Adabi Mazameen Wabaii Amraaz , Adab Aur Shayari By Sohib Margub

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
وبائی امراض، ادب اور شاعری

shayeri.jpg

مرزا غالب،جوش،جان ایلیا اور ن م راشد کی شاعری آج کے حالات پر پورا اترتی ہے

تحریر : صہیب مرغوب

وبائی امراض نے انسان کو ہر دور میں زندہ رہنے کے نئے ڈھنگ سکھائے ہیں، وائرس نے ہر دور میں حضرت انسان کو بتایا ہے کہ تو بہت غافل ہو گیا ہے، یہ ترقی کافی نہیں، بقا چاہتا ہے تو اپنی کمزوریوں پر بھی قابو پالے۔ وائرس اور وبائی امراض انسان کو تیز دوڑنے ہر مجبور کرتے رہے ہیں کیونکہ انسان سست پڑ گیا تھا۔

۔1918ء میں مشرق اور مغرب میں شدید امراض پھیلے، ہیضے اور کئی طرح کے بخار نے لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میںدھکیل دیا۔ شاعر اور ادیب بھی اس سے کٹ کر نہ رہ سکے۔ مغرب میں ایک وبا ارنسٹ ہیمنگوے نے خود بھگتی۔ اسے اپنی فیملی کے ساتھ قرنطینہ میں رہنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ زندہ رہنے کا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ جبکہ نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے وبا پر ناول لکھنے کے بعد پُراسرار طور پر اپنی جان گنوا دی تھی۔
اچھی شاعری ہر دور اور موسم میں فٹ بیٹھتی ہے، یہی دلوں میںگھر کرتی ہے اور ہمیشہ زندہ رہتی ہے ورنہ اس دنیا میں کسی بھی شے کو دوام نہیں۔ اچھی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں مطالب کا سمندر پنہاں ہو، معنی کے دریا بہتے ہوں۔ البتہ اس شاعری کو ایسے ایسے معنی بھی پہنائے جاتے ہیں کہ شاعر خود بھی حیران ہوتا ہے۔ میں نے کئی بحثوں میں شاعر کو بھی حیران پریشان منہ کھولے دیکھا ہے۔ نقاد ان کے ایک ایک مصرعے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے، یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اسی کا نام شاعری ہے ۔
کہتے ہیں شاعروں کو آمد ہوتی رہتی ہے، یہ سچ ہے یا نہیں مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے، لیکن سچائی یہی ہے کہ قرنطینہ میں رہنے اور ایک دوسرے سے دوری کا ذکر شاعر زمان و مکاں مرزا غالب سے بہتر کون کر سکتا تھا۔ انہوں نے صاف لفظوں میں قوم کو بتا دیا تھا کہ اکھٹے رہنے کا زمانہ ختم ہو گیا جناب، اب میل ملاپ رہنے بھی دیجئے، کسی ایسی جگہ چل کر رہیے جہاں کوئی نہ ہو یعنی وائرس کی پہنچ سے باہر رہیے ورنہ زندگی کے لالے پڑ جائیں گے۔ مرزا غالب نے فرمایا تھا،
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ان کی شاعری میں حالات حاضرہ کی ایک ایک بات درست معلوم ہوتی ہے، جیسے کل ہی لکھی گئی ہو۔ ہمسایہ اور تیمار دار نہ ہونے کا واضح اشارہ قرنطینہ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس میں تیمار دار کو بھی ملنے کی اجازت نہیں، مرنے کے بعد میت کو بھی حفاظت اور احتیاط سے ہی دفنایا جاتا ہے۔ مرزا غالب کو بھی یہی رنج ہے کہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو الگ تھلگ ہی رہنا پڑے گا۔
میر نعیم نے کھل کر ہی بات بیان کر دی۔ آج کل بھی یہی چرچا ہے کہ غریبوں کو کیسے روٹی پہنچائی جائے۔ یہ وائرس سے بھی بڑی مشکل ہے۔ میر نعیم نے بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا
سب پریشان ہیں کہ آخر کس وبا میں وہ مرے
جن کوغربت کے علاوہ کوئی بیماری نہ تھی
یعنی انہوں نے بھی یہی کہہ دیا تھا کہ اگر توجہ نہ فرمائی گئی تو خاکم بدہن ہلاکتیں وبا سے کم اور غربت سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔ جوش ملیح آبادی کو دیکھیے، کیا فرماتے ہیں۔ طاعون کے حوالے سے شعر کہتے ہیں،
اور کس موسم میں جب طاعون ہے پھیلا ہوا
ذرہ ذرہ ہے وبا کے خوف سے سمٹا ہوا
یہ کیفیت کی مکمل عکاسی ہے، آج بھی ہر سو خوف ہی خوف ہے، سڑکیں ویران ہیں اور بازار بند ہیں، کہیں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ یہی سوچتے ہوئے میں نے اردو ادب کا مطالعہ کیا تو میرے ذہن میں جون ایلیا کی معروف غزل آ گئی۔ ان کے کئی اشعار آج کی صورتحال کے عین مطابق ہیں، لکھتے ہیں کہ کیا وقت آ گیا ہے کہ انسان کو انسان سے ہی خطرہ ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم سب کو ایک ہی دکھ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی اچھی بات نہ سنتے ہیں، نہ عمل کرتے ہیں جیسا کہ آج بھی کرفیو کی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ نادان لوگ ہر جگہ اکٹھے ہو کر وائرس کے پھیلائو کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ آپ بھی پڑھیے۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوںکریں ہم
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
ن م راشد کی نظم ''آدمی سے ڈرتے ہو‘‘ بھی یہی منظر پیش کرتی ہے۔ جس میں آدمی کو آدمی سے ڈر لگتا ہے، آج بھی یہی کیفیت ہے، لوگ ایک دوسرے سے ڈر رہے ہیں۔ ن م راشد کے معنی ذرا فلسفیانہ اور گہرے تھے لیکن یہ معنی بھی تو نکلتے ہیں، ذرا پڑھیے
زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو
آدمی سے ڈرتے ہو
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے
آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
''ان کہی‘‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
اس میں ن م راشد کہتے ہیں ہم اس گھڑی کی آمد سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وائرس ہمیں نہ پکڑ لے۔ کیا بات ہے راشد صاحب کی، پھر وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جو گھڑی نہیں آئی اس سے کیا ڈرنا، یعنی کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔
ٹائیفائیڈ، خسرہ اور ہیضہ اس زمانے کی عام بیماریاں تھیں، خشک سالی اور قحط اس کے علاوہ تھے، ہمارے ہاں یعنی برصغیر میں انگریز کی غلامی نے الگ انسان کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ خطے کی یہ سب پریشانیاں شاعری میں نمایاں تھیں۔ مغربی ادب میںآفات کے ذکر پر شائع ہونے والے کئی مضامین میری نظر سے گزرے۔ ان سب کا موضوع یہی تھا کہ پرانے زمانے میں کئی خطرناک بیماریوں نے جنم لیا، دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ نیست و نابود کر دیا لیکن شاعر اور ادیب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کم ہی لٹریچر میں اس زمانے کی بھیانک صورتحال بیان کی گئی ہے۔ اب ایسا نہیںہے، اب ادیب اور شاعر مصروف ہیں، سوچ رہے ہیں اور کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ مغربی ادب میں البرٹ کامیو وبائی امراض کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ الجزائر میں پیدا ہونے والے اس نوبیل انعام یافتہ مصنف کا ناول ''دی پلیگ‘‘ (The Plague) 1918ء میں آنے والے وائرس کے گرد گھومتا ہے۔ اس نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ پرانا وائرس کسی تجربہ گاہ کی ایجاد تھا، قدرت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ''وقت بہت کم رہ گیا ہے لوگ مر رہے ہیں، ڈاکٹروں کی کمی ہے، 24گھنٹے کام کر رہے ہیں لیکن بے تحاشا زندگیاں خطرے میں ہیں صرف اس لئے کہ کسی ایک ملک نے دنیا کو فتح کرنے کی ہوس میں وائرس کو انسانوں کے قتل پر لگا دیا۔ ڈاکٹر ہوں یا عام آدمی، سب ہی اس وقت بھی قرنطینہ میں چلے گئے تھے‘‘۔ البرٹ کی موت انتہائی حیرت ناک تھی۔ پُراسراریت کی وجہ بھی شائد یہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ وائرس سابق سوویت یونین نے دنیا کو فتح کرنے کے لئے بنایا تھا لیکن اس کے کنٹرول سے نکل گیا اورکئی حلیف ممالک بھی وائرس کا نشانہ بن گئے ۔
۔1960ء میں وہ صرف 46 برس کا تھا، جب وہ اپنے پبلشر کے ساتھ آرہا تھا کہ راستے میں چوڑی اور کھلی سڑک پر اس کی کار دو درختوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی۔ پاش پاش تو میں کچھ زیادہ ہی لکھ گیا۔ حادثہ اس قدر شدید تھا کہ مصنف کی موقع پر ہی جان چلی گئی۔ حادثے کو اب تک ایک سازش سمجھا جا رہا ہے۔ اتنی کھلی، بڑی اور صاف سڑک پر دو درختوں سے ٹکرانے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ روس پر الزام دھرنے پرشائد روسی خفیہ ایجنسی نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس کی ہلاکت پر اٹلی کے مصنف Giovanni Catelliنے ایک کتاب لکھی ہے، عنوان ہے ''کامیو کی موت‘‘۔ کتاب میں مصنف نے کے جی بی کو ہی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
وبائی مرض نے معروف مصنف ارنسٹ ہیمنگوے کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ اسے اپنی بیوی ہیڈلے، بچے بومبی، مسٹریس پائولین اور ٹائپ رائٹر کے ساتھ قرنطینہ میں جانا پڑ گیا تھا۔ دنیا کا معروف ترین مصنف بننے کا خواب دل میں لئے وہ پیرس پہنچا تھا، جدی پشتی امارت تو تھی نہیں لیکن زندگی بنانے کی امنگ تھی۔ مسٹریس کی موجودگی میاں بیوی میں اکثر ہی نوک جھونک کا باعث بنتی رہتی تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پیرس میں ہی اس کے بیٹے کو شدید کھانسی کے ساتھ بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر نے سانس کی نالی کا مرض تشخیص کیا۔ جس کے بعد ان سب کو ایک قریبی خالی مکان میں قرنطینہ میں جانا پڑ گیا۔ لیکن ہیمنگوے جب قرنطینہ سے باہر آیا تو اس کا ادب ساری دنیا پر چھا گیا۔



 

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
:laugh:
@Angelaa
 
زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو
آدمی سے ڈرتے ہو
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے
آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
''ان کہی‘‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
بہت عمدہ
 
@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top