US Presidential Election 2020: Meet the candidates!

امریکہ میں صدارتی دنگل ۔۔۔۔۔ مسعود ابدالی

america dangal1.jpg


america dangal2.jpg


america dangal3.jpg


america dangal4.jpg

ٹرمپ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں ، وہ ایک سخت گیر آجر کے طور پر مشہور ہیں

شکاگو کی سابق ملکہ حسن جیڈ سمنز بھی صدارتی امیدوارہیں چار
سیاہ فام باشندے بھی صدارتی انتخاب لڑ رہے ہیں
چاروں اہم امیدواروں کی ذاتی زندگی کی عجیب کہانی ہے

امریکہ کے صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ یعنی امیداروں کو ٹکٹ کا اجرا مکمل ہوچکا ہے ۔ڈیموکریٹک پارٹی نے جو بائیڈن کو صدر اور کملا دیوی ہیرس کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیاہے جبکہ ری پبلیکن پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر اور مائک پینس کو نائب صدر کا ٹکٹ جاری کر چکی ہے۔ اس موقع پر امیدواروں کا تعارف پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔
سب سے پہلے ڈونلڈٹرمپ کا ذکر
۔74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد ہیں جبکہ انکی والدہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے ۔ ہم نے انکے خاندانی پس منظر کا ذکر اسلئے کیا ہے کہ موصوف کو غیر ملکی تارکین وطن کا امریکہ آنا سخت ناپسند ہے حالانکہ انکے داداجان 16 برس کی عمر میں امریکہ آئے تھے اور انکی اسکاٹش والدہ ماریہ مکلیوڈ 17برس کی عمر میں سیاح کی حیثیت سے امریکہ تشریف لائیں اور انکے والد کے عشق میں مبتلا ہوکر یہیں کی ہورہیں۔ اس اعتبار سے ٹرمپ صاحب تارکین وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔شریک حیات کے انتخاب میں بھی انہوں نے غیر ملکی خواتین کو ترجیح دی، انکی پہلی اہلیہ ایوانا چیکوسلاواکیہ نژاد تھیں۔ طلاق کے بعد امریکی خاتون مارلا میپلز صدر ٹرمپ کے نکاح میں آئیں لیکن یہ تعلق صرف 6 سال برقرار رہا۔ انکی موجودہ اہلیہ ملانیا کا تعلق یوگوسلاویہ سے ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فریڈ ٹرمپ کو اپنے ترکے میں کثیر سرمایہ ملا جس سے انہوں نے جائیداد کی خرید وفروخت اور تعمیرات کا کام شروع کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار کے آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈنلڈٹرمپ مشروب اور سگریٹ سے مکمل پر ہیز کرتے ہیں۔
جنگ ویتنام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ مشکوک ہے ۔ وہ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جسکا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر باس کے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیر دستوں کی بے عزتی اور ملازمتوں سے فراغت انکی عادت ہے ۔دفتر میں You-are-firedانکا تکیہ کلام ہے ۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کیلئے ہر قانونی حربہ استعمال کرتاہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں حالانکہ یہ امریکہ کے صدارتی امیدواروں کی روایت ہے ۔
۔1980ء میں وہ ری پبلیکن پارٹی میں تھے اورانہوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے لیکن وہائٹ ہاوس کی مبینہ'سردمہری' کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ۔ 1999ء میں وہ ریفارم پارٹی میں شامل ہوگئے ۔ انکی نظریں 2000 ء کے انتخابات پر تھیں لیکن وہاں پیٹ بوکینن نے انکی ایک نہ چلنے دی۔ چنانچہ 2001ء میں انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004 ء میں ڈیموکریٹک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا کا رخ دیکھ کر دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008 ء میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011ء میں دوبارہ ریپبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔
وہ مسلمان آبادیوں کی نگرانی، امریکی مسلمانوں کی فکری و ذہنی وابستگی کے تجزئے کے حامی ہیں ۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے ایران، عراق لیبیا، صومالیہ،سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگادی تھی۔مسٹر ٹرمپ کا خیال ہے کہ غیر ملکی یہاں آکر امریکیوں کو ملازمتوں سے محروم کر رہے ہیں چنانچہ وہ ویزوں کی تعداد کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری چاہتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے ضمن میں ہسپانوی تارکین وطن انکا ہدف ہیں۔ انکا خیال ہے کہ میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن کی اکثریت جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ امریکی خواتین پر مجرمانہ حملوں میں ملوث ہیں۔وہ ہسپانویوں کی امریکہ میں غیر قانونی آمد روکنے کیلئے میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے پرعزم ہیں اور اس دیوار کا کچھ حصہ مکمل ہوچکا ہے ۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد3200 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے اور چار امریکی ریاستوں یعنی ٹیکسس، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کیلی فورنیا کی سرحدیں میکسیکو سے ملتی ہیں۔ مزے کی بات کہ ٹرمپ کی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والے مزدوروں کی غالب اکثریت غیر قانونی ہسپانوی تارکین وطن پر مشتمل ہے ۔
جوبائیڈن کا تعارف
۔77 سالہ جو بائیڈن 2009 سے جنوری 2017 تک امریکہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ انکا تعلق امریکی ریاست ڈیلاویئرسے ہے ۔مسٹر بائیڈن کی والدہ آئرش نژاد اور ددھیالی شجرہ فرانس اور انگلستان سے ملتا ہے ۔انکے والد تیل کی صنعت سے وابستہ ایک خوشحال تاجر تھے لیکن جو کی ولادت کے وقت انکا کاروبار گھاٹے کا شکار ہوگیا اور ننھے جو کا بچپن سختیوں میں گزرا۔انہوں نے خاصی کم عمری سے معاشی جدوجہد میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا ۔جو بائیڈن کالج کے دنوں میں فٹبال کے کھلاڑی تھے ۔
بائیڈن کی نظریں زمانہ طالب علمی سے ہی وہائٹ ہائوس پر ہیں۔ انکی سابق اہلیہ آنجہانی نیلا ہنٹر نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ پہلی ملاقات میں جو بائیڈن نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 30 سال کی عمر میں سینیٹر اور اسکے بعد امریکہ کے صدر بننا چاہتے ہیں۔ 1969 میں 27برس کے بائیڈن لبرل منشور پرریپبلکن پارٹی کو شکست دیکر بلدیاتی کونسلر منتخب ہوگئے ۔ یہ حلقہ ری پبلیکن پارٹی کا گڑھ تھا اور قدامت پسندوں کو شکست سے دوچار کرکے جو بائیڈن نے ریاستی سیاست میں اپنامقام بنالیا۔
۔1972کے عام انتخابات میں جو بائیڈن نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ انکا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی رہنما کیلب بوگس سے تھا جو 1960 سے اس نشست پر کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے ۔ تجربے کا فرق یوں سمجھئے کہ جب 1942 میں جو بائیڈن کی ولادت ہوئی اسی سال کیلب بوگس بلدیاتی کونسلر منتخب ہوئے تھے ۔جو بائیڈن کی ہمشیرہ ویلیری باییڈن انکی انتخابی مہم کی ناظمہ تھیں۔انہوں نے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات کے بجائے گھر گھر دستک اور گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے جلسوں کی منفرد حکمت عملی اختیار کی۔یہ وہ وقت تھا جب جنگ ویتنام کے حوالے سے عوام میں بے چینی تھی۔ جناب بائیڈن نے ویتنام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو مہم کی بنیاد بنایا اور شدید مقابلے کے بعد 'سرپھرے لڑکے ' کے نام سے مشہور جو بائیڈن مسٹر بوگس کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے ۔
بلاشبہ یہ انکی عظیم الشان کامیابی تھی لیکن صرف چندہفتوں بعد انکی شدید ترین آزمائش کا آغاز ہوا اور ٹریفک کے خوفناک حادثے میں انکی اہلیہ اور شیرخوار بچی ہلاک اور دو نوں بیٹے شدید زخمی ہوگئے۔ انکی حلف برداری کی تقریب اس ہسپتال کی عبادت گاہ میں منعقد ہوئی جہاں انکے بچے زیرعلاج تھے ۔اس سانحے نے بائیڈن کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کئے اور یہ خدا سے بھی متنفر ہوگئے ۔ چند سال بعد انکی ملاقات ایک ماہر تعلیم محترمہ جل جیکبس سے ہوئی جنھوں نے انکی دلجوئی کی۔ جلد ہی یہ ملاقات ایک مخلصانہ رفاقت میں تبدیل ہوئی اور 1977 میں دونوں نے شادی کرلی۔ دوسری طرف انکے بچے بھی مکمل صحتیاب ہوگئے اور جوزف بائیڈن خوش و خرم رہنے لگے ۔ وہ سیینٹ کی نشست پر مسلسل 6 بار منتخب ہوئے ۔ امریکہ میں سینیٹر کی مدت 6 برس ہے گویا وہ 36 سال تک سینیٹ کے رکن رہے ۔
اسی کیساتھ انہوں نے امریکی صدارت کیلئے قسمت آزمائی جاری رکھی۔ 1988 کے انتخابات میںانہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی لیکن نوشتہ دیوار پڑھ کر دستبردار ہوگئے ۔ اسی دوراں انھیں ایک دماغی عارضہ لاحق ہوا لیکن جلد ہی وہ صحتیاب ہوگئے ۔انہوں نے یکسوئی کیساتھ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں دلچسپی لینی شروع کردی، 2007 میں وہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے ۔
وہائٹ ہاوس کا خواب آنکھوں میں سجائے جو بائیڈن 2008 میں ایک بار پھر صدارتی دوڑ میں شامل ہوگئے اور بھرپور مہم چلائی۔ چنانچہ نامزدگی یقینی ہوتے ہی بارک اوباما نے جو بائیڈن کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔نائب صدرکی حیثیت سے جوبائیڈن نے بہت ہی اخلاص اور 'فرمانبرداری' سے صدر اوباما کی نیابت کی۔
نائب صدارت کی امیدوار کملاہیرس
۔55 سالہ کملا دیوی ہیرس نائب صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔ کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام اور ہندوستانی نژاد خاتون ہیں جنھیں نائب صدرکیلئے امیدوار نامزد کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے 1984 میں سابق نائب صدر والٹر مانڈیل نے نائب صدارت کیلئے جیرالڈین فرارو اور 2008میں انجہانی سینیٹر جان مک کین نے محترمہ سارا پیلن کو نائب صدارت کیلئے نامزد کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں خواتین ہارنے والے پینل کا حصہ ثابت ہوئیں۔ان کی والدہ ڈاکٹر شیا مالا گوپلان مدراس، ہندوستان سے اعلی تعلیم کیلئے جامعہ کیلی فورنیا برکلے آئی تھیں جہاں انکی ملاقات جمیکا کے ڈاکٹر ڈانلڈ ہیرس سے ہوئی۔ جلد ہی دونوں نے شادی کرلی۔ کملا کی پیدائش کے سات سال بعد انکے والدین کی طلاق ہوگئی۔ جسکے بعد کملا اور انکی چھوٹی بہن مائرہ اپنی ماں کیساتھ رہنے لگیں۔ انکی والدہ مذہبی خاتون تھیں اور وہ رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو ہندومندر کے ساتھ انکے پتاجی کے سیاہ فام گرجا بھی لے جایا کرتی تھیں۔کملا کو کم عمری سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتی ہیں کہ بچپن میں سفید فام بچے انکے ساتھ نہیں کھیلتے تھے ۔ کملا کی والدہ 2011میں انتقال کر گئیں۔
کملا ہیرس نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہورورڈ (Howard) سے سیاسیاست اور معاشیات میں بی اے کیا۔ احباب کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ Howardاور جامعہ ہارورڈHarvardمختلف تعلیمی ادارے ہیں۔ ہارورڈ میسی چیوسٹس کے شہر بوسٹن میں ہے جبکہ Howardسیاہ فام تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ بی اے کے بعد کملا نے جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔ کملا کی اب تک اپنی کوئی اولاد نہیں لیکن انکے شوہر ڈگلس ایمہوف کی سابق اہلیہ کے دو بچے انکے ساتھ رہتے ہیں۔ کملا کے بے پناہ پیار کی وجہ سے انکے سوتیلے بچے (ایک بیٹی اور ایک بیٹا) انھیں مومالا (موم کمالا) کہتے ہیں۔ ڈگلس ایمہوف ایک پکے یہودی ہیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد کملا المیڈا کاونٹی کی نائب ایڈوکیٹ جنرل مقرر ہوئیں۔ 2003 میں انہیں سان فرانسسکو کی سرکاری وکیل منتخب کرلیا گیا،جبکہ 2010 کے انتخابات میں کملا کیلی فورنیا کا اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ 2016 میں جب ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر سینیٹرباربرا باکسر نے عملی سیاست کو خیر باد کہا تو انکی خالی کردہ نشست پر کملا ہیرس سینیٹر منتخب ہوگئیں۔ 2018ء کے وسط مدتی انتخابات کے فوراً بعدکملا ہیرس نے 2020 ء کے صدارتی انتخاب کیلئے مہم شروع کردی۔ وہ جو بائیڈن کی سخت مخالف تھیں اور ایک مباحثے میںانہوں نے جو بائیڈن پر نسل پرستی کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انکا کہنا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو کملا محلے کے اسکول جانے کے بجائے بس پر بیٹھ کر بہت دور واقع ایک اسکول جاتی تھیں کہ محلے کے سفید فام اسکول میں انکا داخلہ ممنوع تھا۔ کملا ہیرس نے الزام لگایا کہ اسوقت جو بائیڈن سینیٹر تھے اورانہوں نے اس نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ اس موقع پر کملا اور جوبائیڈن کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی اور مباحثے کے بعد وہ جو بائیڈن سے ہاتھ ملائے بغیر پیر پٹختی اسٹیج سے اتر گئیں۔
پرائمری انتخابات کے دوران کملا کی کارکردگی شروع ہی سے خراب تھی۔ چنانچہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ کر جلد ہی دستبردار ہوگئیں۔ مہم ختم کرتے ہوئے کملا نے کہا کہ انکے پاس انتخابی مہم جاری رکھنے کیلئے مالی وسائل نہیں۔ کچھ عرصے بعدانہوں نے جو بائیڈن کی غیر مشروط حمائت کا اعلان کردیا۔
نائب صدر مائک پینس
۔61سالہ مائیکل رچڑد پینس المعروف مائک پینس نائب صدارت کیلئے رپیبلکن پارٹی کی امیدوار ہیں۔ موصوف 2016 میں صدر ٹرمپ کیساتھ امریکہ کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے ۔ وہ ددھیال کی جانب سے جرمن النسل جبکہ انکی والدہ آئرش نژاد ہیں۔انہوں نے جامعہ انڈیانا سے قانون کی سند حاصل کی ۔ جانب پینس کے والد کئی پیٹرول پمپوں کے مالک تھے اور دوران طالب علمی مائک پینس نے اپنے والد کا ہاتھ بٹایا۔ جناب پینس نے میدان سیاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے قدم رکھا اور 1980 کے انتخابات میں صدر جمی کارٹر کیلئے کام کیا۔ اس دوران انہوں نے انجیل مقدس اور دوسری مذہبی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ انھیں انجیل کی بہت سی آیات زبانی یاد ہیں۔انکی والدہ کو جوان بیٹے کی مذہب کی طرف شدید رغبت پسند نہ تھی۔عقیدے کی پختگی کے ساتھ انکا نظریاتی جھکاو بھی دائیں بازو کی طرف ہوگیا اوراور 1984 کے انتخابات میںانہوں نے جمی کارٹرکے ریپبلکن مخالف رونلڈ ریگن کا ساتھ دیا۔
۔29 سال کی عمر میںانہوں نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیالیکن کانگریس کی نشست پر انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نے شکست دے دی۔ دوسال بعدانہوں سے اسی نشست پر دوبارہ قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ موصوف نے انتخابی چندے کی رقم قرض کی ادائیگی اور ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کی تھی۔ ان خبروں سے انکی شہرت کو سخت نقصان پہنچا۔مہم کے دوران انہوں نے مسلم مخالف کارڈ بھی استعمال کیا اور اشتہار میں ایک عرب شخص کو انکے مخالف امیدوار فلپ شارپ کا اس بات پر شکریہ اداکرتے دکھایا گیا کہ مسٹر شارپ نے عرب تیل پرامریکہ کے دارومدار کو ختم کرنے کوششوں کو ثبوتاژکیا۔مسٹر پینس نے بعد میں اس اشتہار سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ماضی میں شکست اور اسکینڈل کے بعد مسٹر پینس نے انتخابی سیات سے وقتی طوپر کنارہ کشی اختیار کرلی اور مقامی ریڈیوپر ایک سیاسی پروگرام کی میزبانی شروع کردی۔
۔2000میں وہ ایک بار پھر انتخابی دنگل میں 'مسیحی قدامت پسند ریپبلکن ' کی شناخت سے اترے اور انڈیانا کے حلقہ 2 سے امریکی کانگریس کے رکن منتخب ہوگئے ۔ وہ اس حلقے سے مسلسل چاربار کامیاب ہوئے ۔ 2006 میں جناب پینس نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی قائد بننے کی خواہش ظاہر لیکن انھیں شکست ہوگئی۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ امریکہ میں اکثریتی پارٹی کے پارلیمانی قائد کو اسپیکر کا منصب عطا ہوتا ہے جبکہ حزب اختلاف کے پارلیمانی قائد کواقلیتی رہنما کہا جاتا ہے ۔ 2012 میں مائک پینس اپنی آبائی ریاست انڈیانا کے گورنر منتخب ہوگئے ۔ 2016 میں دوسری مدت کیلئے ان کی انتخابی مہم جاری ہی تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے جناب پینس کو نائب صدارت کیلئے امیدوار بننے کی پیشکش کی اورانہوں نے گورنرکیلئے اپنی انتخابی مہم ختم کردی۔ امریکہ میں پاکستان کی طرح بیک وقت کئی نشستوں پر انتخاب لڑنے کا رواج نہیں۔
جناب پینس ایک راسخ العقیدہ مسیحی اورسیاسی اعتبار سے قدامت پسند ہیں۔ وہ بہت فخر سے اپنی سیاست کو مسیحی اقدار کو تابع کہتے ہیں۔ پینس صاحب اسقاط حمل کو قتل کردانتے ہیں۔ ہم جنس شادیوں کے سخت مخالف اور اسکولوں میں طلبہ کو عبادت کی اجازت کے حامی ہیں۔ وہ جوئے کے بھی مخالف ہیں اور رکن کانگریس کی حیثیت سے انہوں نے کئی بار جوئے کو غیر قانونی قرار دلوانے کی کوشش کی۔ انھیں غیر ملکیوں کا امریکہ آنا پسند نہیں اور دورگورنری میں جناب پینس نے پناہ گزینوں کی اپنی انڈیانا آنے کی مخالفت کی۔ دلچسپ بات کہ جب انتخابی مہم کے آغاز پر ڈونالڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدارآکر مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگادینگے تو جناب پینس نے اسے غیر آئینی قراردیا لیکن نائب صدارت کا امیدواربننے کے بعدانہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ سیاست دان اور مرغ باد نما میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ چاہئے وہ پاکستان کے شیخ رشید و فوادچودھری ہوں یا امریکہ کے پینس۔
جناب پینس انسداد کرونا وائرس ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ امریکی نائب صدر اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں اور وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے ۔ موصوف کئی بار دیوارگریہ کی زیارت کرچکے ہیں ۔
جناب پینس کے اکلوتے صاحبزادے فوج میں افسر ہیں اور انکے ایک داماد بھی امریکی بحریہ سے وابستہ ہیں۔ریپبلکن پارٹی کے قومی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انکی اہلیہ کیرن پینس نے اپنے خاندانی پیشہِ سپہ گری پر فخر کا اظہار کیا۔محترمہ کیرن نے کہا کہ انکی ولادت ایک فوجی اڈے پر ہوئی۔ انکے سسر، ایک بیٹا اور داماد فوجی ہیں۔پینس کو جانور پالنے کا شوق ہے ،انہوں نے بلی ، کتے اور خرگوش کے ساتھ ایک سانپ بھی پال رکھا ہے
امریکہ کے صدارتی انتخابات ۔ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے علاوہ بھی درجنوں امیدوار میدان میں ہیں۔ جن میں کچھ کا ذکر احباب کی دلچسپی کیلئے کر رہے ہیں۔ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی ہر جماعت اور کسی بھی شخص کو انتخاب لڑنے کی آزادی ہے لیکن بیلٹ پر نام کیلئے مختلف ریاستوں میں رجسٹریشن ضروری ہے اور اسکا معیار بھی مختلف ہے ۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چھوٹی پارٹیاں میدان میں ہیں
لیبریٹیرین پارٹی نے پروفیسر جو جورگنسن کو صدر اور اسپائیک کوہن کونائب صدر کیلئے امیدوارنامزد کیا ہے اورانکا نام 49 ریاستوں اور دارالحکومت کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا۔ 2016 میں اس جماعت نے 3.28فیصد ووٹ لئے تھے۔
گرین پارٹی نے ہاوی ہاکنس کو صدر اور سیاہ فام خاتون انجیلاواکر کونائب صدارت کیلئے نامزد کیا ہے ۔ پارٹی کا نام 31 ریاستوں اور دارالحکومت کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا۔ 2016 میں اس جماعت نے 1.07فیصد ووٹ لئے تھے
الائینس پارٹی کا نام ریاستوں 14 کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا
دستور پارٹی کا نام 18 ریاستوں کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا۔ پارٹی نے ڈان بلینکن شپ کو صدر اور ولیم مور کونائب صدارت کیلئے امیدوارنامزد کیا ہے ۔ 2016 میں اس جماعت نے 0.15فیصد ووٹ لئے تھے۔
سوشلزم اینڈ لبریشن پارٹی کا نام 11 ریاستوں اور دارالحکومت کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا۔ 2016 میں اس جماعت نے 0.05فیصد ووٹ لئے تھے ۔پارٹی نے ہندوستان نژاد سونیل فری مین کو نائب صدارت کیلئے نامزد کیا ہے
برتھ ڈے پارٹی کے نام سے اس بار ایک نئی جماعتسامنے آئی ہے جس نے مشہورگلوکاراور فیشن ڈیزائنر کنیاویسٹ کو صدارتی امیدوارنامزد کیا ہے ۔ کینا ویسٹ صاحب کی شہرت یہ ہے کہ موصوف خوبرو ادکارہ کم کرداشین کے شوہر ہیں۔ اس جماعت کانام 9 ریاستوں کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا
امریکن سالیڈیرٹی پارٹی کا نام 6 ریاستوں کے پرچہ انتخاب پر درج ہوگا۔ اس کے علاوہ سوشلسٹ ورکرز پارٹی،Prohibition پارٹی،ترقی پسند پارٹی بھی میدان میں ہیں۔



 
Column date
Sep 18, 2020
@intelligent086
تمام امیدواروں کا تعلیم و تجربہ دیکھیں یہاں ہمارے سروں پر کھوتے بیٹھا دیتے ہیں ان گدھوں میں سے انتخاب کریں
یہ ان کی مرضی کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
 

Back
Top