Tiger Relief Force Par Tanqeed Kayun By Tariq Habib Column

ٹائیگر ریلیف فورس پر تنقید کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔ طارق حبیب

یہ 1992ء کی بات ہے‘ جب مہاجر قومی موومنٹ کیخلاف آپریشن اپنے عروج پر تھا اور آفاق احمد و عامر خان کی قیادت میں نیشنل ٹائیگرز ''این ٹی‘‘ نامی ایک باغی گروہ‘ کراچی کے مختلف علاقوں میں تسلط قائم کررہا تھا۔باغی گروہ خود کو مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کہتا تھا۔ اس وقت مہاجر قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کی آپسی خونریز ی کے باعث سکول اکثر بند رہتے تھے۔مہاجر قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت لندن فرار ہوچکی تھی ‘جبکہ اس کے ٹیرریسٹ ونگ کے دستے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کیخلاف گوریلا طرز کی کارروائیاں کرتے تھے۔ جب سکیورٹی اداروں کی جانب سے کرفیو کے ساتھ سخت ایکشن لیا گیا تو یہ مسلح گروہ تتر بتر ہوگئے۔ اس موقع پر ایک خاص طرز عمل دیکھنے میں آیا۔ جس علاقے میں ہماری رہائش تھی‘ وہاں پر مہاجر قومی موومنٹ کے جو کارکنان دن بھر اسلحہ لے کر کھلے عام گھوم رہے ہوتے تھے۔انہوں نے آپریشن سخت ہونے پر اچانک بہروپ بدلا اور سفید کرتا شلوار‘ سر پر پگڑی‘ جیب میں مسواک رکھ کر مذہبی جماعت کے کارکنان کی مشابہت اختیار کرلی اور اس مذہبی جماعت کی ذیلی فلاحی تنظیم میں شمولیت اختیار کرکے بظاہر فلاحی کام کرنے لگے۔ سکول کا زمانہ تھا تو ہماری سمجھ میں یہی آیا کہ شاید یہ لوگ شریف ہوگئے ہیں اور اب‘ نماز روزے کی طرف لوٹ آئے ہیں ‘مگر یہ ہماری محض خام خیالی تھی۔
ایک سال کے بعد جیسے ہی حکومت تبدیل ہوئی ‘یہی افراد دوبارہ اپنی پوری قوت سے سرگرم ہوچکے تھے‘اسی طرح 1996ء میں ہلکی نوعیت کا آپریشن ہوا تو ایک بار پھر ان کارکنوں کی بڑی تعداد نے اسی مذہبی جماعت کی ذیلی فلاحی تنظیم کے کارکنوں کی مشابہت اختیار کرکے خود کو گرفتاریوں سے بچایا‘ جو کارکن دیگر شہروں یا صوبوں کی طرف فرار ہوئے تھے‘ ان کی گرفتاریوں کی اطلاعات تو اخبارات میں آتی رہتی تھیں‘ مگر بھیس بدلنے والے یہ کارکنان علاقے میں موجود رہنے کے باوجود بڑی تعداد میں گرفتار نہیں ہوتے تھے۔ یہ دونوں آپریشن متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف تھے۔ 2002ئ میں جنرل مشرف کا دور ِحکومت آیا تو متحدہ قومی موومنٹ کی گڈی چڑھی ہوئی تھی‘ سب وفادار قرار دے دیے گئے تو اور اس باراگر زیر عتاب تھی‘ تو وہ مہاجر قومی موومنٹ حقیقی تھی ۔ جب متحدہ نے اپنی تنظیم کے نام کو مہاجر سے متحدہ میں تبدیل کیا تو مہاجر قومی موومنٹ حقیقی نے بھی اپنے نام کے ساتھ سے لفظ حقیقی کا خاتمہ کردیا تھا اور خود کو مہاجر قومی موومنٹ کہنا شروع کردیا تھا۔ سو‘ جب مہاجر قومی موومنٹ ایک بار پھر زیر عتاب آئی‘ تو کراچی میں پولیس آپریشن شروع ہوا اور اس بار یہ آپریشن آفاق احمد و عامر خان اور ان کی تنظیم کیخلاف تھا۔ ہمارے علاقے میں رہنے والے مہاجر قومی موومنٹ کے جرائم پیشہ لڑکوں میں بھی ایک دم تبدیلی نظر آئی اور یہ تبدیلی ماضی میں متحدہ کے کارکنوں سے الگ تھی۔ مہاجر قومی موومنٹ آفاق و عامر کے نوجوان کرتا شلوار کے ساتھ ڈاڑھیاں بڑھا چکتے تھے ‘مگر پگڑی پہننے کی بجائے سروں پر ٹوپیاں رکھتے تھے ۔ یہ کارکنان اس مخصوص حلیے میں اب‘ مہاجر قومی موومنٹ کے دفاتر کی بجائے ایک فلاحی و مذہبی تنظیم کے دفاتر ر میں بیٹھے نظر آتے تھے‘ جو اس وقت خاصی سرگر م تھی اور کالعدم قرار نہیں دی گئی تھی۔دلچسپ بات یہ کہ یہ فلاحی و مذہبی تنظیم اس تنظیم کیخلاف تھی ‘جس کا بھیس متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان بدلتے تھے۔یہ وہ دور تھا کہ جب ہم شعبہ صحافت میں قدم رکھ چکے تھے۔
ماضی کے دو آپریشن بھی پردہ ذہن پر محفوظ تھے۔ سو‘ اس آپریشن کے بعد کارکنوں کے روپ بدلنے کے اس عمل پر تحقیق شروع کی تو بہت سے انکشافات ہوئے۔ پتا چلا کہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف ہونے والے دو آپریشنز میں کارکنوں کا ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں کا بھیس بدلنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو متحدہ قومی موومنٹ پر اس تنظیم کا اثر رسوخ زیادہ تھا‘ جس کا بھیس آپریشن ہونے پر متحدہ کے کارکنان بدلتے تھے اور بظاہر فلاحی کام کرتے نظر آتے تھے۔اس طرح یہ افراد گرفتاری سے محفوظ رہتے تھے اور اگر گرفتار بھی ہوجائیں تو اس مذہبی تنظیم کا بہت مضبوط نیٹ ورک سینٹرل جیل میں قائم تھا‘ جو گرفتار ہو کر جیل پہنچنے والے کارکنوں کا استقبال کرتا تھا اور انہیں قید کی سختیوں سے بچا کر بالکل گھر جیسی سہولیات فراہم کرتا تھا ‘ اسی طرح مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے کارکنان کا دوسری مذہبی جماعت کے فلاحی ونگ کا بھیس بدلنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ آفاق احمد سمیت کارکنان و عہدیداران کی اکثریت اس جماعت کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھی۔ اکثر تو گرفتاری سے بچ جاتے اورپھر جب آپریشن کی سختیاں کم یا ختم ہوتیں ‘ تو یہ لوگ دوبارہ پوری قوت سے سرگرم ہوجاتے تھے۔ان تمام واقعات کے بیان سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد بسا اوقات‘ بلکہ اکثر اوقات گرفتاریوں اور سزاؤں سے بچنے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے فلاحی تنظیموں کے کارکنان کا بھیس بدلتے رہتے ہیں۔ اس سے ایک جانب تو وہ بظاہر عوام کی فلاح میں مصروف نظر آتے اور دوسری جانب انہیں فلاحی کاموں کی آڑ میں قتل و غارت گری ‘ لوٹ مار کی کارروائیاں جاری رکھتے تھے اور جو فلاحی تنظیمیں ان تخریبی عناصر کو قبول کرتیں تھیں‘ وہ بھی کراچی کی تباہی میں برابر کی حصہ دار تھیں۔
اب‘ وطن ِ عزیز میں جب کورونا نے وبائی شکل اختیار کی تو حکومت کی جانب سے امدادی کاموں کیلئے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا گیا‘ تو اس پر چند معروضات گزشتہ کالم میں بیان کر چکا۔ سب سے پہلا اعتراض ہی یہی سامنے آتا ہے کہ آج سے پہلے ایسی کوئی تنظیم سرکاری سطح پر سامنے نہیں آئی‘ جس کے لیے لفظ ''فورس‘‘ استعمال ہوا ہو‘ کیونکہ فورس کا لفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے مخصوص ہے ۔ گو کہ اس فورس کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ پر مشتمل ٹی او آرز بھی جاری کر دی گئیں ہیں اور کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ممبر شپ معطل کردی جائے گی‘ جبکہ یہ رضا کارفورس ہنگامی حالات میں راشن کی تقسیم‘ قرنطینہ مینجمنٹ‘ ٹرانسپورٹ کا انتظام یقینی بنائے گی اور اس کو انتظامیہ کی مکمل سرپرستی اور تعاون حاصل ہوگا۔اب تک رضا کار ٹائیگر ریلیف فورس میں 9 لاکھ 20 ہزار 456 رضاکار خود کو رجسٹر کروا چکے ہیں ‘جس میں پنجاب سے 6 لاکھ 6 ہزار 368‘ سندھ سے ایک لاکھ 40 ہزار 536‘ خیبرپختونخوا سے ایک لاکھ 30 ہزار 689‘ بلوچستان سے 13 ہزار 328‘ اسلام آباد سے 13 ہزار 485‘ آزاد کشمیر سے 10 ہزار 864 اور گلگت بلتستان سے 5 ہزار 508 رضاکار شامل ہو چکے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری سطح پر امدادی کاموں کے لیے کوئی ''فورس ‘‘ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خیرشمولیت کا موقع آیا تو کسی طرح کے چیک اینڈ بیلنس کے بغیر نوجوانوں کی بڑی تعداد کو فورس کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور کسی قسم کی تحقیقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی شہروں سے شکایات آنا شروع ہو گئی ہیں‘ نیز وزیر اعظم عمران خان نے جب سے ٹائیگر ریلیف فورس کا اعلان کیا ہے‘ اپوزیشن کی جانب سے اسے سیاسی اقدام قرار دے کر تنقید کانشانہ بنایاجا رہا ہے۔میری رائے میں بھی ایک مخصوص تنظیم کے لیبل کے ساتھ وجود میں آنے والی ''فورس‘‘ نہ تو اپنے بنانے والوں کیلئے سود مند ہوسکتی ہے اور نہ ملک کے لیے‘ لہٰذا اس نکتے کو پاکستان تحریک انصاف کے فیصلہ ساز جتنی جلدی سمجھ لیں گے‘ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔​
 

Back
Top