Wasaeil Ki Kami Masla Hai Ya Badintizami By Tariq Habib Column

وسائل کی کمی مسئلہ ہے یا بدانتظامی ۔۔۔۔۔۔ طارق حبیب

ایک شخص نے اپنی گاڑی میں آٹے کے ایک ایک کلو کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے اور وہ لوگوں میں تقسیم کررہا تھا ۔ پیشہ ور بھکاری اور دیگر لوگ ایک کلو کا پیکٹ دیکھ کر اسے وصول کرنے سے گریز کررہے تھے ‘مگر کئی لوگ ایسے بھی تھے جو اس شخص سے پیکٹ وصول کرنے کے بعد اس کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ وہ شخص خاموشی سے آٹاضرورت مند کے حوالے کرتا اوراس اپنے قریب کرکے سرگوشی کرنے کے بعد رخصت کردیتا۔ کچھ لوگ اس شخص کو معمولی مقدار میں آٹا تقسیم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے ‘مگر وہ تنقید کا کوئی نوٹس لیے بغیر اپنے کام میں مگن رہا۔ جب آخری تھیلا دینے کی باری آئی تو اس نے تنقید کرنے والوں کو قریب بلایا اور پیکٹ ضرورت مند کے حوالے کرتے ہوئے اس سے کہنے لگا کہ آٹے میں ہاتھ پھیرو۔ جب ضرورت مند نے آٹے میں ہاتھ پھیرا تو اس میں سے 18 ہزار روپے برآمد ہوئے۔ آٹا تقسیم کرنے والے نے تنقید کرنے والوں سے کہا کہ اگر میں چاہتا تو اس رقم کا راشن بھی تقسیم کرسکتا تھا مگر راشن دیکھ کر لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے‘ جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ اصل ضرورت مند کون ہے۔ ایک کلو کی معمولی مقدار میں آٹا اسی شخص نے وصول کیا ہے جو اصل میں ضرورت مند تھا اور اس کے گھر میں پکانے کے لیے ایک کلو آٹا بھی موجود نہیں تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آٹے میں میری جانب سے چھپائی گئی رقم درست لوگوں تک پہنچی ہے۔مختلف لوگ اس واقعے کو اپنی من پسند شخصیات کے ساتھ منسلک کررہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس طریقہ کار پر مختلف جگہوں پر عمل کیا گیا ہو‘ مگر بتانے والے نے مجھے یہ بتایا کہ یہ واقعہ کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری کا ہے۔
میرے ملک کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اس کے باسی اللہ کے احکامات کے مطابق اپنے ہم وطنوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنے رب کی خوشنودی کے لیے دل کھول کر صدقہ‘ خیرات‘ عطیات اور مختلف مد میں امداد کرتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں اور آئے روز سامنے آنے والے آٹا‘چینی اور بجلی گھروں کے سکینڈل سے دل برداشتہ بھی ہیں‘ا س کے باوجود ہر سال اربوں روپے بینکوں میں زکوٰۃ کی مد میں جمع کراتے ہیں‘ صرف گزشتہ سال مقامی بینکوں میں اس مد میں سات ارب روپے سے زائد رقم جمع کرائی گئی تھی۔ دنیا بھی اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان اپنی مجموعی پیداوار کے ایک فیصد کے برابر خیرات کی مد میں دیتا ہے۔ پاکستان 47مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک میں سے ان چھ ممالک میں شامل ہے جو زکوٰۃ کو رب کا حکم اور دین کا اہم رکن سمجھ کر باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ پھر اگر زکوٰۃ کی یہ رقم وزراء کے علاج ‘اہم شخصیات کے بیرونی دوروں‘ امدادی اشیا کے ذریعے تشہیری مہم چلانے سمیت دیگراللوں تللوں پر اڑا دی جائے تو بدظن ہونا عوام کا حق بنتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے پاس مکمل ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود صرف سیاسی شعبدہ بازی کے لیے غریب عوام کو مجمع کی صورت جمع کیا جاتا ہے اور ان کا تماشا بنا کر کیمرے پر ریکارڈ کیاجاتا ہے۔اس کی مثال حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کئی ویڈیوز ہیں‘ جن میں سرکاری افسران مستحق افراد میں 12ہزار روپے تقسیم کرنے کے بعد انہیں ناچنے‘ جھومنے‘ تحریک انصاف زندہ باد کے نعرے لگانے کا کہتے ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق مستحق افراد کو امدادی رقم گھروں پر دینے کے بجائے بھیڑ جمع کرنے سے پیشہ ور گداگر فائدہ اٹھاتے ہیں اور مستحق افراد کا حق چھین کر لے جاتے ہیں۔ملک میں موجود گداگر مافیا کے 15لاکھ کارندے بے لگام گھوم رہے ہیں اورا نہیں لگام ڈالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ یہ مافیا کورونا وائرس کے پھیلائو کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔اسی طرح عوام میں راشن کی تقسیم کے لیے بلدیاتی نظام بحال کرکے اس نظام کے نمائندوں سے کام لینے کے بجائے لوگوں میں راشن کی تقسیم کے لیے ایک الگ فورس قائم کردی جاتی ہے۔اس فورس کی کروڑوں روپے کی وردیاں سلوائی جاتی ہیں‘ مگر عملی طور پر وہ فورس ملک میں کہیں سرگرم دکھائی نہیں دیتی۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکومت کے بجائے غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کی جانب دیکھتی ہے اور اپنی رقم کے صحیح مصرف کی امید پر ان تنظیموں کے ساتھ دل کھول کر تعاون کرتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال الخدمت فائونڈیشن کی شکل میں موجود ہے‘ جس نے ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کی صورت اپنے اثاثہ جات حکومت کے حوالے کردئیے۔ الخدمت کے ہزاروں کارکنان رات کے اندھیرے میں عوام کے گھروں میں راشن لے کر پہنچے۔ ایسے لوگوں پر خصوصی توجہ دی گئی جنہیں عام طور پر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ مریضوں اور معذوروں کا باقاعدہ ڈیٹا جمع کرکے ان کے گھروں پر سامان پہنچایا گیا‘ خواجہ سرائوں کی ایسوسی ایشن سے رابطہ کرکے ان کے گھروں کی ضروریات پوری کی گئیں‘سکھوں‘عیسائیوں اورہندوئوں سمیت دیگر اقلیتی برادریوں کی عبادت گاہوں کی صفائی کی گئی اورانہیں راشن پہنچایا گیا۔ مجموعی طور پر 62لاکھ افراد میں ایک ارب چھ کروڑ روپے کا راشن تقسیم کیا گیا۔ یہاں تک کہ حکومتی جماعت تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے دفاتر میں بھی جراثیم کش سپرے کیے گئے۔ اسی طرح ایدھی فائونڈیشن‘ انصار برنی ٹرسٹ‘ شاہد آفریدی فائونڈیشن کی جانب سے بھی مستحق افراد کی مدد کی گئی۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جو حکومت اور فلاحی تنظیموں پر بھی اعتبار نہیں کرتی اور انفرادی طور پر بڑی تعداد میں صدقہ و خیرات کرتی ہے۔ ایسے افراد کی ٹھیک تعداد کا تعین کرنا ممکن نہیں ‘ تاہم عام اندازہ یہی ہے کہ ایسے مخیر حضرات کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور ان کی جانب سے مستحق افراد میں راشن سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان کی بطور امداد تقسیم اور براہ راست رقم کی تقسیم تقریباً دوارب روپے سے زائد ہے۔
کسی بھی وبا سے نمٹنا تنہا حکومت کے بس میں نہیں ہے ۔ کورونا کا پھیلائو مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔حکومت کو مزید لاک ڈائون کرنا پڑا تو عوامی ردعمل بہت سخت بھی ہو سکتا ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ابھی بھی سنبھل جائے ۔اگر دیکھا جائے توحکومت کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ایک شفاف طریقہ کار وضع کرکے عوام کا اعتماد جیت سکتی ہے ۔ رمضان المبارک شروع ہوچکا ہے اور اس ماہِ مبارک میں عوام بڑی تعداد میں امدادی سامان اور نقد رقوم مستحق افراد کے حوالے کرتے ہیں۔ 98فیصد پاکستانی کسی نہ کسی صرت صدقہ و خیرات میں حصہ لیتے ہیں ۔ اگر حکومت عوام کا اعتماد حاصل کر لے تو صدقہ‘ خیرات اور زکوٰۃ کی مد میں خطیر رقم انفرادی طور پر خرچ ہونے کے بجائے حکومت کے پاس جمع ہوسکتی ہے‘ جسے حکومت مستحق افراد کی مدد کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ اس سے عوام میں حکومت کی سیاسی ساکھ بہتر ہوگی ۔اس کے لیے بلدیاتی نظام کی بحالی بہت ضروری ہے جس کی جانب حکومت توجہ نہیں دے رہی اور صرف عوام تک رسائی کے اس واحد نظام کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ حکومت کو خطرہ ہے کہ اگر بلدیاتی نظام کی بحالی کی جانب قدم اٹھایا تو اپوزیشن مضبوط ہو جائے گی‘لیکن اگر حکومت بلدیاتی نظام کی بحالی کو اپنی شکست سمجھنے کے خوف سے باہر نہ نکلی تو یہ خوف اسے لے ڈوبے گا۔​
 

Back
Top