Ye naii nasal ka zamana hai By Masood Ashar Column

یہ نئی نسل کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مسعود اشعر

ایسا لگتا ہے، جیسے ہم بہت ہی پرانے ہو گئے ہیں۔ بعض شعبوں میں ہماری پسند اور ناپسند اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اس میں معمو لی سی تبدیلی تو ہم قبول کر لیتے ہیں لیکن کوئی بڑی تبدیلی ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ یہاں ہم سیاست کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ سیاست تو نام ہی وقت کے ساتھ تبدیلیوں کا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں موسیقی کی‘ اور وہ بھی اپنی کلاسیکی یا استادی موسیقی کی۔ اور بات کر رہے ہیں ان اداروں اور ان انجمنوں کی جو ہماری استادی موسیقی کی بقا اور ان کے فروغ کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ یہ انجمنیں سالہا سال سے اس فنِ لطیف کو اس کی کلاسیکی شکل میں بر قرار رکھنے کی کو شش کر رہی ہیں۔ یہ انجمنیں یا یہ ادارے اپنے بنیادی مقاصد سے روگردانی کرنے لگیں تو واقعی ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ یوں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں اس روگردانی پر ناک بھوں چڑھانے والے؟ لیکن اگر کسی ادارے کے ساتھ آپ کا تیس چالیس سال پرانا تعلق ہو تو اس تبدیلی یا اس روگردانی پر تکلیف تو ہو گی نا۔ اور ہم یہاں اس تکلیف میں ہی آپ کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔
حیات احمد خان کمال کے آدمی تھے۔ موسیقی، اور وہ بھی اپنی کلاسیکی موسیقی سے انہیں خاص رغبت تھی۔ اس شاستریہ سنگیت یا استادی موسیقی کو زمانے کی دستبرد سے بچانے اور پاکستانی معاشرے میں اسے فروغ دینے کیلئے انہوں نے برسوں پہلے لاہور میں ایک ادارہ بنایا تھا۔ اس کا نام رکھا ''کل پاکستان موسیقی کانفرنس‘‘۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پابندی کے ساتھ اس کی محفلیں جمنا شروع ہو گئیں۔ آپ بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کا کون نامور گائیک ایسا تھا، یا ایسا ہے، جو اس کانفرنس کی محفلوں میں شریک نہ ہوا ہو۔ جب تک ہندوستان سے آنا جانا لگا رہا اس وقت تک وہاں کے بڑے بڑے گائیک بھی اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ہو سکتا ہے ان کے بعد بھی کئی اور نامور ہندوستانی گائیک اس محفل میں شریک ہوئے ہوں، لیکن ہمیں جہاں تک یاد ہے، ہم نے جس آخری نامور ہندوستانی گائیک کو اس محفل میں سنا، وہ تھے پنڈت جسراج۔ بعد میں ہندوستان سے ان گائیکوں کا آنا جانا تو بند ہو گیا، لیکن پاکستان کے بڑے بڑے استاد گائیک نہایت پابندی سے ان محفلوں میں شریک ہوتے رہے بلکہ ابھی تک وہ شریک ہو رہے ہیں۔ ان محفلوں میں صرف پرانے گائیکوں کی پذیرائی ہی نہیں کی جاتی بلکہ نوجوان موسیقاروں کو بھی اپنا فن پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کئی کلاسیکی گائیک ایسے ہیں جنہیں اس کانفرنس نے ہی پروان چڑھایا ہے۔ ماہانہ محفلوں کے ساتھ سال کے سال اکتوبر میں کلاسیکی موسیقی کی ایک بڑی محفل جمتی اور موسیقاروں کا بہت بڑا اجتماع بھی ہوتا ہے۔ یہ اجتماع ہوتا ہے باغ جناح کے اوپن ائیر تھیٹر میں۔ یہاں نئے اور پرانے فن کار سب موجود ہوتے ہیں۔ یہاں گائیکی کا مقابلہ ہوتا ہے اور انعام بھی دیئے جاتے ہیں۔ حیات احمد خان کلاسیکی موسیقی کے ساتھ اپنی مشرقی تہذیب کے متوالے بھی تھے۔ ان کی محفل میں تالیاں بجانے پر پابندی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ موسیقی سنتے ہوئے تالیاں بجانا مغرب کی روایت ہے۔ ہماری مشرقی تہذیب میں اگر کوئی گانا پسند آتا ہے تو اس پر تالیاں نہیں بجائی جاتیں بلکہ بے ساختہ منہ سے ''واہ‘ سبحان اللہ، جزاک اللہ‘‘ یا پھر ''کیا کہنے ہیں استاد‘‘ نکلتا ہے۔ ایک اور اصول جس کی ان محفلوں میں سختی سے پابندی کی جاتی ہے، وہ ہے وقت کی پابندی۔ محفل شروع کرنے کا وقت شام چھ بجے ہے۔ اب آندھی آئے یا طوفان محفل ٹھیک چھ بجے ہی شروع ہو گی۔ ان محفلوں میں شریک ہونے والوں کو بھی اس کا علم ہے۔ اس لئے وہ بھی وقت پر ہی وہاں موجود ہوتے ہیں۔ حیات احمد خان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی پروفیسر ڈاکٹر غزالہ عرفان نے بھی اس روایت کو اسی طرح بر قرار رکھا ہے۔
لیکن پچھلے مہینے ہمیں ایسا لگا جیسے یہ روایت توڑی جا رہی ہے اور نئی روایت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ کل پاکستان موسیقی کانفرنس اب نئی نسل کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ ہم یہاں آپ کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ حیات احمد خان ان محفلوں میں استادی موسیقی پر ہی زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جنہیں ہم پکے گانے کہتے ہیں‘ وہی وہاں گائے جاتے تھے۔ ہلکی پھلکی موسیقی ٹھمری اور دادرا تک ہی محدود تھی۔ غزل کو بھی اتفاق سے ہی وہاں رسائی ملتی تھی۔ لیکن ہم پچھلے مہینے والی جس محفل کا یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں، اس میں نہ کلاسیکی راگ راگنیاں تھیں اور نہ ٹھمری اور نہ دادرا بلکہ پنجاب کے میلوں ٹھیلوں میں جو دیہی تھیٹر نظر آتا ہے وہ یہاں موجود تھا‘ اور حیات احمد خان نے اپنی محفل میں تالیاں نہ بجانے کی جو روایت ڈالی تھی وہ روایت بھی یہاں پاش پاش ہو گئی تھی۔ یہاں کہہ کہہ کر تالیاں بجوائی جا رہی تھیں۔ ہم یہ دیکھ رہے تھے اور حیات احمد خان کو یاد کر رہے تھے۔
اور پھر ہم نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے آپ کو سمجھایا کہ وقت کے ساتھ تبدیلی تو آنا ہے۔ نئی نسل کو ہم اپنی پرانی روایات کا قیدی بنا کر تو نہیں رکھ سکتے۔ وہ تو عوامی کلچر کی طرف بہرحال جائے گی۔ شکر یہ ہے کہ اس محفل میں جو عوامی کلچر پیش کیا گیا، وہ بھی پنجاب کی لوک داستانوں کی شکل میں تھا۔ یہ عاشق جٹ تھے جنہوں نے میلوں ٹھیلوں میں پنجاب کی ان لوک داستانوں کو عوامی کلچر کا حصہ بنایا۔ انہوں نے لوک داستانوں کو ڈرامائی شکل دی۔ ان کے انتقال کے بعد اب ان کے صاحبزادے فضل جٹ اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس شام ہمیں کل پاکستان موسیقی کانفرنس کے سٹیج پر پنجاب کا قدیم کلچر اپنی پوری توانائی کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ وہی رنگ بر نگا، بھڑک دار لباس اور وہی پیاری پیاری لڑکیوں کا رقص‘ اور وہی لوک داستانیں بیان کرنے کا ڈرامائی انداز۔ فضل جٹ نے سسی پنوں اور سوہنی مہینوال کی داستان پیش کی اور اتنی دلچسپ اور دلکش انداز میں پیش کی کہ ہم بھی کلاسیکی موسیقی کی روایت بھول گئے اور فضل جٹ اور ان کے ساتھی لڑکوں اور لڑکیوں کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ اب اگر اس وقت پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا تو غلط نہیں تھا۔ مگر ایک سوال ہمیں تنگ کر رہا تھا۔ اگر اس وقت حیات احمد خان وہاں موجود ہوتے تو وہ کیا کہتے؟ مگر ان کی زندگی میں یہ ہوتا ہی کیوں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ فضل جٹ نے پورے ہال پر جادو کر دیا تھا اور ایک دو گھنٹے بعد بھی وہاں سے کوئی اٹھنے کو تیار نہیں تھا‘ مگر پھر وہی ہمارا اور حیات احمد خان مرحوم کا دکھ۔ جو ادارہ کلاسیکی موسیقی کی بقا اور اس کے فروغ کے لئے قائم کیا گیا ہے، کیا اسے اپنے اصل مقصد سے ہٹ جانا چاہیے؟ بلا شک و شبہ لوک داستانیں ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت کا حصہ ہیں اور انہیں محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے‘ لیکن ان کے اور عوامی تھیٹر کے لئے تو اور بھی بہت ادارے موجود ہیں۔ نیشنل کونسل آف آرٹس یا پنجاب کی آرٹس کونسلیں یہی کام کر رہی ہیں‘ لیکن کلاسیکی موسیقی کے لئے کم سے کم لاہور میں تو صرف کل پاکستان موسیقی کانفرنس ہی ہے۔ اگر وہ بھی اس عوامی کلچر کے فروغ میں لگ گئی تو پھر ہماری کلاسیکی موسیقی کا کیا بنے گا؟ لاہور میں یہی ایک ادارہ ہے یا پھر کراچی میں شریف اعوان صاحب کی تہذیب فائونڈیشن ہے۔ یہی دو ادارے ہیں جو اس فن کی بقا اور اس کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
اب یہاں تک لکھنے کے بعد ہمارے اندر سے یہ سوال ابھرا کہ کیا واقعی ہم بہت پرانے ہو چکے ہیں؟ کیا واقعی ہماری پسند اور ناپسند اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اپنے پسندیدہ فنِ لطیف میں کوئی رد و بدل ہم سے برداشت نہیں ہوتا؟ لیکن پھر خیال آیا کہ اگر آج حیات احمد خان کی کل پاکستان محفل موسیقی کے سٹیج پر میلوں ٹھیلوں والا تھیٹر نظر آ سکتا ہے تو کل یہاں وہ میوزیکل بینڈ بھی اپنا دھوم دھمکا کرتے دکھائی دیں گے جو کچھ کمپنیوں کے پروگراموں میں نظر آتے ہیں‘ تو پھر ہماری کلاسیکی موسیقی کہاں جائے گی؟ اس کی سرپرستی کون کرے گا؟ مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ حیات احمد خان تو اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہم سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ یہ نئی نسل کا زمانہ ہے۔ تو کیا ہمیں اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑیں گے؟ پچھلی محفل کے بعد یہی سوال ہمیں پریشان کر رہا ہے۔

 

Back
Top