Waqt Ki Buri Mansuba Bandi Ke Nuqsanaat By Vardah Baloch

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
وقت کی بُری منصوبہ بندی کے نقصانات ۔۔۔۔۔ وردہ بلوچ

waqt.jpg

ہر کسی سے کبھی نہ کبھی تاخیر ہو جایا کرتی ہے، لیکن چونکہ اکثر اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس لیے جنہوں نے سیکھنا ہو وہ ضرور سیکھتے ہیں۔ دیر حادثاتی بھی ہو سکتی ہے لیکن بیشتر اوقات اس کا سبب وقت کی بری منصوبہ بندی ہوتا ہے۔
انسان ساری عمر سیکھتا رہتا ہے لیکن ابتدائی دور میں غلطیاں زیادہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر طالب علمی کے زمانے میں وقت کی منصوبہ بندی کی مہارت کم ہوتی ہے اور دھیرے دھیرے بڑھتی ہے۔
بعض لوگوں کے لیے ہر کام تاخیر سے کرنا ایک عادت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ طالب علمی کے ابتدائی دور میں اپنا کام مکمل نہ کر پانا اور ڈیڈ لائن کا چھوٹ جانا کسی حد تک قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اگر یہ مستقل صورت اختیار کر جائے تو اس کے نقصانات ہمارے وہم و گمان سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چیزیں مہنگی پڑ سکتی ہیں: ان دنوں مہنگائی کا بہت شوروغوغا ہے۔ افراط زر نے اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے اور وہ اس سے نجات پانے کی راہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ ایسے میں کون بلاوجہ اخراجات بڑھانا چاہے گا۔
اگر آپ بجلی کے بل کی ڈیڈلائن گزار دیں گے تو اسے جرمانے سمیت ادا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر امتحانات کے داخلے میں تاخیر ہو جائے تو ادائیگی دو گنا یا تین گنا کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ کام وقت پر کرنے کے عادی ہوں گے تو اس طرح کے نقصانات سے بچ جائیں گے۔
موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے: کہا جاتا ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ بہت سے کام اگر وقت پر نہ ہوں، تو پھر کبھی نہیں ہوتے۔ یوں خواب ادھورے رہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بیرون ملک سکالرشپ کی درخواست کا وقت ہاتھ سے نکل جائے تو پھر یہ موقع اگلے برس ہی آئے گا اور ہو سکتا ہے کبھی بھی نہ آئے۔
پیچھے رہ سکتے ہیں: وقت کی پابندی کرنے اور اس کی مینجمنٹ درست طور پر کرنے والے ایسا نہ کرنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ جو طالب علم پورا سال پڑھتا اور مطالعے میں مصروف رہتا ہے وہ عموماً گاہے بگاہے پڑھنے والے کو مات دے دیتا ہے۔ اسی طرح دوران ملازمت بروقت کام کرنے والے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کی کارکردگی بہتر رہتی ہے اور ادارے میں انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مسابقت کے اس دور میں کون چاہے گا کہ وہ پیچھے رہ جائے!
ذہنی پریشانی رہتی ہے: دیر سے پہنچنے پرکلاس چھوٹ جائے یا دفتر پہنچنے میں تاخیر ہو، کوفت لازماً ہوتی ہے۔ جو لوگ رات کو وقت پر نہیں سوتے وہ صبح بیدار ہونے کے بعد تازہ دم نہیں ہوتے، اس لیے پوری مستعدی سے دن بھر کے امور سرانجام نہیں دے پاتے۔ اس طرح ایک کے بعد دوسری پریشانی انہیں گھیرے رکھتی ہے۔ بروقت کام نہ کرنے سے پہلے بھی پریشانی اور بعد میں بھی۔ کبھی کبھار کی تشویش اور پابندی تو زندگی کا حصہ ہوتی ہے مگر ان کا مستقل اور مسلسل رہنا خطرناک ہوتا ہے۔ مسلسل رہنے والی تشویش اور پریشانی نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر سکتی ہے اور زندگی کا سکون چھین سکتی ہے۔
جھوٹ بولنا پڑتا ہے: سکول یا دفتر پہنچنے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے تو اکثر لوگ وقت کی بری منصوبہ بندی کرنے کی ذاتی خامی کے بجائے کسی جھوٹ یا بہانے کا سہارا لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ہم سب جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا نہایت غلط بات ہے لیکن وقت کی بری منصوبہ بندی ہمیں اس کی جانب مائل کرتی ہے۔ کیوں نہ اچھی منصوبہ بندی کر کے جھوٹ سے بھی جان چھڑا لی جائے۔
کارکردگی متاثر ہوتی ہے: جو لوگ غیرضروری مشاغل کی تکمیل کے لیے سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ سے چمٹے رہتے ہیں، وہ اپنا مطلوبہ کام بروقت نہیں کر پاتے۔ وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح جو آرام کرنے کے وقت ''مصروف‘‘ رہیں وہ بے آرام رہ کر اپنی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔
کھانے کے اوقات پر اثر پڑتا ہے: اگر ایک کام وقت پر نہ ہو تودوسرا کیسے ہوگا۔ اگر کوئی تاخیر سے بیدار ہو تو وہ ناشتہ دیر سے کرے گا یا پھر جلدی میں اسے اس سے محروم ہونا پڑے گا۔ وقت کی بری مینجمنٹ کھانے کے اوقات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کھانے کو وقت پر کھانا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ پہلا شکار معدہ بنتا ہے، معدے کی خرابی سے پورا جسمانی نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ اس سے بدہضمی اور السر جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں: افراتفری میں کیے گئے کام میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کی پابندی نہ کرنے سے کئی بار کام تیز رفتاری سے کرنا پڑتا ہے، مگر اس تیزی کی قیمت ادا کرنی پڑ جاتی ہے۔
پس جتنا جلد ہو سکے وقت کی پابندی اور اس کی درست منصوبہ بندی کو اپنا شعار بنائیں تاکہ نہ آپ خود پریشان ہوں اور نہ آپ کی وجہ سے کسی دوسرے کو تشویش میں مبتلا ہونا پڑے۔
اس عادت سے جان چھڑانے کے لیے سب سے پہلے مصمم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نقصانات سے آگاہ ہوں گے تو ایسے ارادے کی راہ یقینا ہموار ہو جائے گی۔ تاہم جب تک ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی درست حکمت عملی وضع نہ کی جائے، مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔
ترقی یافتہ ممالک میں وقت کی بہت قدر کی جاتی ہے جس کے باعث وہاں انفرادی اور مجموعی کارکردگی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں وقت کی پابندی کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں جہاں نظام میں بہتری کی ضرورت ہے وہیں انفرادی کاوشیں بھی لازم ہیں۔​
 

Back
Top