Wabaii Amraaz aur Aalmi Dunya - Javeria Siddique Column

وبائی امراض اور عالمی دنیا ...... جویریہ صدیق

وبا کو عذاب سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے اور آج کل دنیا کوروناوائرس کی وبا میں مبتلا ہے۔ہم سب کو اجتماعی توبہ کرنی چاہیے اور حلال کھانے کو فروغ دینا چاہیے ۔پرانے وقتوں میں طاعون‘ ہیضہ‘ گردن توڑ بخار‘ چیچک اور یرقان وغیرہ جان لیوا امراض تھے‘ بعد میں ان کا علاج دریافت ہونے کی وجہ سے یہ جان لیوا نہیں رہے ‘ مگر دورِ جدید میں ایبولا‘ سارس‘ مرس‘ ڈینگی او ر کورونا وبائی امراض کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 2014ء میں ایبولا کئی افریقی ممالک میں وبا کی طرح پھیل گیا اورسیرالیون‘نائیجیریا‘ گنی‘ کانگو‘ جنوبی سوڈان‘ ایوری کوسٹ اور یوگنڈا میں اس بیماری نے دہشت مچا دی۔ ایبولا متاثرہ بندر‘ چمگادڑ اور بن مانس وغیرہ کے خون‘ فضلے اوراعضاکے باعث انسانوں میں پھیلتا اور متاثرہ انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوسکتا ہے ۔اس کے بعد ڈینگی کی وبا نے اپنے پر پھیلائے اور گزشتہ برس پاکستان میں ڈینگی سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ۔پہلے یہ بیماری صرف پنجاب پرحملہ آور ہوتی تھی‘ لیکن بعد میں پورے ملک سے اس کے کیس سامنے آنے لگے۔ڈینگی بخار اڈیس ایجپٹی نامی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے ۔اس مچھر پر سیاہ اور سفید دھبے ہوتے ہیں۔
ایک بار پھر دنیا کو ایک نئی وبائی مرض ''کورونا‘‘ کا سامنا ہے ۔2011ء میں ہالی وڈ کی ایک مووی آئی تھی ''Contagion‘‘اس میں چمگادڑ اور سور کے گوشت کی وجہ سے فلُو وائرس پھیلتا ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہو جاتی ہیں ۔ہر طرف موت کا راج ہوتا ہے اور کوئی علاج نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح جانوروں اور سی فوڈ مارکیٹ سے کورونا وائرس چین کے شہر ووہان میں پھیلا۔ پوری دنیا اس بیماری کی وجہ سے مختلف قسم کے شکوک وشہبات اور خوف میں مبتلا ہے۔دنیا بھر میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے اور 4700سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔پاکستان میں اس کے اب تک 22کیسز سامنے آئے ہیں‘ جن میں زیادہ تر نے حال ہی میں ایران کا سفر کیا تھا۔یہ عالمی وبا ہے‘ جو انسانوں اور عالمی معیشت پر بہت برا اثر ڈالے گی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کا کوئی علاج نہیں ‘ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کر کے آپ اس سے بچ سکتے ہیں‘ جیسا کہ ہاتھ صابن سے دھونا ۔
چین کے بعد اٹلی اور ایران میں یہ وبا بڑے پیمانے پر پھیلی ہے۔ اٹلی کے بہت سے شہروں کو بند کردیا گیا ہے اوردیگر ممالک اپنے عوام کو متنبہ کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے متاثر ممالک کا سفر کرنے سے گریز کیا جائے۔پاکستان میں حکومتی دعوے ایک طرف ‘لیکن پاکستان میں صحت کے شعبے کے حالات ناگفتہ بہ ہیں ۔اسی لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مرض کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے ۔جن میں قرنطینہ اور سکریننگ بہت اہم ہے۔ ہوائی اڈوں‘ سرحدوں اور بندرگاہوں پر مسافروں کا طبی معائنہ کیا جائے‘ خاص طور پر جو متاثرہ ممالک سے آئے ہوں اور جو بیمار ہو اسے کم از کم دوہفتے کے لیے زیر معائنہ رکھا جائے۔
کورونا عالمی وبا ہے‘ اس سے بچاؤ کے لیے فوری طور عوامی تقریبات کو کینسل کیا جائے۔ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعطیلات دینی چاہئیں۔ہیلتھ ورکرز‘ ایئرپورٹس اور سرحدوں پر موجود عملے کو مکمل حفاظتی کٹس مہیا کی جائیں تاکہ وہ خود بیمار نہ ہوجائیں۔ان تمام ممالک سے فضائی آپریشن بند کردیا جائے جہاں کورونا کی وبا پھیل چکی ہے ۔اس وقت ملک بھر میں میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئیر کردی جائے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد مکمل طور پر بند کردی جائے ‘جو زائرین ایران اور عراق سے آرہے ہیں انہیں سرحد پر دو ہفتے تک آئسولیشن وارڈز میں رکھا جائے‘ جو صحت مند ہیں ان کو گھر جانے کی اجازت دی جائے ‘جو بیمار ہوں ان کو ہسپتال میں منتقل کیا جائے ۔کورونا وائرس کی علامات میں ناک بہنا شروع ہوجاتا ہے ‘ کھانسی ‘ گلے میں خراش‘بخار‘خشک کھانسی اور انتہائی صورت میں انفیکشن سانس کی نالی کے راستے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے اورنمونیا ہوجاتا ہے ۔
کورونا وائرس سے اٹلی میں بارہ ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں‘ اس کے بعد ایران اور جنوبی کوریا میں صورتحال گمبھیر ہے۔تمام ممالک اپنے طور پر حفاظتی انتظامات کررہے ہیں ۔امریکہ نے تیس دن کے لیے یورپ پر سفری پابندی لگادی ہے۔سعودی عرب نے عمرہ زائرین کو واپس جانے کا حکم دیا ہے ۔انڈین پریمیر لیگ بھی تاخیر کا شکار ہوگئی ہے‘ کیونکہ بھارت نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔پاکستانی حکومت کس چیز کے انتظار میں ہے؟ آخر یہاں کیوں نہیں احتیاط کررہے۔یہاں پر دو ہفتے کے لیے تمام سرگرمیوں کو روک دینا چاہیے ۔آج ٹوئٹر نے بھی اپنے دفاتر بند کرتے ہوئے یہ کہا کہ ملازمین گھر سے کام کریں۔تو میرا یہ سوال ہے کہ اگر یہاں کورونا پھیل گیا تو یہ قیامتِ صغریٰ ہوگی ۔ہم سے پولیو اور ڈینگی تو ختم نہیں ہوسکا تو کیا ہم کورونا کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔اس لیے احتیاط برتی جائے ۔یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے ‘ اس پر سیاست نہ کی جائے ۔سب لوگ ہاتھ بار بار دھویں ‘ گندے ہاتھ منہ‘ آنکھ‘ ناک اور کان پر نہ لگائیں۔گرم پانی پئیں۔کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ ڈھانپ لیں‘رش والی جگہوں پر نہ جائیں‘ غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں۔سوئمنگ پولز‘ جم ‘ سینما ‘ تھیٹر نہ جائیں۔خریداری کرتے وقت ایک شخص کا دوسرے سے فاصلہ ایک میٹر ہونا چاہیے‘کنسرٹ‘ میچ ‘جلسے ‘ دھرنے اور مارچ کینسل کردیے جائیں۔ماسک‘ صابن اور ہینڈ سینیا ٹیزر کی مارکیٹ میں فراہمی کو حکومت یقینی بنائے ۔جس دن ملک میں کورونا وائر س کا کیس رپورٹ ہوا تھا اس دن منافع خوروں نے ماسک غائب کردیے اور ایک ماسک کی قیمت 400روپے تک پہنچ گئی ۔پاکستان میں خدشہ تھا کہ چین سے وائرس منتقل ہوگا‘ لیکن مسافر ایران سے اس کو ساتھ لے آئے جوکہ حکومت کی سکریننگ کی سہولیات پر بڑا سوال ہے ۔کچھ عرصہ کی آئسولیشن کورونا وبا سے ہم سب کو بچا سکتی ہے۔جب یورپی ممالک پورا پورا ملک لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں تو ہماری حکومت خوابِ غفلت سے کب بیدار ہوگی۔سندھ حکومت نے پی ایس ایل کے میچوں میں تماشائیوں کی آمد پابندی لگادی ہے‘ جو کہ احسن اقدام ہے ۔
کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سب لوگ اپنے ہاتھ بار بار دھویں ‘ منہ دھویں‘ چھینکتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں ‘ رومال یا ٹشو استعمال کریں ‘جنگلی جانوروں سے دور رہیں‘غیرضروری سفر سے پرہیز کریں۔کورونا وائرس کسی بھی چیز کی سطح پر چند گھنٹے موجود رہ سکتا ہے اس لیے غیر ضروری چیزیں نہ چھوئیں۔اگر اس وبا کے خوف سے آپ ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں تو اپنے گھر والو ں کے ساتھ وقت گزاریں۔ وزرش کریں سانس کی ایکسائز کریں‘ سگریٹ سے دور رہیں ۔کڑھائی ‘سلائی‘ کوکنگ ‘ فوٹو گرافی یا باغبانی کریں ۔اگر خوف زیادہ طاری ہو تو اپنے معالج سے فون پر بات کرلیں۔اگر بخار اورفلو سے طبیعت خراب ہوتو گھر پر آرام کریں۔ اگر کورونا کی علامات دیکھیں تو حکومت کی ہیلپ لائین پر اطلاع دیں ۔اس مرض کا شکار زیادہ تر بڑی عمر کے افراد ہورہے ہیں‘ خاص طور پر جن کو کینسر‘ شوگر‘ بلڈ پریشر‘ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے ۔ یاد رکھیں کہ یہ پالتو جانوروں کی وجہ سے نہیں ہورہا نہ ہی بلیوں اور کتوں میں یہ وائرس پایا جاتا ہے۔
اب تک پاکستان میں یہ بیماری مقامی طور پر نہیں پھیلی ‘اب تک جو مریض سامنے آئے ہیں انہوں نے ان ممالک کا سفر کیا تھا جہاں یہ وبا عام ہے۔اس لیے حکومت ہوش کے ناخن لے اورباہر سے آنے والے مشتبہ لوگوں کو قرنطینہ مراکز میں منتقل کرے۔اگر ایسا نہ ہوا تو کہیں خدانخواستہ ویسی صورتحال نہ بن جائے جس کی منظر کشی2011ء میں آنے والی Contagionمووی میں ہوئی تھی ‘ جس میں چمگادڑ سے پھیلنے والی بیماری سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔​
 
Columnist
Javeria Siddique

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top