Quran Hadith Walidain Se Salook Ke Aadaab By Muhammad Yusuf Islahi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
والدین سے سلوک کے آداب

wald.jpg

تحریر : محمد یوسف اصلاحی
ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیجئے اور اس حسن سلو کی کی توفیق کو دونوں جہان کی سعادت سمجھئے، خدا کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق ماں باپ ہی کا ہے۔ان کے حقوق کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ ماں باپ کے حق کو خدا کے حق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
ترجمہ :’’ اور آپﷺ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں۔ ’’ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے پوچھا کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا’’ وہ نماز جو وقت پر پڑھی جائے۔‘‘ میں نے (پھر) پو چھا اس کے بعد کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ﷺہے۔ فرمایا۔ ’’ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ‘‘ میں نے پوچھا اس کے بعد ، فرمایا ’’ خدا کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا۔‘‘ میں آپﷺ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کے لیے بیعت کرتا ہوں اور خدا سے اس کا اجر چاہتا ہوں۔‘‘ نبی کریم ﷺ ﷺ نے پوچھا ’’ کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہے اس نے کہا جی ہاں بلکہ (خدا کا شکر ہے )دونوں زندہ ہیں۔ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ تو کیا تم واقعی خدا سے اپنی ہجرت اور جہاد کا بدلہ چاہتے ہو؟ اس نے کہا ’’ جی ہاں ( میں خدا سے اجر چاہتا ہوں۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تو جائو اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘ (مسلم)
حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ’’ یارسول اللہ ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا ، ’’ ماں باپ ہی تمہاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ۔‘‘ (ابن ماجہ )
۔۲۔والدین کے شکر گزار رہیے، محسن کی شکر گزاری اور احسان مندی شرافت کا اولین تقاضا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وجود کا محسوس سبب والدین ہیں۔ پھر والدین ہی کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلتے بڑھتے اور شعور کو پہنچتے ہیں اور وہ جس غیر معمولی قربانی ، بے مثل جاں فشانی اور انتہائی شفقت سے ہماری سرپرستی فرماتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہمارا سینہ ان کی عقیدت و احسان مندی اور عظمت و محبت سے سرشار ہو اور ہمارے دل کا ریشہ ان کا شکر گزار ہو، یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان کی شکر گزاری کی تاکید فرمائی ہے:
اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ’’ ( ہم نے وصیت کی ) کہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کے شکر گزار رہو۔‘‘
۔۳۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کیجئے اور ان کی مرضی اور مزاج کے خلاف کبھی کوئی ایسی بات نہ کہیے ، جو ان کو ناگوار ہو، بالخصوص بڑھاپے میں جب مزاج کچھ چڑچڑا اور کھر ّا ہو جاتا ہے اور والدین کچھ ایسے تقاضے ، مطالبے کرنے لگتے ہیں جو توقع کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی ہر بات کو خوشی خوشی برداشت کیجئے اور ان کی کسی بات سے اکتا کر جواب میں کوئی ایسی بات ہر گز نہ کیجئے، جو ان کو ناگوار ہو، اور ان کے جذبات کو ٹھیس لگے:
اِمَّا یَبْلُغَنْ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُ ھُمَا اَوْ کِلاَ ھُمَا فَلاَ تَقُلُ لَّھُمَا اُفٍ وَّلاَ تَنْھَرْ ھُمَا(بنی اسرائیل:۲۳)
’’ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑکیاں دو۔‘‘
دراصل بڑھاپے کی عمر میں بات کی برداشت نہیں رہتی اور کمزوری کے باعث اپنی اہمیت کا احساس بڑھ جاتا ہے، اسی لیے ذرا ذرا سی بات بھی محسوس ہونے لگتی ہے ، لہذا اس نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے کسی قول و عمل سے ماں باپ کو ناراض ہونے کا موقع نہ دیجئے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور خدا کی ناراضی والد کی ناراضی ہے۔ ‘‘ ( ترمذی ، ابن حبان، حاکم)
یعنی اگر کوئی اپنے خدا کو خوش رکھنا چاہے تو وہ اپنے والد کو خوش رکھے ، والد کو ناراض کرکے وہ خدا کے غضب کو بھڑکائے گا۔
حضرت عبداللہ ؓ ہی کا بیان ہے کہ ایک آدمی اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ جائو اپنے ماں باپ کے پاس واپس جائو اور ان کو اسی طرح خوش کر کے آئو جس طرح تم ان کو رلا کر آئے ہو۔‘‘ (ابو دائود)
۔۴۔ دل و جان سے ماں باپ کی خدمت کیجئے۔ اگر آپﷺ کو خدا نے اس کا موقع دیا ہے تو دراصل یہ اس بات کی توفیق ہے کہ آپ خود کو جنت کا مستحق بنا سکیں اور خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ ماں باپ کی خدمت سے ہی دونوں جہاں کی بھلائی ، سعادت اور عظمت حاصل ہوتی ہے اور آدمی دونوں جہان کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اسکی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں کشادگی ہو، اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرے اور صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (الترغیب والتربیب)
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ وہ آدمی ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، لوگوں نے پوچھا ، اے خدا کے رسول ؐ ! کون آدمی؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا… دونوں کو پایا، یا کسی ایک کو … اور پھر ( ان کی خدمت کر کے ) جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘
ایک موقع پر تو آپﷺ نے خدمت ِ والدین کو جہاد جیسی عظیم عبادت پر ترجیح دی اور ایک صحابی کو جہاد میں جانے سے روک کر والدین کی خدمت کی تاکید فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے حاضر ہوا۔ نبی کریمﷺ نے اس سے پوچھا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں اس نے کہا، جی ہاں زندہ ہیں، ارشاد فرمایا۔ جائو اور ان کی خدمت کرتے رہو۔ یہی جہاد ہے۔(بخاری، مسلم)
۔۵۔ ماں باپ کا ادب و احترام کیجئے اور کوئی بھی ایسی بات یا حرکت نہ کیجئے، جو ان کے احترام کے خلاف ہو، قرآن میں ہے:
وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْمَاo (بنی اسرائیل:۲۳)
’’ اور ان سے احترام کی بات کیجئے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا، کیا آپﷺ یہ چاہتے ہیں کہ جہنم سے دور رہیں اور جنت میں داخل ہوں؟ ابن عباسؓ نے کہا کیوں نہیں۔ خدا کی قسم یہی چاہتا ہوں، حضرت ابن عمر ؓ نے پوچھا، آپ کے والدین زندہ ہیں؟ ابن عباسؓ نے کہا جی ہاں میری والدہ زندہ۔ ابن عمرؓ نے فرمایا۔ اگر تم ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو۔ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھو تو ضرور جنت میں جائو گے ۔ بہ شرط کہ تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو۔ (الادب المفرد)
حضرت ابو ہریرہؓ نے ایک بار دو آدمیوں کو دیکھا ۔ ایک سے پوچھا یہ دوسرے تمہارے کون ہیں؟ اس نے کہا یہ میرے والد ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا دیکھو! نہ ان کا نام لینا، نہ کبھی ان سے آگے آگے چلنا اور نہ کبھی ان سے پہلے بیٹھنا۔ (الادب المفرد)
۔۶۔ والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آئیے۔
وَاخْفِضْ لَھُمَا جُنَاحَ الدُّلِّ مِنْ الرَّحْمَۃِ
(بنی اسرائیل:۲۴)
’’ اور عاجزی اور نرمی سے ان کے سامنے بچھے رہو۔‘‘
عاجزی سے بچھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ان کے مرتبہ کا لحاظ رکھو اور کبھی ان کے سامنے اپنی بڑائی نہ جتائو اور نہ ان کی شان میں گستاخی کرو۔
۔۷۔ والدین سے محبت کیجئے اور اس کو اپنے لیے باعث ِ سعدات و اجر ِ آخرت سمجھئے۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
’’ جو نیک اولاد بھی ماں باپ پر محبت بھری ایک نظر ڈالتی ہے، اس کے بدلے خدا اس کو ایک حج ِ مقبول کا ثواب بخشتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے خدا کے رسولؐ! اگر کوئی ایک دن میں سو بار اسی طرح رحمت و محبت کی نظر ڈالے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ جی ہاں اگر کوئی سو بار ایسا کرے تب بھی، خدا تمہارے قصور سے بہت بڑا اور (تنگ دل جیسے عیبوں سے ) بالکل پاک ہے‘‘ (مسلم)
۔۸۔ ماں باپ کی دل وجان سے اطاعت کیجئے۔ اگر وہ کچھ زیادتی بھی کر رہے ہوں تب بھی خوش دلی سے اطاعت کیجئے اور ان کے عظیم احسانات کو پیش نظر رکھ کر ان کے وہ مطالبے بھی خوشی خوشی پورے کیجئے، جو آپ کے ذوق اور مزاج پر گراں ہوں بہ شرط کہ وہ دین کے خلاف نہ ہوں۔
حضرت ابو سعید ؓ کا بیان ہے کہ یمن کا ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا۔ ’’ یمن میں تمہارا کوئی ہے؟‘‘ اس نے کہا (جی ہاں) میرے ماں باپ ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا ۔ ’’ انہوں نے اجازت دے دی ہے۔ اس نے کہا نہیں تو ( میں نے ان سے تو اجازت نہیں لی ہے) آپﷺ نے فرمایا’’ اچھا تو تم واپس جائو اور ماں باپ سے اجازت لو، اگر وہ اجازت دے دیں تب تو جہاد میں شرکت کرو ورنہ ( ان کی خدمت میں رہ کر ) ان کے ساتھ سلوک کرتے رہو‘‘۔ (ابو دائود)
والدین کی اطاعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک شخص میلوں دور سے آتا ہے اور چاہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی معیت میں دین کی سربلندی کے لیے جہاد میں شریک ہو لیکن نبی کریم ﷺ اس کو لوٹا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں جہاد میں شرکت بھی تم اسی صورت کر سکتے ہو جب تمہارے ماں باپ دونوں تمہیں اجازت دیں۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے اس حال میں صبح کی کہ وہ ان ہدایات و احکام میں خدا کا اطاعت گزار رہا، جو اس نے ماں باپ کے حق میں نازل فرمائے ہیں تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہو تو جنت کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے؟ اور جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے بارے میں خدا کے بھیجے ہوئے احکام و ہدایات سے منہ موڑے ہوئے ہے تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لیے دوزخ کے دروزاے کھلے ہوئے ہیں، اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہے تو دوزخ کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے، اس آدمی نے پوچھا۔ اے خدا کے رسولؐ! اگر ماں باپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہوں تب بھی فرمایا، ہاں اگر زیاتی کر رہے ہوں تب بھی ، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی۔ اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی۔ (مشکوۃ)
۔۹۔ ماں باپ کو اپنے مال کا مالک سمجھئے اور ان پر دل کھول کر خرچ کیجئے ۔ قرآن میں ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ (البقرہ:۲۱۵)
’’ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں ، ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دیجئے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو، اس کے اولین حق دار والدین ہیں۔‘‘
ایک بار نبی کریم ﷺکے پاس ایک آدمی آیا اور اپنے باپ کی شکایت کرنے لگا کہ وہ جب چاہتے ہیں میرا مال لے لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس آدمی کے باپ کو بلوایا۔ لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا کمزور شخص حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اس بوڑھے شخص سے تحقیق فرمائی تو اس نے کہنا شروع کیا:
’’ خدا کے رسولؐ ! ایک زمانہ تھا جب یہ کمزور اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی۔ میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا، میں نے کبھی اس کو اپنی چیز لینے سے نہیں روکا۔ آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست و قوی ہے۔ میں خالی ہاتھ ہوں اور یہ مال دار ہے اب یہ اپنا مال مجھ سے بچا بچا کر رکھتا ہے۔
بوڑھے کی یہ بات سن کر رحمت عالمؐ رو پڑے اور (بوڑھے کے لڑکے کی طرف مخاطب ہو کر ) فرمایا ’’ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘
۔۱۰۔ ماں باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کے ساتھ سلوک کیجئے ، ان کا ادب و احترام اور ان کی خدمت برابر کرتے رہیے۔ البتہ اگر وہ شرک و معصیت کا حکم دیں تو ان کی اطاعت سے انکار کر دیجیے اور ان کا کہا ہر گز نہ مانیے۔
وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلَی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمْ لافَلاَ تُطِعُھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا (لقمان :۱۵)
’’ اور اگر ماں باپ دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک بنائو۔ جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے تو ہر گز ان کا کہنا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتے رہو۔‘‘
حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺکے عہد مبارک میں میرے پاس میری والدہ آئیں اور اس وقت وہ مشرکہ تھیں۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میرے پاس میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے متنفر ہیں۔ کیا میں ان کے ساتھ سلوک کروں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرتی رہو۔ (بخاری)
۔۱۱۔ماں باپ کے لیے برابر دعا بھی کرتے رہیے اور ان کے احسانات کو یاد کر کر کے خدا کے حضور گڑگڑا ئیے اور انتہائی دل سوزی اور قلبی جذبات کے ساتھ ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کیجئے۔
خدا کا ارشاد ہے:
وَقُّلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّینِی
صَغِیْرًاo (بنی اسرائیل :۲۴)
’’ اور دعا کرو کہ پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما۔ جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی۔‘‘
یعنی اے پروردگار بچپن کی بے بسی میں، جس رحمت و جاں فشانی اور شفقت و محبت سے انہوں نے میری پرورش کی اور میری خاطر اپنے عیش کو قربان کیا ! پروردگار ْ اب یہ بڑھاپے کی کمزوری اور بے بسی میں مجھ سے زیادہ خود رحمت و شفقت کے محتاج ہیں، خدایا ! میں ان کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتا تو ہی ان کی سرپرستی فرما اور ان کے حال زار پر رحم کی نظر کر۔
۔۱۲۔ ماں کی خدمت خصوصی خیال رکھیے۔ ماں طبعاً زیادہ کم زور اور حساس ہوتی ہے اور آپ کی خدمت و سلوک کی نسبتاً زیادہ ضرورت مند بھی۔ پھر اس کے احسانات اور قربانیاں بھی باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اس لیے دین نے ماں کا حق زیادہ بتایا ہے اور ماں کے ساتھ سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناًط حَمَلَتْہُ اُمُّہَ کُرْھًا وَ وَضَعَتْہُ کُرْھًاط وَّ حَمْلُہُ وَ فِصَالُہٗ ثَلْثُوْنَ شَھْرَاط (الاحقاف:۱۵)
’’ اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لیے لیے پھری ، اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ ( تکلیف دہ ) مدت ڈھائی سال ہے۔‘‘
قرآن نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے اور کٹھنائیاں جھیلنے کا نقشہ بڑے ہی اثر انگیز انداز میں کھینچا ہے اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جاں نثار ماں، باپ کے مقابلے میں تمہاری خدمت و سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ اور پھر اسی حقیقت کو خدا کے رسولؐ نے بھی کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور پوچھا۔‘‘ اے خدا کے رسول! میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’ تیری ماں، اس نے پوچھا پھر کون ہے۔؟ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا تیری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ تو آپﷺ نے فرمایا، تیرا باپ۔‘‘ (الادب المفرد)



 

۔‘‘
قرآن نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے اور کٹھنائیاں جھیلنے کا نقشہ بڑے ہی اثر انگیز انداز میں کھینچا ہے اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جاں نثار ماں، باپ کے مقابلے میں تمہاری خدمت و سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ اور پھر اسی حقیقت کو خدا کے رسولؐ نے بھی کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔
ماشاءاللہ
 
۔
۔۱۲۔ ماں کی خدمت خصوصی خیال رکھیے۔ ماں طبعاً زیادہ کم زور اور حساس ہوتی ہے اور آپ کی خدمت و سلوک کی نسبتاً زیادہ ضرورت مند بھی۔ پھر اس کے احسانات اور قربانیاں بھی باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اس لیے دین نے ماں کا حق زیادہ بتایا ہے اور ماں کے ساتھ سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناًط حَمَلَتْہُ اُمُّہَ کُرْھًا وَ وَضَعَتْہُ کُرْھًاط وَّ حَمْلُہُ وَ فِصَالُہٗ ثَلْثُوْنَ شَھْرَاط (الاحقاف:۱۵)
’’ اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لیے لیے پھری ، اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ ( تکلیف دہ ) مدت ڈھائی سال ہے۔ے
ماشاءاللہ
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ
انتہائی تحقیقاتی اور اصلاحی مضمون
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top