Wazir e Azam Ke 3 Dushman By Anjum Farooq

وزیراعظم کے تین دشمن ۔۔۔۔۔ انجم فاروق

ارسطو اپنے شاگردِ خاص سکندر اعظم سے مخاطب تھا'' دنیا کا سب سے آسان کام وعدہ کرنا اور مشکل ترین کام اسے نبھاناہے۔ وعدہ توڑنا قتل جتنا بڑا جرم ہے ‘ جذبات بھلے دکھتے نہ ہوں مگر مرتے ضرور ہیں‘‘۔کیا ہمارے آج کے حکمرانوں کو وعدہ خلافی کی تعزیر معلوم ہے ؟ فرد جرم طویل ہوتی جا رہی ہے ‘مگر سوال یہ ہے کہ اور کتنی طویل ہوگی ؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے لیے 22 کا ہندسہ خوش نصیبی کی علامت ہے ۔ انہوں نے 22 سال کرکٹ کھیلی اور ورلڈکپ جیت کر پاکستانیوں کو شاد کر دیا ۔ وہ 22 سال تک سیاست کی دھول کھاتے رہے اور پھر وزیراعظم کی کرسی ان کا مقدر ٹھہری ۔ اب مسندِ اقتدار پر بیٹھے انہیں 22 ماہ بیت چکے ہیں ‘ کیا اس بار بھی یہ ہندسہ ان کے لیے اور قو م کے لیے خوش بختی کا پیغام ہے ؟ اگر نہیں ‘ تو اس کی وجہ اکیلے وزیراعظم ہیں یا کوئی اور بھی حصہ دار ہے ؟ میرے نزدیک وزیراعظم کے تین'' دشمن‘‘ ہیں‘ جن کے باعث تحریک انصاف کی حکومت عوام کے ساتھ انصاف نہ کرسکی ۔ 22 مہینوں کی کہانی تپتے صحرا کا سفر ہے ‘ کون جانے کب سورج ڈھلے اور ٹھنڈی ہوا تپش کو کھا جائے ۔
وزیراعظم کا پہلا دشمن کابینہ کے ارکان ہیں‘ جہاں تین طرح کے وزرا بیٹھے ہیں ۔ ایک وہ جو انتظامی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں مگر ان سے صلاحیت کے مطابق کام نہیں لیا جارہا ۔پرویز خٹک اس کی سب سے بڑی مثال ہے‘ وہ وزیراعلیٰ کے پی یا وزیرداخلہ بننا چاہتے تھے مگر وزیراعظم نے سزا کے طور پرانہیں وزیردفاع لگادیا ۔ سب جانتے ہیں پاکستان میں یہ نمائشی عہدہ ہوتا ہے ۔ شاہ محمود قریشی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند تھے مگر وزیرخارجہ بنا کر انہیں بھی سائیڈلائن کر دیاگیا ۔ شیخ رشید کا دل بھی وزارت داخلہ اور اطلاعات میں اٹکا ہواہے مگر وزیراعظم نے ریلوے کا کام سونپ کر ان کا دل بھی توڑدیا ہے جبکہ شفقت محمود اور فواد چودھری بھی وہ کام کر رہے ہیں جو ان کے من کو نہیں بھاتا ‘ جس کے نتیجے میں ان تمام وزارتوں کی کارکردگی قابلِ فخر نہیں ہے۔ کابینہ میں دوسری قسم کے وہ وزرا ہیں جو صحیح معنوں میں حکومت پر بوجھ ہیں کیونکہ انہیں انتظامی معاملات کا فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ان میں علی زیدی‘ مراد سعید ‘حماد اظہر ‘ امین الحق ‘صاحبزادہ محبوب سلطان ‘ شہریارآفریدی ‘ زلفی بخاری ‘ عثمان ڈاراورزرتاج گل شامل ہیں۔یہ وزرا تاحال آن جاب ٹریننگ پر ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہے۔ کابینہ میں تیسری قسم کے وزرا میں حفیظ شیخ ‘ خسرو بختیار‘ غلام سرور خان ‘عمر ایوب ‘ نورالحق قادری ‘میاں محمد سومرو‘ فخرامام ‘عشرت حسین اور رزاق داؤد شامل ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حکومت کے بازو بن جاتے ہیں‘ اس لیے ان کی صلاحیتوں میں اب وہ پرانے والا دم خم نہیں رہا ۔ یہ وزرا اپنے سارے منتر بھول چکے ہیں جس کا نقصان موجودہ حکومت کے حصے میں زیادہ آیا ہے ۔
وزیراعظم اپنے پہلے دشمن کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں کیونکہ ان کی کارکردگی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں ۔ مہنگائی کنٹرول کرنا‘ ڈالر کی اڑان کو روکنا‘ ٹیکس اکٹھا کرنا‘ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا‘ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینا‘برآمدات میں اضافہ ‘ بے روزگاری کاخاتمہ اور ترقی کی شرح میں اضافہ کرنا حکومت کا کام تھا مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اب اس ناکامی کے زخم عوام کو جھیلناپڑ رہے ہیں ۔ وزیراعظم کی مشکل یہ ہے کہ ان کی پارلیمانی ٹیم میں باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے ۔ وہ حکومت پر بوجھ بننے والے وزرا کو بدلنا چاہیں بھی تو نہیں بدل پاتے ‘ اسی لیے انہیں ہر جگہ غیرمنتخب لوگوں کا سہارا لینا پڑ تاہے ۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ وزیراعظم 22 برسوں تک حکومت بنانے کی تگ ودومیں رہے‘ حکومت چلانے کا خیال انہیں نہیں تھا۔ وزیراعظم کے پہلے دشمن کی کارکردگی کی قیمت ملک کو جی ڈی پی میں 35 ارب ڈالرکے خسارے کی صورت میں بھگتنا پڑی‘ جس کے بعد وزیراعظم کا دوسرا دشمن سامنے آیا ۔ یہ دشمن کورونا وائرس تھا جو صرف انسانی جانوں ہی کا نہیں بلکہ معیشت کا بھی قاتل نکلا ۔کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کے معاشی اشاریے منفی میں جانے لگے ۔ماہرین کے مطابق مارچ میں ملک کی ایکسپورٹس میں آٹھ فیصد جبکہ اپریل میں 54 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ۔ ایف بی آر کو مارچ میں 10 فیصد اور اپریل میں 14 فیصدریونیو شارٹ فال کا سامنا رہا۔ پرائیویٹ سرمایہ کاری میں بھی 25فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ صوبائی حکومتوں کو جون تک دو سو ارب نقد کیش کی کمی کا سامنا بھی کر ناپڑسکتا ہے ۔ یہی نہیں‘ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کیے گئے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ترقی کی شرح 68 سال بعد منفی 0.4 فیصدتک گر سکتی ہے جبکہ ملک میں جی ڈی پی کا حجم 279 ارب ڈالر سے کم ہو کر 264 ارب ڈالر ہوچکا ہے ۔ کورونا وائرس کے بعد فی کس آمدنی میں بھی لگ بھگ 90 ڈالر تک کمی متوقع ہے جو عام آدمی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ وزیراعظم کا تیسرادشمن عمران خان کی انا اور خود پسندی ہے ۔ ملک چلانے کے لیے حکومت اوراپوزیشن کا کرداراہم ہوتا ہے مگر عمران خان کبھی بھی سازگارماحول کو پنپنے نہیں دیتے ۔ میں نے ایک بار وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے پوچھا کہ وزیراعظم اپوزیشن کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیںکرتے ؟ وزیرموصوف نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے اگر اپوزیشن پر یو ٹرن لے لیا تو ہماری سیاست ختم ہو جائے گی ۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ وزیراعظم آئی ایم ایف ‘ آزاد خارجہ پالیسی‘ ایمنسٹی سکیم ‘ ایم کیو ایم‘ ق لیگ ‘ آزاد امیدوار‘ موروثی سیاست ‘ گورنر ہاؤسز ‘ وزیراعظم ہاؤس ‘ شاہی پروٹوکول ‘ہارس ٹریڈنگ ‘ٹرین حادثات اور صدارتی آرڈیننس سمیت پچاس کے قریب یوٹرن لے چکے ہیں‘ کیا اس کا تحریک ِانصاف کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ؟
وزیراعظم کو اگر عوام سے کیے وعدے یاد ہیں تواپنے تینوں دشمنوںکو مات دیں‘ یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ کابینہ نے اپنی کارکردگی بہتر نہ کی تو کورونا کی تباہ کاریاں بڑھتی جائیں گی جس سے پہلے سے بدحال معیشت کا جنازہ نکل جائے گا اور کابینہ کی کارکردگی افراتفری اور دشنام طرازی کی سیاست ختم کیے بغیر اچھی نہیں ہوسکتی ۔اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم اپنی انا اور ضد کی قربانی دیں‘ ورنہ ایسا نہ ہوانگلیاں ان کی طرف اٹھنے لگیں کیونکہ یہ بات اب نوشتۂ دیوار ہے کہ اگلے 22 ماہ اس کارکردگی کے ساتھ نہیں گزریں گے ۔کوئی جائے اور وزیراعظم کو حافظ کا یہ شعر سنائے ۔
میانِ عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
تو خود حجابِ خودی حافظ از میان برخیز
(عاشق اور معشوق کے درمیان جو چیز حائل ہے وہ خود عاشق ہے اور دوری ختم کرنے کے لیے خود عاشق کو بیچ سے اٹھ جاناچاہیے )​
 
Columnist
Anjum Farooq

وزیراعظم کو اگر عوام سے کیے وعدے یاد ہیں تواپنے تینوں دشمنوں کو مات دیں‘ یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ کابینہ نے اپنی کارکردگی بہتر نہ کی تو کورونا کی تباہ کاریاں بڑھتی جائیں گی جس سے پہلے سے بدحال معیشت کا جنازہ نکل جائے گا اور کابینہ کی کارکردگی افراتفری اور دشنام طرازی کی سیاست ختم کیے بغیر اچھی نہیں ہوسکتی ۔اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم اپنی انا اور ضد کی قربانی دیں‘ ورنہ ایسا نہ ہوانگلیاں ان کی طرف اٹھنے لگیں کیونکہ یہ بات اب نوشتۂ دیوار ہے کہ اگلے 22 ماہ اس کارکردگی کے ساتھ نہیں گزریں گے
@Mem00na
کورونا کو جس حد تک ہم سمجھتے ہیں آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں ، باقی معاملات فوٹو سیشن سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Back
Top