف ایک سیاسی قوت کے رضاکاروں پر مشتمل جتھے کا نام ہوگااور وہ جتھا سرکاری امداد کی تقسیم کے نام پر پارٹی پروجیکشن کا فریضہ انجام دے گا؟اگر ایسا ہے تو اس جتھے سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فریق مخالف کے متاثر افراد کے گھروں میں بھی حکومتی امداد کی ترسیل کریں گے ؟ کیا ان رضاکاروں کی چھان بین کا بھی کوئی طریقہ کار طے کیا گیا ہے ؟کیونکہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جو ویب سائٹ پر اندراج کرے گا‘ وہ فورس میں شامل ہوجائے گا۔یہ کیسے جانچا جائے گاکہ رضاکاروں میں شامل ہونے والے افراد جرائم پیشہ نہیں یا ان کے مقاصد غلط نہیں ۔تھانوں سے ان کے کردار کے حوالے سے تصدیق یا کسی سرکاری افسر کی جانب سے تصدیق شدہ کریکٹر سرٹیفکیٹ جیسی کوئی شرط رکھی گئی ہے؟آخر کو عوام کے نام پر اعلان کیا جانے والے ''اتنا بڑا پیکیج‘‘ ان کے حوالے کرنا ہے تو اس کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کی بھی تو ضرورت ہوگی‘پھر یہ بھی اہم نقطہ ہے کہ کورونا کی خطرناک وبا کے دوران مختلف علاقوں میں نقل و حرکت کرنے والے ان رضاکاروں کی تربیت کا کوئی انتظام کیا جائے گا یا ان نوجوانوں کو بغیر تربیت کے ہی وبا کا چارہ بننے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا؟اور کیا ان رضاکاروں کو حفاظتی لباس فراہم کیے جائیں گے؟یہ سوال اس لیے جنم لیتا ہے کہ جو حکومت اپنے ڈاکٹروں کو تاحال ماسک اور حفاظتی لباس فراہم نہ کرسکی‘ وہ ان رضاکاروں کو کیسے فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھنا تو یہ بھی پڑے گا کہ جن نوجوانوں کو تعصب کی ڈوز اس حد تک دے دی گئی ہے کہ وہ اختلاف رائے کو برداشت ہی نہ کرسکیں اور اختلاف کرنے والوں کے گھروں کی عزتیں اچھالنے سے گریز نہ کریں ‘ایسے رضاکاروں پر مشتمل فورس کس طرح مخالف پارٹی کے کسی متاثر خاندان کو راشن دے گی۔متاثرین میں یقینی طور پرعام عوام کے ساتھ ساتھ ''پٹواری‘جیالے‘جماعتی‘جمعیتی‘‘بھی شامل ہوں گے تو ان کے گھروں پر کیسے حکومتی امداد پہنچے گی؟پھر جس طرح چین سے آنے والے امدادی سامان کے ایک نجی اسپتال میں پہنچ جانے اور وینڈرز کے ذریعے بلیک میں فروخت کے الزامات لگے اسی طرح ٹائیگرز کے ذریعے تقسیم ہونے والا حکومتی پیکیج پر کسی وینڈر کے ذریعے بلیک میں فروخت ہونے کا الزام نہیں لگے گا اور معاملہ شفاف رہے گا؟۔اب‘ آخری اور اہم سوال یہ کہ اس بات کو کس حد تک یقینی بنایا گیا ہے کہ مستقبل میں ٹائیگر ریلیف فورس نامی یہ جتھا‘ ایم کیو ایم کے سٹی وارڈن سے مشابہہ نہیں ہوجائے گا؟
وزیراعظم عمران خان کو چاہیے تو یہ کہ سرکاری امداد کی ترسیل و تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے بلدیاتی نظام کو فوری بحال کرکے بلدیاتی نمائندوں سے کام لیں ‘تاکہ امداد کی بروقت اور شفاف تقسیم کو یقینی بنایاجاسکے؛ اگرچہ معطل شدہ بلدیاتی نظام میں اکثریت مسلم لیگ ن کے نمائندوں کی ہے ‘مگر ان نمائندوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے بہتر انداز میں کام لیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سیاسی تعصب کا خاتمہ ضروری ہے اور اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ غیر تربیت یافتہ ٹائیگرز بھی وبا کا چارہ بننے سے بچ جائیں گے۔​
جس طرح کی منظر کشی کی ہے ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے لیکن پھر بھی ٹائیگر فورس بالکل ناکام ہوگی معروضی حالات سے بے خبر لوگوں کی بونگی
 
جس طرح کی منظر کشی کی ہے ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے لیکن پھر بھی ٹائیگر فورس بالکل ناکام ہوگی معروضی حالات سے بے خبر لوگوں کی بونگی
اتنی مجرب رائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :cool:۔
 
Back
Top